تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
امید ایک ایسا لفظ ہے جوکبھی صرف خیالوں میں ہی بندے کوامیدوار بنادیتا ہے اور کبھی عملی امید سے ہوتا ہے۔اوریہ لفظ انسان کامرنے تک پیچھا نہیں چھوڑتا۔ آپ نے اکثر لوگوں کے نام کے ساتھ لکھا دیکھا ہوگا سابق امیدواریا نامزد امیدوارآج کل کمپیوٹر کا دور ہے، کتابت کے بجائے کمپوزنگ ہوتی ہے، پچھلے دنوں کسی نامزد امیدوارکا پینا فلیکس چھپ گیا جس پر نامزد کے بجائے ”نامرد“ غلطی سے پرنٹ ہوگیا۔اور واقعتا یہ ًکمپیوٹر کی غلطی تھی ورنہ جان بوجھ کر آپ کھسرے کو بھی نامرد کہیں تووہ بھی چڑ جاتا ہے۔ہاں توعرض کررہا تھا کہ امید ایسی مصیبت ہے، یہ مرنے تک بندے کا پیچھا نہیں چھوڑتی، اوراکثر عورتیں امید سے ہونے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کرتیں، دم درود تعویذگنڈا کے علاوہ ڈاکٹری جدید طریقے جسے آپ کرائے کی امید کہہ سکتے ہیں کو اپنایا جاتاہے۔حالانکہ وہ اپنی آنکھوں سے ہزاروں عورتوں کو امید کے ہاتھوں مرتے بھی دیکھتی ہیں۔لیکن امید کاپھر بھی اتنا چاو ہوتا ہے کہ کہتے ہیں کسی نوعمردلہن کو امید ہوگئی ہے وہ بہت خوش تھی، ایک دن وہ اپنی ماں سے کہنے لگی کہ امی جب بچہ ہونے لگا تو مجھے جگا لینا، کہ میں دیکھوں کیسے ہواہے۔ ماں بے چاری جو اس عذاب سے گزر چکی تھی، اس نے کہا ”دھئیے میں تینوں جگاساں یاتو سارے محلے نوجگاسیں“ یہ وہ وقت ہی بتائے گا۔پچھلے ساڑھے تین سالوں سے ہماری ساری قوم امید سے تھی کہ اس ملک کے خزانے کے ا ربوں روپے لگا کر قوم کو امید سے کیا گیا، کہ اب پاکستان نیا ہوگا، وہ پرانے والا چوروں لٹیروں،اور عوام کو بیچنے ولوں کا پاکستان نہیں رہے گا؟ جن کو کرائے کی امیدبھرائی گئی، وہ امید وار ہوتے ہی کہنے لگے، صرف نوے دنوں میں سب کچھ کردیں گے، نوے ہووے اب اوروقت لگے گا۔ وہ بھی گزرا اب اور وقت درکار ہے بالاخر فرمانے لگے، قومیں سالوں میں نہیں صدیوں میں بنتی ہیں،حتی کہ نبوت کے منصب کے متعلق فرمایا دیکھو سوائے ہمارے نبی ﷺ کے باقی انبیاء تو اپنی زندگی میں مقصدنہیں پاسکے، حتیٰ کہ خودنبی پاکﷺ نے بھی دس سال جدوجہد کی لیکن مدینہ میں ہجرت کے بعد آپ نیا نظام چلا سکے،یعنی مطلب یہ تھا کہ کم ازکم دس سال تو ہمیں بھی ملیں توہم بھی نیا نظام چلائیں گے۔لیکن جوامید سے تھے کہ یہ آتے ہی سب کو پٹخ کر ہمارے لیے راہ ہموار کرکے چلتے بنیں گے۔وہ اب لذتِ اقتدارکے سامنے کچھ نہ رہے۔اب امید پر پانی کیا پھراکسی کے بقول کہنے لگے ”اب نزع کا عالم طاری ہے تم اپنی محبت واپس لو۔ جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں“لیکن قارون کو جودولت کی لت لگی تواس نے غرق ہوتے وقت بھی کہا میرے خزانے! تواللہ نے وہ اٹھا کر اس پر لاددئیے۔ ساری قوم زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ لیکن اپوزیش اور حکومت دونوں امید سے ہیں۔اور دونوں ہی کہہ رہے ہیں کہ جب امید بھری تو ہمیں جگا لینا۔عوام نے سارا جہان سر پر اٹھایاہواہے، لیکن وہ ابھی امیدلیے سوئے ہوے ہیں۔اپوزیشن نے جس دن حکومت کے خلاف نکلنا تھا تو کہا تھا کہ ہم اس حکومت کے نہیں بلکہ ان کے خلاف ہیں جو ان کو لے کر آئے ہیں۔لیکن تین سالوں میں نہ حکومت کے خلاف کوئی عملی قدم اٹھایا نہ لے کر آنے والوں کے خلاف کیوں؟ اس لیے کہ حکومت تو لے کر آنے والوں کی محبت کی پینگ پر چڑھی ایک ٹکٹ میں دومزے لے رہی ہے۔کارکردگی صفر لیکن اپوزیشن ا ورعوام کو درخورِ اعتنا نہیں جان رہی، بلکہ جب کچھ تھوڑی ہل چل کہیں ہوئی تو ببانگِ دھل وزیرِ اعظم نے کہا میں اندر بیٹھا ہوا کم خطرناک ہوں اگر میں سڑکوں پر آگیا تو ان کے لیے مشکل بن جائے گی۔ تومعاملات دھیمے ہوگئے۔ ادھراپوزیشن بھی اشاروں کی منتظر ہے۔ہر بار کہتی ہے، کہ ”دوروں دوروں اکھیاں مارے منڈاپٹواری دا“ لیکن حکومت پٹواری کے منڈے کی باہوں میں باہیں ڈالے جھوم رہی ہے۔لہذااس سارے کھیل میں وہ کسی میراثی والی بات ہی نظر آتی ہے، کہتے ہیں راجوں کے ساتھ پرانے زمانے میں میراثی ہر خوشی غمی میں جاتے تھے، ایک شادی تھی وہاں راجے گئے اور میراثی بھی ساتھ تھا، رات کا کھاناکھانے لگے، میراثی نے دیکھا کہ راجہ صاحب کو بوٹیوں کا طباق بھر کیا دیا گیا ہے، لیکن میراثی کو ایک پیالے میں صرف شوربا ہی بھرکر دے دیا ہے، میراثی نے اس میں ایک لقمہ ڈبویا اور نکال کر منہ میں ڈالنے کے بجائے چیختے ہوے ادھر پھینک دیا جیسے اسے کسی بچھونے کاٹ لیا ہواورزورزور سے چلانے لگا، سارے لوگ اکٹھے ہوگئے کسی نے لالٹیں قریب کی اور اس پیالے کوچیک کیا اس میں چمچا ماراکہ شاید کوئی بچھو اس میں نہ ہوا ہو، تو چھان بین کے بعد اس نے کہا،اس میں توکچھ بھی نہیں، تو میراثی نے کہا میں بھی اسی لیے رورہا ہوں کہ اس میں کچھ بھی نہیں۔اپوزیشن کے دانشور کہہ رہے ہیں کہ اگر ادارے نیوٹرل رہے تو ہم حکومت کو عدمِ اعتماد سے گرا دیں گے۔حالانکہ خود اپوزیشن ابھی اکٹھی ہوکر عدم اعتمادکے لیے تیارہی نہیں،کبھی اڑتالیس گھنٹے کبھی چنددن بعد ادھر حکومت سرِ عام کہہ رہی ہے کہ اگر عدمِ اعتماد پیش ہوا بھی تو اتنے دن سپیکراسے موخرکرسکتا ہے۔کیوں؟ اس لیے کہ اپوزیشن بھی قوم کی جان نہیں چھڑانا چاہتی، بلکہ اپنی راہ ہموار کرنا چاہ رہی ہے۔اور جس ڈر سے اپوزیشن استعفے دے کر سڑکوں پرنہیں آرہی کہ کوئی غیر آئینی اقدام نہ اٹھا لے۔ اوردوسری طرف جس طرح حکومت اپنے ہر اقدام کے لیے آرڈیننس جاری کرکے اپوزیشن کو ہی نہیں عوام کو بھی اپنے شکنجے میں کررہی ہے۔یہ کسی غیر آئینی اقدام سے کیا کم ہے؟پیکا کا قانون ہی لے لیں۔ حکومتی وزیر کہہ رہا ہے، جھوٹ پر اسلام میں بھی حد ہے۔ اگر اسلام میں اس کی حدہے توپھر اسے نافذ کریں نا نہ کہ اس کے مقابل کوئی قانون بنا ئیں،یہ تواسلام کے نہیں اللہ اوررسو لﷺ کے خلاف بات ہے اسلام میں کسی جھوٹ پرکسی کوبلا ضمانت چھے مہینے اندررکھنے کا جوازنہیں۔توہینِ رسالت کے قانون میں راہ نکالی جارہی ہے کہ کسی شاتم کو فوری پکڑنے کے بجائے اس پرعدالت میں رٹ دائر کی جائے اور پھر جج صاحب اس سے ثابت کریں کہ واقعتاًاس نے توہین کی ہے تو اسے پکڑا جائے، لیکن کیا موجودہ حکمران نعوذ باللہ اللہ کے رسولﷺ کی ذات سے زیادہ قابلِ احترام ہیں؟ کہ ان کے خلاف کوئی بات کرے تو اسے پہلے بلا ضمانت گرفتار کیا جائے،اور پھرچھ مہینے بعداس کا مقدمہ عدالت میں پیش ہوکہ اس نے جھوٹ کہا بھی ہے کہ نہیں؟اسی حکومت کے دوران ہماری معززعدالتوں نے سزایافتہ شاتمان رسول کو بے گناہ قرار دے کر بری کردیا ہے، اورایک کیس میں توہینِ رسالت قانون کی ایک شق کے خلاف فیصلہ دیاہے کہ کسی پاگل شخص کو توہینِ رسالت کی سزانہیں دی جاسکتی۔لیکن حکمرانوں کے خلاف کوئی بات کرنے والا چاہے پاگل ہی ہو، جسے حکمران صرف زبانی کہیں کہ یہ جھوٹی ہے،وہ بلا ضمانت چھ مہینے کے لیے جیل چلا جائے گا،کیوں؟اس لیے کہ یہ وہ فسطائی آمریت ہے،جوشاید اپوزیشن کی سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔اورعوام بے چارے تو امید سے ہیں۔وہ کوئی حرکت نہیں کرناچاہتے کہ امید ضائع نہ ہوجائے۔وماعلی الاالبلاغ۔