آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

چلتے ہوتو چمن کو چلیے کہتے ہیں بہاراں ہے : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

فطرت کی فیاضیاں اورزندگی کی انگڑائیاں،موسموں کا مدوجزریہ سب انسان کی پہنچ میں نہیں ورنہ یہ دنیا کب کی فناہوچکی ہوتی،آج کل موسمِ بہارانگڑائیاں لے رہا ہے،کڑاکے کی سردی کب گزری یہ کسی کو پتا بھی نہیں چلا،سردی میں انسان اپنے گردکپڑے لپیٹتے ہیں، حتیٰ کہ وہ بھی جن کاجسم جن کی مرضی ہوتی ہے،وہ بھی سردی کی مرضی پرجسم کو لپیٹے پھرتے ہیں، لیکن درخت پتے گرادیتے ہیں، ننگ دھڑنگ کھڑے ہوجاتے ہیں، کہ یہ ہے ہماراجسم ہماری مرضی، ہمارے آفاقی شاعرمیاں محمد بخش نے یہ نقشہ کشی اس طرح کی ”ننگی شاخ کنگال بے چاری لوٹی جیویں سپاہی،کھڑکھڑکردے پت محمدچلے وطن چھڈراہی“لیکن بہار کیا آئی ہے کہ بقولِ غالب ”سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی،تو ہوگیا روئے آب پر کائی“یہ بہارِ اجسام ہرجسمِ نامی پر اسے خبر کیے بغیرآوارد ہوتی ہے،میرتقی میرتوبہار بھی چمن میں ڈھونڈتے رہے، حالانکہ بہار تو کھنڈروں اورویرانوں میں بھی آتی ہے،اور چمن سے زیادہ رنگینی ورعنائی دیتی ہے، اسی کو بیان کرتے، میاں محمد بخش نے لکھا ہے،”بے شک لوک توکل والے بن محنت دے پلدے۔ باغ سرادیاں بوٹیاں کولوں ہرے نے رکھ جنگل دے“بہار کے جو دلکش نظارے کوہ وبیاباں میں ہوتے ہیں وہ چمن میں کہاں، لیکن میر بے چارے بھی کیا کرتے وہ دلی میں رہتے تھے، جہاں کے بارے میں غالب نے کہا تھا کہ،ہم نے یہ ماناکہ دلی میں رہیں کھائیں گے کیا؟شہروں میں تصنع اوربناوٹ ہی بناوٹ ہوتی ہے، یہاں پھول بھی کاغذ کے دکھتے ہیں کہ یہاں فطرت بناوٹ سے گہناجاتی ہے، اسی لیے شہروں کے باسی بھی فطرت کے اکثر مغائر ہوتے ہیں بنابریں وہ فطرت کے مقاصد کی نگہبانی بھی نہیں کرسکتے، کہ علامہ اقبال نے لاہور شہرمیں بیٹھ کر تڑپ کرکہا تھا، کہ ”فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی۔ یا بندہِ صحرائی یا مردِ کہستانی“اورفطرت کے سب سے بڑے نگہبان اور معاون انبیاء علیھم السلام سب کے سب شہروں میں نہیں پہاڑوں اورصحراوں سے تربیت یافتہ ہوے، موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل میں پلنے والے، جب کارنبوۃ کے لیے مامور کیے جانے لگے،تو سبب ایسا بنا یا کہ شہر کو چھوڑنا پڑا، صحرامیں بھیج دیاگیا،اورکئی سال تک بکریاں چرانی پڑیں،اورپھرجاکربقولِ علامہ اقبال  ”اگرکوئی شعیب آئے میسر، شبانی سے کلیمی  دوقدم ہے“،سب سے بڑے مقربِ حق اور آخری نبی ﷺ جو ام القریٰ مکہ میں پیداہوئے، طائف میں پالے گئے ،طائف کی مقدس وادی میں اپنی رضاعی ماں کی بکریاں چراتے رہے، پھر ایک متمول ترین زوجہ مقدسہ کے سر کے تاج بنے،  دولت کی ریل پیل اورتجارت کی رنگینی چھوڑکر،مکے کی سنگ لاخ پہاڑیو میں مہینوں فطرت کے مشاہدات میں بیٹھے رہتے تب جاکے اعلانِ نبوۃ کا امرہوا، اب سارے عالمین کے لیے رحمت اوررسالت کا اعلان ہوگیا۔لہذایہ بہارِاجسام،فطرت کے عمیق مشاہدے سے بہارِ ارواح کے لیے ایک مظاہر ہے،بہارِ اشباح یعنی اجسام جسطرح جسم ونظر کے لیے باعث ِ فرحت وانبساط ہے۔اسی طرح یہ مشاہدہ حسنِ فطرت قلوب وارواح کے لیے جلاوسرور ہے۔موسمِ بہار ورمضان شریف کا اجتماع اس سال میں اجسام وقلوب وارواح کو یکسانگی سے انفراح وانشراح اورسرور ووجدان کے لیے ایک مژدہ جاں فزاہے، بہار کی معطراورمسرور ہوائیں جہاں دل ونظر کی تراوت کا باعث ہوں گی، وہاں ہی بہارِ ارواح رمضان شریف کی نورانیت وانسِ تقویٰ وطہارت، ذوقِ عبادت اورپھر شیاطین کی قیدکہ ان کا کید نہ چلنا، کیا جسم وجان کی خوشی و مسرت، روح کی بالیدگی، دل ودماغ کی پاکیزگی کے لیے قِرانِ سعدین نہیں ہے؟،لیکن ایں سعادت بزورِ بازونیست تانہ بخشد خدائے بخشند ہ،روحانیت کے لیے سخت قسم کے تربیتی چلوں سے نکل کر اب فطرت اوررمضان کے سنگم سے فائدہ اٹھا ئیں وہ سارے طالبانِ روحانیت اس رمضان کو پورے تقویٰ وطہارت کے ساتھ نبھائیں  ان شاء اللہ بہارِ اشباح وبہارِ ارواح کایہ سنگم روح وجسم دونوں کی بالیدگی کا مژدہ بن جائے گا، اورمیرتقی میر کے اس مطلع سے  وہ راہ لوجو اصل ہے کہ،قران کی بہار کے لیے مساجد کا رخ کروکہ میرے آقانے فرمایا ہے، کہ جب تم جنت کی کیاریوں کے پاس سے گزروتو ان سے کچھ فائدہ اٹھایا کرو صحابہ نے عرض کیا،  یارسول اللہ ﷺاس سے کیامرادہے، تو آپ نے فرمایا جہاں اللہ کے ذکر کی محافل ہوں ان میں شامل ہوکر ان سے مستفید ہوں یہ جنت کے باغیچے ہیں،لہذااس رمضان شریف میں مساجد جو جنت کے باغیچے ہیں، ان میں روزہ سے مطہر ہوکر راتوں کو اللہ کے قران سے لولگا کر رکوع وسجود میں رہ کر فطرت کا مشاہدہ دل کی آنکھوں سے کریں، قران کے زمزمے کو دل کے کانوں سے سنیں، اورپھر موجِ بہار کے ساتھ جنتی نور کی موجیں آپ کے د ل کے ویرانے کو چمن بنادیں گی، اورپھر اس چمن کے پھول وپات رحمت الٰہی کی بوندا باندی اور بشارت دینے والی ہواوں سے لہرائیں گے،اورہاتفِ غیبی کوآپ میر کا یہ مطلع گنگناتے سنیں گے، چلتے ہوتو چمن کو چلیے کہتے ہیں بہاراں ہے، پھول کھلے ہیں پات ہرے ہیں کم کم بادوباراں ہے،وماعلی الاالبلاغ۔ 

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*