تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
میرے آقائے کریم ﷺ نے شعبان کے آخری روز ایک خطبہ دیا جس کا ذکر احادیث میں موجود ہے، آپ نے اس میں رمضان کے فضائل بیان فرمائے،اور اس میں آپ نے اس مہینے کو ”شہرالمواسات“ فرمایا اس کا معنی ہوتا ہمدردی،غمگساری کا مہینہ،علماء نے لکھا ہے کہ روزہ رکھنے سے بندے کو معلوم ہوتا ہے کہ بھوکے اور پیاسے بندے پرکیا بیتتی ہے،اوراس طرح بندے کے دل میں غریب اورمجبور لوگوں کے لیے ہمدردی پیداہوتی ہے،لیکن بھلا ہو ہمارے ثواب بیانوں کا کہ انہوں نے رمضان کے روزے اور اس کے اندر عبادات پر اتنا زوردیا ہے کہ لوگ مواسات کو ثانوی حیثیت دینے لگ گئے، آج کل حج وعمرہ کاخرچہ پاکستان کی ریاستِ مدینہ والی حکومت کی خاص مہربانی سے اوریہود ی سازش کورونا کے چکرمیں کئی گنا بڑھ گیا ہے۔لیکن ثواب کے خریداراس ظلم کے باوجوداپناہی نہیں قوم وملک کا مالی نقصان کرکے رمضان کے عمرہ کے لیے،بھاگے جارہے ہیں، حتیٰ کہ خود علمائے امت جن کو یہ علم ہے کہ حج کسی بندے پر زندگی میں ایک ہی بار فرض ہے،وہ بھی اپنی سالانہ حاضری اورخوش نصیبی بڑھانے کے لیے کسی بھی طریقے سے چاہے وہ اپنی گرہ کا نقصان ہو یا کسی کی بخشش کا سامان ہو یا سرکاری ملازمت کے حوالے سے قوم کا مال ہو لے کر خدا اور رسول ﷺ کے در پر جاتے ہیں۔عالمی سازش کے تحت پاکستان کی حکومت نے ڈالر کی قیمت بڑھا کر اور پھر اپنی طرف سے بھی حج وعمرہ کے اخراجات بڑھا کر ایک دولاکھ میں ہونے والا کام اب کئی گنا زیادہ پرکردیا ہے۔اب کوئی ایسا بندہ جس پر حج فرض ہو اوروہ باقی فرائض کو کما حقہ ادا کرتا ہو،اوراسے لازم ہو کہ وہ حج کرلے،توایسے ظالموں اور کافروں کو فائدہ پہنچانے والے دورمیں،اگرپہلا حج کرلے تو جائزہے، لیکن جو لوگ حج وعمرہ اپنے مُردوں کو بخشوانے کے لیے کسی سے کرارہے ہیں، انہیں شاید ایسے حالات میں جب کہ ان کے اردگرد امت کے لوگ ضروریاتِ زندگی سے مجبور ہوکر خودکشیاں کررہے ہوں،حتیٰ کہ باوسائل لوگ بھی زندگی سے بیزار ہوچکے ہوں،جب حج وعمرے کا پیسہ کفار کے ہتھے چڑھ رہا ہو تومیرے اپنے خیال میں (یہ فتویٰ نہیں) اس وقت نفلی حج وعمرہ نہ کرنا بہتر ہے، کیونکہ اللہ اوررسول اللہ ﷺ نے کفارومشرکین کو کسی طرح سے بھی فائدہ پہنچانے سے منع فرمایا ہے،الا کہ ان کے غرباکو انسان سمجھ کر مدد کرنا،لیکن کفارومشرکین کے کاروبار بڑھانے کے لیے اس قدر پیسہ اپنی کسی نفلی عبادت کے نام پرخرچ کرنا کیا اسراف میں نہیں آتا؟لیکن آج نادان قوم یہ کہہ رہی ہے کہ مہنگا حج وعمرہ کروتو پتہ چلے کہ کسے اللہ کے گھر سے کتنی محبت ہے۔لیکن دوسری طرف اللہ ایک حدیثِ قدسی میں فرماتا ہے،بروزِ قیامت اللہ ایک بندے (حاجی صاحب)سے کہے گا، کہ میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا تھا،میں بیمارتھا تو مجھے تسلی دینے بھی نہ آیا تھا،تو حاجی صاحب کہیں گے یاا للہ توتو پاک ہے،تجھے تو نہ بھوک آتی ہے نہ بیماری آتی ہے، تو میرا رب کہے گا،اوبندے تیرے پڑوس میں میرا فلاں بندہ بھوکاتھا، تواگر اسے کھانا کھلاتا تومجھے وہاں پاتا،میرا فلاں بندہ بیمارتھا تو اگر اس کی بیمارپرسی کرتا تو مجھے وہاں پاتا۔اب گزارش ہے،۔گھر زیادہ اہم ہوتا ہے یا گھر والا،میری جھلی قوم کے لوگوں کو ابھی تک یہ ہی علم نہیں، کہ بادشاہ کے محل کا طواف کرنے سے اہلکار بادشاہ کو رپورٹ کرتے ہیں، لیکن جسے بادشاہ خود جنگل میں بھی مل جائے،وہ ا س کی بات خود سنتا ہے،لیکن چونکہ ہم حساب وکتاب میں لگے ہوے ہیں،کہ کب کہاں کتناثواب ملتا ہے، لہذااسی ہوس میں ثواب جمع کرتے کرتے کام سے ہی جاتے رہتے ہیں،حکایات میں ہے دمشق میں کسی جگہ ایک موچی جو ساری زندگی اپنی حلال کمائی سے پیسے جمع کرتا رہا،کہ حج کروں گا، جس دن حج کے لیے جانے لگا تواس کی بیوی نے اپنے ہمسائے کے گھر سے گوشت کی سوند سونگھی تو اس نے ہمسائیوں سے کہا کہ آج میرا خاوند سفرپر جارہا ہے، ہمارے گھر کچھ اور پکا ہے اگر آپ گوشت کا سالن دے دیں،تو میں اسے گوشت سے کھانا کھلا دوں، گھروالوں نے کہا نہیں یہ آپ کے لیے جائزنہیں، اس عورت نے پوچھا وہ کیوں؟ جب آپ کے لیے جائزہے تو ہمارے لیے کیوں نہیں،توان مائی صاحبہ نے کہا میری بیٹیا ں آج تین دن سے بھوکی تھیں، میرے پاس کچھ نہ تھا تو میں مجبور ہوکر شہر سے باہر گھورے پر پڑے مردار کا گوشت اٹھا لائی ہوں اور یہ مردار کا گوشت ہمیں توجائزہے،آپ کونہیں،تووہ عورت روتی ہوئی گھر آئی خاوند کو سارا قصہ سنایا،تو اللہ کے اس محبوب بندے نے اپنا سارا رخت سفر کھولا اوراپنی بیوی کے ہاتھ ان ہمسائیوں کے پاس بھیج کرکہا اب مردار کا گوشت نہ کھائیں،اورخود اللہ کی رضا پر بیٹھ گیا،حج کے بعد کسی ولی اللہ نے جوحج میں موجود تھے خواب میں فرشتوں کو باتیں کرتے سنا کہ اس سال کا حج کس کا قبول ہوا ہے، تو دوسرے فرشتے نے کہا فلاں موچی جو دمشق کے فلاں محلے میں رہتا ہے اس کا، اورپھریہ کہا کہ اس کی وجہ سے آج آئے ہوے سب لوگوں کا حج قبول ہوگیا ہے، اللہ کے ولی بیدار ہوے اور دمشق کو چل دئیے،اسے ڈھونڈا اسے مبارک دی کہ اس سال کا تیراحج قبول ہوگیا ہے روایات میں ہے کہ اس کے جاننے والے لوگوں نے اسے حج کرتے دیکھا بھی تھا،تو اس نے روتے ہوے کہاحضور میں نے حج تو کیا ہی نہیں تو میرا کیسے قبول ہوگیا ہے،اب اسنے واقعہ بتایا کہ میرا ارادہ تھا عین وقت پر میں رہ گیا،اللہ کے ولی نے اس کے ہاتھ چومے اور فرمایا اسی لیے تیرا حج فرشتوں نے تیری شکل میں کیا۔لہذالوگوں سے گزارش ہے کہ اسے کہتے ہیں حجِ بدل نہ کہ لوگوں کو پیسے دے کر حج پر بھیجنے سے حجِ بدل ہوتا ہے،خوش قسمت وہ بھی ہیں جو مالک کے درپر جاتے ہیں لیکن اصل خوش قسمت وہ ہیں کہ مالک جن کے گھر آتے ہیں،لہذااس ”شہر المواسات“ میں ہی سہی لوگوں کی خبرگیری کریں، اللہ کسی گھرمیں نہیں ہوتا جسے بھی ملا ہے اسے کسی ٹوٹے دل میں ملا ہے،میرے نبی ﷺ کی نظر جب بھی کسی پرہوئی ہے،وہ کسی امتی کے درد رکھنے والے پر ہوئی ہے،ورنہ میرے آقاکے آستاں پرتو نجدی بھی کھڑے ہیں، لیکن ان پرنظرکیا ان سے خبر بھی چھین لی،وہ زندگی دینے والے کو نعوذباللہ مردہ قررار دے رہے ہیں،لہذااس دورِ دجالی میں امت کو دجال سے بچانے کے لیے ان سے مواسات کریں،اور ڈھونڈڈھونڈ کرکریں، اللہ اوراللہ کے رسول ﷺ آپ کو اپنی نظرِ رحمت میں رکھیں گے،وماعلی الاالبلاغ۔