ثواب حکمِ الٰہی میں ہے ناکہ کسی کام میں : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

رمضان شریف کی آمد آمد ہے،ثواب فروشوں کی دکانیں سجنے سنورنے لگی ہیں۔ وٹس ایپ پہ ایک وائس میسج کسی نے چلایا ہے کہ بینک سے بذریعہ کارڈ روپے نکالنے والے ہوشیار باش کہ وہاں ایک انگلش میسج آتا ہے،جو کسی  خدمتِ خلق کے کاروباری کی طرف سے ہے، جس میں انگلش میں لکھا ہوتا ہے کہ آپ زکواۃ سے ڈونیٹ کرنا چاہپتے ہیں، اکثر لوگ انگلش میسج پڑھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے،وہ اسے معمول کی کاروائی سجھ کر انٹر مار دیتے ہیں، جس کا مطلب ہوتا ہے ہاں، اب ٹرانزکشن جو ہوگی وہ ساری کسی نامعلوم خدائی خدمت گار کے اکاونٹ میں چلی جائے گی،اور بندہ خالی ہاتھ باہر نکلے گا، اب بینک والے بھی اسے واپس نہیں کرا سکتے، کہ اللہ کے پاس گئی ہوئی چیز واپس تو نہیں لی جاسکتی نا۔پہلی تو بات  یہ ہے کہ انگریزی سرکاری زبان ہونے کا فائدہ،جو ہماری جھلی قوم ستر سالوں سے اپنے آقاوں کے سامنے گونگوں کی طرح منہ کھولے کھڑی اٹھا رہی ہے وہ یہ ہے، دوسرے یہ کہ اللہ کے قانون کے خلاف ثواب کمانے والوں کا یہی حشر ہونا تھا سوہورہا ہے۔کبھی کوئی میجر طارق فون کرتا ہے کہ آپ کی تصدیق چاہیے ہے، تولوگ دے دیتے ہیں،کیوں؟ اس لیے کہ وہ اگر نہ دیں تو توہین ِ کے زمرے میں آکر ذلیل ہونا پڑتا ہے۔ اب اس مقدسات سے ڈرائی ہوئی قوم کو کوئی بھی دھوکا دے سکتا ہے، لیکن اس کا ذمہ دار کون ہے؟ شاید جانتے  ہوہے بھی کوئی نہ بتا سکے۔البتہ یہ تو ایک نیا واقعہ تھا تو عرض کردیا کہ کارڈ استعمال کرنے والے کسی ثواب کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں خوب دیکھ بھال کر کارڈ استعمال کریں۔  البتہ اصل گزارش یہ ہے کہ ثواب کسی کام میں نہیں ہوتا بلکہ ثواب اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کی اطاعت وتابعداری میں ہوتا ہے۔اگر وہی کام جس کا ثواب اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے بتایا ہے، کوئی ایسا بندہ جو اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کونہ ماننے والا کرے تو اسے ثواب نہیں ملتا، یا کوئی اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے حکم کے برعکس کرے تو چاہے وہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کو ماننے والاہی ہوتو بھی اسے ثواب نہیں ملتا، بلکہ اکثر ایسے کام کرنے والے کو ثواب کے بجائے گناہِ عظیم ملتا ہے۔زکواۃ وصدقات مسلمانوں پر فرض ہیں، کہ اسلام کے پانچ  بنا یعنی ایسی پانچ چیزیں جن پر اسلام کی عمارت کھڑی ہے،اورجن میں سے ایک سے انکار پر ہی  بندہ دائرہِ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔توکیا اتنی بڑی شدید چیز کے لیے اللہ نے کوئی قاعدہ کلیہ نہیں عطافرمایا کہ ہر بندہ جیسے چاہے اسے اپنی من مرضی سے کرتا رہے۔جیسے پہلے رکن یعنی کلمہ طیبہ کے ایک جز ختمِ نبوت کاہی نکار کرنے والا مسلمان نہیں کافر ہوجاتا ہے،حضرت ابوبکر صدیق کے دورِ خلافت میں زکوات سے انکار کرنے والے بھی کافر کہلائے اور ان سے باقاعدہ جہاد ہو ا۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی لاریب کتاب میں زکواۃ کی ادائیگی  کے  طریقے  اورمصرف  بیان فرمادئیے ہیں۔اب اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوے طریقے کے برعکس جو بندہ زکوات دیتا ہے،وہ ثواب نہیں اللہ کے عذاب کا مستحق ٹھہرتا ہے،کہ وہ خودکو خداسمجھ بیٹھا ہے۔کہ اس نے اللہ کی مخلوق کی بھلائی کرنی ہے،اب اسے کسی قانون قاعدے کی ضرورت نہیں۔میرے اللہ کے حکم کے مطابق اسلامی حکومت یعنی جو اسلامی قوانین کے تابع اور ان کے نفاذ کے ساتھ چل رہی ہو،اگروہ حکومت ہوتو زکوات صرف حکومت اکٹھی کرسکتی ہے جیسے خلافتِ راشدہ کے دورمیں ہوتا تھا۔اگر حکومت اسلامی نہ ہوتو انفرادی طور پر صاحب حیثیت کی زکوات کے حق دار کون لوگ ہیں،قران سے پوچھیں، سورہ توبہ میں ہے ”زکوات انہیں لوگوں کے لیے ہے،  محتاجوں مسکینوں،اورعاملین جو ان صدقات کو اکٹھا کرنے پر مامور ہیں،اور کفار کو  تالیفِ قلوب کے لیے،اور گردنے چھڑانے کے لیے،اور قرض داروں کے لیے،اوراللہ کی راہ میں،اور مسافروں کے لیے ہیں۔یہ فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم اورحکمت والا ہے۔“اورعام مسلمانوں کابھی یہی طریقہ ہے سواے عاملینِ زکوٰۃ اورکفار کے تالیفِ قلوب،اورجہاد  کے۔ اس کے علاوہ سورہ بنی اسرائیل میں اللہ نے فرمایاہے”اور دوحق قرابت داروں کو اورمساکین اور مسافروں کو اورنہ فضول خرچی کرو۔ بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں“اور ایک جگہ اللہ نے حقوق اداکرنے کے بارے میں سورہ نساء میں فرمایا ہے  ”اوراللہ کی بندگی کرواوراس کاشریک کسی کونہ ٹھہراواوروالدین کے ساتھ احسان کرواورقرابت داروں ،اوریتیموں،اورمسکینوں،اور قرابت دارہمسائے،اور اجنبی ہمسائے،اور پہلوکے ساتھی،اورمسافر،اور اپنے قبضے میں آئے ہووں کے ساتھ،اوراللہ پسند نہیں کرتا تکبرکرنے والے فخرکرنے والے کو“یعنی گوکہ یہاں حسنِ سلوک کا تذکرہ ہے لیکن صدقات یعنی زکوات کی اسلامی ترتیب بھی یہی ہے کہ آپ اپنے رشتہ داروں سے شروع کریں،پڑوسیوں،یتیموں مسکینوں سے ہوتے ہوے مسافروں،قرض داروں،قیدیوں تک کودے دیں، لیکن یہاں کسی بھی جگہ نہیں بیان کہ ایسی تنظیموں جو آپ سے پیسے اکٹھے کرکے حلوائی کی دوکان پر دادا جی کی فاتحہ دلانے والے ہیں یعنی مخیر بنے ہوے ہیں، اپنا پیسہ تو دور کی بات ہے اکثر یہ لوگ زکوۃ وصدقات کی رقم سے اپنی جائیدادیں،کاروباربنارہے ہوتے ہیں،یاکم ازکم اس پیسے کاسود لے کر اپنے اکاونٹ بھررہے ہوتے ہیں،اورپھر عوام الناس کو ریاکاری میں لگا کر ان کی اس عبادت کو بھی راندہ درگاہ الٰہی کردیتے ہیں،کہ اللہ نے سورہ نساء ہی میں فرمایا ہے کہ ”اورجولوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مال لوگوں کو دکھانے کے لیے،وہ ایمان نہیں رکھتے اللہ پراورنہ ہی قیامت کے دن پر“یعنی یہ دکھاوے کے لیے کمپلیکسوں اورٹرسٹوں،اور اداروں کو زکواۃ دینے والے اس آیتِ پاک سے عبرت حاصل کریں، کہ اللہ نے انہیں اپنے پرایمان ہی سے خارج کردیا ہے،لہذازکواۃ جو ایک دینی فریضہ ہے اسے دینی حکم کے تحت اپنے غریب رشتہ داروں،اپنے غریب پڑوسیوں،اپنے  یتیم رشتہ داروں،اورپھر اپنے دور کے غریبوں اور مسکینوں کو دیں،اور قرض داروں کے قرضے اور قیدیوں کی قیدچھڑانے کے لیے دیں مسافروں کی ضروریات کے لیے دیں، اللہ کی راہ میں تعلیم حاصل کرنے والوں کودیں اگروہ غریب ہوں تو،لیکن کسی بھی ادارے کودینے کاکوئی اسلامی حکم موجود نہیں۔بدعات سے امت کو کافرومشرک قرار دینے والوں نے بھی اپنے کاروبار کے لیے اس بدعت کو عین اسلام بنایا ہوا ہے،اسی لیے کہتے ہیں مفت کی شراب قاضی کو بھی حلال۔لہذاامت کے صاحبِ استطاعت لوگ اس فریضے کو اگر اسلام کے مطابق اداکریں تو ثواب بھی ملے گا،اور امت میں غربت اور مجبوری کا عذاب بھی کم ہوگا،لیکن اگر اسی طرح ثواب کے دوکانداروں کی ہٹیوں پر لگاتے رہے تو دنیا میں بھی امت مجبور ومقہور ہی رہے گی اور بروزِ قیامت یہ ریا کاری کرنے والے دنیا تو برباد کرگئے مگرآخرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گئے ، اللہ تعالیٰ اس امت کے ہر فرد کو اپنے احکام کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اوراسے نفس اورنفس پرستوں کے دھوکے سے بچائے آمین۔ وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*