آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

ٹیلی کمیونیکیشن اورعوامی مسائل : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

میرپور آزاد کشمیر،آزاد کشمیر کا مرفہ حال اور تقریباًسطحِ مرتفع اور کم بلندپہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے۔ یہاں پرٹیلی کمیونیکیشن کے مسائل پہاڑی علاقوں جیسے نہیں ہونے چاہییں،لیکن اللہ بھلا کرے ہمارے اربابِ بست وکشاد کا کہ میرپور میں سم فون سروس کا یہ عالم  ہے کہ خود میرپور شہر جو ضلعی ہیڈکواٹر ہے وہاں بھی نشیب وفراز میں فون سروس کم وبیش ہے بلکہ اکثر پلازوں کے نچلے پورشن حتیٰ کہ وکلاکے چیمبر میں نچلے پورشن میں سروس دستیاب نہیں،دوسری طرف سرکاری من چلے آفیسران کورونا کے دوران آرڈر کردیتے ہیں، کہ بچوں کو آن لائن تعلیم دی جائے، بلکہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے تووطیرہ بنالیا ہے کہ وہ اسائن منٹس  آن لائن مانگتے ہیں، بلکہ ٹیوٹر آن لائن پڑھائیں گے۔ اب قابلِ غور ہے جس ملک میں لوگوں کو کال کرنے کے لیے بڑے شہروں میں بھی سروس دستیاب نہیں ہے،وہاں آن لائن ٹیوشن اور اسائن منٹیں کیسے  پہنچ سکتی ہیں؟علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی فاصلاتی تعلیم کے ساتھ کم وسائل لوگوں کے لیے آسان ذریعہ تعلیم کے طور پر چلائی گئی تھی، لیکن اس احساسِ کمتری کی ماری ہوئی اشرافیہ نے اپنے آپ کو  عالمی معیار کے مطابق ظاہر کرنے کے لیے غریب عوام سے یہ ذریعہ تعلیم بھی چھین لیا، اب یونیورسٹی کی فیسیں،اور یونیورسٹی کی موجودہ عالمی معیار کی تعلیم کے لیے لاکھوں روپے اور ٹائم ویسٹنگ کے بعد جو ڈگری دستیاب ہوتی ہے وہ عالمی معیار کی نہیں ہوتی،کیوں؟چلویہ تو جملہ معترضہ تھا اصل مسئلہ جو ٹیلی کمیونیکیشن کا عام عوام کو ہے وہ ہے، سروس نہ ملنا، دوسری طرف فون کمپنیز کا نت نئی سروسز کا جھانسا دینا، نیٹ کی فور جی سروس کا حکومتی اعلان کے باوجودنٹ سروس تو درکنار میرپور شہر کے اندر اورحتیٰ کہ وکلا کے چیمبر کے اندر بھی کال سروس کا نہ ہونا، کیا یہ عوام کا قصور ہے؟ اب جہاں کال کی سروس نہیں وہاں نیٹ کی فورجی کیا چلے گی۔ اور پھر کیا لوگ نیٹ چلانے کے لیے میناروں پر چڑھا کریں۔حکومت کا ہر سرکاری ملازم جو جتنے اختیاررکھتا ہے،وہ انہیں استعمال کرتے وقت عوام کے نقصان کو مدِ نظر نہیں رکھتا، بلکہ وہ اپنے حکم کو قانونی قرار دے کر اندھے کے چھُرے کی طرح چلا دیتا ہے۔ پچھلے سال میرپور شہر میں اور اس کے قرب وجوار میں ٹیلی نار کی سروس تین دن تک بندرہی، معلوم کرنے پر پتا چلا کہ ٹیلی نار والوں نے کسی بوسٹرکی جگہ کا کرایہ  یا ٹیکس ادا نہیں کیا ہوا،جو گورنمنٹ کوملنا تھا تو انکم ٹیکس اے سی نے  بوسٹر کو سیل کردیا۔ اب بتائیں کہ کوئی سرکاری ملازم حکومت کے خزانے کانقصان پورا کرنے کے لیے اپنی عوام کے کروڑوں روپے سروس بلاک کرکے ضائع کرارہا ہے۔ کیوں؟ انکم ٹیکس والے کمیونیکیشن کو بندکرنے کے بجائے کمپنی کا اکاونٹ بندکریں، کہ وہ پیسہ نکال نہ سکیں،توکیا یہ آسانی سے نہیں ہوسکتا تھا؟لیکن اسطرح شاید کسی اورطریقے سے کمپنی اکاونٹ بندکرنے والے کی نوکری کو خطرہ میں ڈال سکتی تھی، لہذاعوام کی ”کونی گائیوں کو لون دے دیا“کہ بوسٹر سیل کردیا،اورعوام بھی اللہ کرے ایسے محبِ وطن ہیں، کہ انہوں نے کہا نئی سمیں دوسری کمپنی کی لے لو، اس کمپنی کو بندکرانے دو،اکثر مجبوراور غریب لوگوں نے نئی کمپنی کی سمیں بھی خریدلیں، لیکن بوسٹر تو وہی ہیں، ان کی سروس بھی پہلی کی طرح ہی ہے، آج تقریباًایک سال گزرگیا ہے، میرپوراوراسلام گڑھ کے درمیان کے علاقے میں جہاں زیر آب ہونے اور ایک عالمی معیارکاکھنڈر پل جوقومِ عاد اورثمودکی نشانیوں کی طرح سولہ سال سے زیرِ تعمیر ہے لوگ اس کا وزٹ کرنے جاتے ہیں لیکن وہاں بھی سروس دستیاب نہیں ہوتی، سادہ لوح عوام کہتے ہیں کہ کیا کریں جی کمپنی اور محکمے کا کیس لگا ہوا ہے، اورعدالت نے سٹے دے رکھا ہے۔ آپ بتائیں کہ کیس کا مطلب یہ کسی ملک میں بھی نہیں کہ محکمہ یا کمپنی عوام کو دینے والی سہولت بریک کردے، اورعوام سے اس پر ادائیگیاں لیتی رہے۔اگر کیس کی وجہ سے عوام کو سہولت نہیں مل رہی توعدالت کمپنی کومکمل بندکردے، تاوقتیکہ وہ اپنی ادئیگیاں نہ کرلے، ان کے اکاونٹ بندکردئیے جائیں، کہ وہ پیسہ بھی نہ نکال سکیں، اور دوسری کمپنیوں کو پابندکیا جائے کہ وہ  چلتے فون نمبرز اپنے نیٹ ورک پر تبدیل کرلیں۔اور سب سے بڑا جو کام ہے وہ یہ ہے کہ ملک کے اندر تمام کمپنیز کوتمام نیٹورکز پر ایک ہی کال ریٹ کا پابندکیا جائے، یہ نہیں کہ کمپنی اپنئے نیٹورک پر عام کال ریٹ ایک روپیہ منٹ لے اور اسی جگہ دوسرے نیٹ ورک پر کال ریٹ دوتین روپے لے،۔تقریباًپوری دنیا میں ملک کے اندر تمام نیٹ ورکز پر کال ریٹ ایک ہی ہوتا ہے۔لیکن تمام دنیا کے ممالک برے بھلے جو بھی ہیں وہ عوام کو لوٹ کر سرمائیہ کاروں اور ملازموں کی جیبیں نہیں بھرتے۔یہ صرف پاکستان کے خالص مسلمان اور محب وطن اشرافیہ ہیں جواپنی قوم کو لٹوا کر بیرونی دنیا کو فائدہ پہنچاتے ہیں، اور اس کے عوض اپنے لیے کمیشن اوربیرونی ممالک میں جگہ بناتے ہیں۔لہذاگذارش ہے کہ عدالتیں اور محکمے ان بیرونی کمپنیز کو ایک کال ریٹ پر پابندکریں، عوام کوسروس جہاں دستیاب نہیں ہوتی،وہاں کمپنیز کو بوسٹرزبڑھانے کا پابندکیا جائے۔ورنہ شکایات پر ان کو جرمانے کیے جائیں۔اوراس کے لیے پی ٹی اے کوبھی پابندکیاجائے۔عوام کا پیسہ بھی اس ملک کی ہی اکانومی کا حصہ ہے اگر وہ بھی لٹ رہاہے تو ملک کی اکانومی ہی کا نقصان ہے، خدارا سارے مسئلے صرف احتجاجوں اور ہڑتالوں کے بعد ہی قابلِ غور نہ کیا کریں، کچھ اپنی ملازمت کا حق بھی سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ آزاد کشمیر کے صاحبان اقتدار کو اتنی توفیق تو دے کہ وہ اپنی قوم کو اگر کچھ نہیں دے سکتے تو انہیں ان کی خریدی گئی سہولیات تو کما حقہ کمپنیوں سے مہیا کرادیں۔یہ بھی آپ کے لیے ایک صدقہ بن جائے گا، اللہ عوام کو بھی اپنے حقوق کو سمجھنے اور انہیں حاصل کرنے توفیق عطافرمائے آمیں۔وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*