آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

”کٹا نہ کٹی“ قاری محمدعبدالرحیم

 تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

 وزیرِاعظم کے دورہِ روس کے بعد پاکستانی دانشوروں کی بیٹھکوں میں کیا سے کیا نہیں ہورہا،کچھ اس دنشمندانہ اقدام کو اس حکومت کی ساری عوام پر زیادتیوں کاکفارہ تک قرار دے رہے ہیں،اورکچھ اسے اس حکومت کی باقی عوام دشمن اورعاقبت نااندیش پالیسیوں کا تسلسل قرار دے رہے ہیں۔ ادھروزیرِ اعظم صاحب کے پرستاروں نے ایک قومی اسمبلی کے  خطاب کا ایک کلپ فیس بک پرچڑھا دیا جس میں وہ امریکہ کے بارے میں فرمارہے ہیں کہ وہ ہمارے اوپراعتبارنہیں کرتارہا۔اور شاید اسی اعتبارکوبنانے کے لیے اس حکومت  نے آتے ہی امریکی ڈالر جو دنیا میں ایک گرتی ہوئی کرنسی تھی پاکستان میں اسے سہارادے کر اوپر اٹھایا،اور اس بلند سطح پر لے گئے کہ امریکی بھی ہیٹ اتار کرسر اوپرکرکے دیکھیں تو اس مینار کاسر اشاید نظر آئے۔اورپھر اسی  کے لیے اس حکومت نے مسئلہ کشمیرصرف ٹرمپ کے وعدے پر رکھ دیا کہ اس نے کہا ہے کہ یہ تنازع میں حل کرادوں گا۔حتیٰ کہ خود کشمیری عوام پرآزاد کشمیر میں بھی پابندی لگا دی کہ وہ اپنے بھائیوں پرکرفیواور کشمیر کی حیثت کو تبدیل کرنے کے خلاف مقبوضہ کشمیر کے اندر داخل ہونے کی کوشش نہ کریں کہ اس طرح ٹرمپ سے کیا وعدہ خلاف ہوجائے گا اورکشمیر آزادہونے سے رہ جائے گا۔اورشاید اسی اعتبارکے لیے ہی سلامتی کونسل میں پاکستان نے انڈیا کے حق میں ووٹ دیا ،اور اسی کی وجہ سے پاکستان نے آزاد کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر تین سال کے لیے فائر بندی کا معاہدہ کیا ۔لیکن اب روس کا باقاعدہ دعوتی دورہ کرکے یوکرائن پرروسی حملے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اورادھر جنگ لگی ہوئی تھی اور ادھر ہمارے وزیرِ اعظم شیروں کی طرح ڈٹ کر روسی صدر سے مستقبل کے روس پاکستان تعلقات اور معاملات پر بات کررہے تھے،اور شاید اس ساری پریکٹس کا مطلب اب امریکہ کو آنکھیں دکھاناتھا، کہ دیکھ لوکہ اگر میرا قدم اتنا بابرکت ہے کہ روس میں رکھا تو جو زبانی کلامی باتیں ہورہیں تھی وہ باقاعدہ عملی روپ دھار گئیں، تواگر میں نے پاکستان کے اندر سے طبلِ جنگ بجا دیاتو پھر پوری دنیا کو جنگ سے کون بچائے گا؟لہذااس سے پہلے کہ ہماری نظریں بدلیں خود کو سیدھا کرلو، کیونکہ ہمارے وزیرِ اعظم نے انڈیا کے کشمیر کی حیثیت تبدیلی کے دوران فرمایا تھا، کہ ہم نہیں چاہتے کہ جنگ ہو،جنگ ہوئی تو یہ دونوں ایٹمی ملک ہیں یہاں ایٹم چل جائے گا،اور چونکہ پاکستان ذرا بلندی پرواقع ہے لہذاس کے اردگردکے ممالک بھی ایٹمی دھوئیں سے متاثر ہوں گے۔اوراس وقت تو کشمیر کے لوگوں کا مسئلہ تھا،انہوں نے دھوئیں سے دوسرے ملکوں کو بچالیا، لیکن اب خود ان کی جان شکنجے میں آرہی ہے،اورامریکہ اب بھی اگراعتبارنہیں کررہا،  توپھر پہلا دھوواں تو یوکرائن سے نکالا، تودوسرادھواں پاکستان سے چھوڑیں گے ویسے دھواں تواس کا نکالاہوا ہے اب چھوڑنا ہی باقی ہے۔پھر پتا چلے گا امریکہ بحیرہ احمر میں کیسے رہتا ہے۔ہمارے دانشوروں کا اللہ بھلا کرے،جب مشرقی پاکستان شام کو علیحدہ ہوچکا تھاا س رات بھی یہ یہی کہہ رہے تھے کہ ”ساڈیاں شیراں پنج سوچالی مارے نے“اورجب روس کی ریاستیں آزاد ہورہی تھیں اور خودروسی صدر خاموش تھا ہمارے دانشور کہہ رہے تھے، روسی ٹینک گلیوں میں پھررہے ہیں،ابھی یوں کاتوں ہوجائے گا،لیکن دوسرے دن خبر ملی کے روس ٹوٹ چکا ہے،آج بھی ہمارے دانشور کہہ  رہے ہیں کہ یوکرائن کو ناامریکہ نہ یورپ مدد کررہا ہے، اس کی فوج بھی تربیت یافتہ نہیں، اس کے پاس روس کے مقابل اسلحہ بھی نہیں اب روسی فوج دارالحکومت سے نومیل دوررہ گئی ہے، اب یوکرائنی صدررورہا ہے، امریکہ دور بیٹھا تماشہ دیکھ رہا ہے، وغیرہ وغیرہ، لیکن آج چوتھا دن ہے، روسی فوج نہ دارالحکومت پر قبضہ کرسکی ہے،نا ہی کوئی اور بڑی کامیابی حاصل کرسکی ہے،کیوں؟اس لیے کہ یوکرائنی کوئی پاکستانی نہیں ہیں کہ اگر امریکہ مددکو نہ آیا تو ہتھیار ڈال دے گیں،یوکرائنی صدر ابھی تک دار الخلافے میں موجود ہے،اورپیغام جاری کررہا ہے،ادھرروس بار بار کہہ رہا ہے کہ یوکرائنی فوج ہتھیار ڈال دے، لیکن اب یوکرائنی عوام روسی فوج سے لڑنے لگی ہے،اور عوام سے اگر کوئی مقتدر یا لیڈرغداری نہ کرے تو عوام کبھی ہتھیارنہیں ڈالتی، افغانستان کو دیکھ لو، لہذایہ ہمارے بزرجمہر قسم کے دانشور عوام کو مخمصے  میں نہ ڈالے رکھیں، کہ روس کا حملہ اور پاکستان کے روس سے تعلقات کا موجودہ دورہ ثمر آور ہوسکتا ہے، البتہ وہ کسی رمتیے سادھو کا جملہ ہی ٹھیک ہے، اس نے کہیں دھونی رمالی اور بیٹھ گیا،کسی کسان نے دیکھا ایک سادھو بیٹھا ہے، اس نے اشیر باد لی،اورپوچھا میری بھینس کیا دے گی، سادھونے کہا ”کٹانہ کٹی“ اس نے کٹادے دیا، دوسرا کوئی گیا پوچھا میری بھینس کیا دے گی، پھروہی کٹانہ کٹی، اس نے کٹی دے دی، تیسرے نے پوچھا میری بھینس کیا دے گی، پھروہی کٹانہ کٹی،تواس کی بچہ ہی گرا گئی،اب لوگوں نے خودہی تعبیریں کرلی، کہ سادھو نے پہلے سے کہا تھا، کٹادے گی نہ کہ کٹی، دوسرے کوکہاتھا کٹانہیں کٹی دے گی، اورتیسرے نے بھی کہا سرکارنے فرمایا تھا کہ کٹانہ کٹی کہ کچھ بھی نہیں دے گی، لہذاپاکستانی دانشور بھی،عوام جو بھوکوں مررہی ہے، جوفسطائی قوانین کی بھینٹ چڑھی ہوئی ہے، اسے ”کٹانہ کٹی“ کی خود ساختہ تشریحات میں  نہ پھنسائیں کہ اس دورے  کے سبھی ثمرات نکلیں گے جب بھینس ہوگی تو۔پاکستانی قوم کے پاس بھینس ہی نہیں ہے توکہاں سے کٹااورکہاں سے کٹی۔ کہ آئی ایم ایف نے سٹیٹ بینک بھی لے لیا ہے،وماعلی الاالبلاغ۔ 

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*