” طلبہ یونینزپر جبری پابندیاں اور اے ٹی آئی کی تاریخی جہدوجہد “

” طلبہ یونینزپر جبری پابندیاں اور اے ٹی آئی کی تاریخی جہدوجہد “

تحریر : محمد اکرم رضوی
سابق مرکزی سیکریڑی جنرل اے ٹی آئی
MuhammadAkramrizvi@gmail.com

وطن عزیز کی 75سالہ تاریخ میں نوجوانوں کا اہم کردار رہا ہے ۔کیمپس میں طلباء سیاست سے لے کر جابروں آمروں کے خلاف علم بغاوت تک طالب علموں کا انقلابی اور روشن کردار رہا ہے ۔جو تاریخ کے دامن میں ہمیشہ نمایاں اور یاد گار رہے گا۔طلباء برادری نے جہاں تاریخ کے دھارے موڑنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا وہاں بدقسمتی سے مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں نے ہوس اقتدار کیلئے انہیں اپنے اپنے بھٹوں کے ایندھن کے طور پر بھی استعمال کیا ۔80ء کی دہائی میں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے نوجوان نسل اور باالخصوص طلباء کو اپنا آلہ کاراور دم چھلہ بنا ئے رکھا ۔ انکے ذریعے معاشرے میں کلاشنکوف کلچر اور پرتشدد واقعات عام کرائے جبکہ انہی واقعات کو بنیادی وجہ بناکر 9فروری 1984کو پنجاب میں طلباء یونینز اور طلباء تنظیموں پر پابندی عائد کر دی گی ۔اسی طرح صوبہ سندھ میں 11فروری 1984اور 26اپریل 1983کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں پابندی عائد کی گئی۔انجمن طلباء اسلام اور دیگر طلباء تنظیمیں اس دن کو یوم سیاہ اور یوم حقوق طلباء کے طور مناتی ہیں ۔انجمن طلباء اسلام نے ان پابندیوں کو کبھی بھی قبول نہیں کیا بلکہ اس پابندی کے خلاف فیصلہ کن اور تاریخ ساز جہدوجہد جاری رکھی یہ پابندیاں پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلباء کی منتخب یونینز پر ہی نہیں بلکہ طلباء تنظیموں پر بھی عائد کر دیں گئیں تھیں ۔جس کے نتیجے میں انجمن طلباء اسلام اور دیگر طلباء تنظیموں کے دفاتر سیل کر دئیے گئے ۔انجمن طلباء اسلام کا مرکزی سیکریڑیٹ بروقت حکمت عملی سے سیل ہونے سے بچ گیا ۔ ستمبر 1984میں جب طلباء یونینز کی بحالی کیلئے تحریک چلائی گئی تو مرکزی و صوبائی قیادت کو کارکنان سمیت تعلیمی اداروں سے خارج کر دیا گیا ۔9فروری 1987کو لاہور میں شاہراہ قائد اعظم پر بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تو صوبائی عہدیداروں سمیت پچاس سے زائد کارکنان کو گرفتار ،داخلے منسوخ اور دفاتر سیل کر دئیے گئے لیکن انجمن طلباء اسلام نے حکومتی جبر کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا اور آج تک اپنے مقاصد کے حصول کیلئے سرگرم عمل ہے ۔

17جنوری 1988کو جناح ہال لاہور میں انجمن طلباء اسلام کے زیر اہتمام تعلیمی امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس (ریٹائرڈ) انوار الحق نے حکومت پر زور دیا کہ طلباء تنظیموں پر عائد پابندیاں فی الفور ختم کی جائیں تاکہ طلباء تعلیمی اداروں میں اپنی پسند کے نمائندے منتخب کرکے اپنے مسائل حل کروا سکیں ۔2دسمبر1988میں وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو نے طلباء یونیز سے پابندی ہٹانے کا اعلان کیا تو9مارچ 1989کوصوبہ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں طلباء یونین الیکشن ہوئے جبکہ صوبہ پنجاب کے علاوہ کسی اور صوبے میں جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی طلباء یونین الیکشن نہیں کروائے گئے۔پنجاب میں طلباء یونین کے منعقدہ الیکشن میں انجمن طلباء اسلام نے مختلف تعلیمی اداروں میں 155سے زائد سیٹیں جیت کرپنجاب بھر میں اول پوزیشن حاصل کی اور پنجاب کی فاتح قرار پائی ۔اس کے بعد سے آج تک کسی بھی صوبے میں طلباء یونینز کے انتخابات منعقد نہیں کروائے گئے ۔صوبہ سندھ میں 13نومبر2017کو سندھ اسمبلی نے تعلیمی اداروں میں طلباء یونینز پر پابندی کے خاتمے کی قرارداد تو متفقہ طور پر منظور کرلی 2019میں سندھ میں طلباء تنظیموں سے پابندی تو ہٹا دی گی مگر سندھ حکومت نے انتخابات نہیں کروائے۔اب ایک بارپھر سندھ اسمبلی میں طلبہ یونین کی بحالی کا مجوزہ بل اسٹینڈنگ کمیٹی برائے قانون نے تیار کرکے اسمبلی کو بھیج دیا ہے ۔جس پر آئندہ اجلاس میں بحث ہوگی ۔

2009-10میں تمام طلباء تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ طلباء محاذ کی صدارت انجمن طلباء اسلام کے پاس آئی تو سید جواد الحسن کاظمی (مرکزی صدر)نے 13ستمبر 2009کونیشنل پریس کلب اسلام آباد میں حقوق طلباء کانفرنس منعقد کروا کر طلباء برادری کو اک ولولہ تازہ دیا کانفرس میں تمام طلباء تنظیموں کے مرکزی صدرو اور سیکریڑی جنرلز نے شرکت کی ۔ 15اپریل 2010کو اے ٹی آئی نے تمام طلباء تنظیموں کے صدرو کے دستخطوں کے ساتھ وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کو احتجاجی خط لکھاکر طلباء یونینز سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ۔ان پابندیوں کے باوجود انجمن طلباء اسلام نے اپنی مثبت جمہوری سر گرمیاں جاری رکھیں ۔اس عرصے میں انجمن طلباء اسلام نے قومی امن تحریک ،قومی یکجہتی مہم ،9فروری 2013کو لاہور پریس کلب تا پنجاب اسمبلی تک بھرپور کارواں نکالااور طلباء کے جمہوری حقوق کیلئے جہدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیا ۔

جبکہ حکمرانوں نے طلباء حقوق پر مسلسل ڈاکہ ڈال رکھا ہے جو بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ 1973کے آئین کی بھی صریح بغاوت ہے ۔
یکم جولائی 1992کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محمد افضل ظلہ ،مسٹر جسٹس افضل لون اور جسٹس سعید الزمان صدیقی پر مشتمل بینچ نے تعلیمی نظام میں بدعنوانیوں سے متعلق مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے عبوری حکم سنایا کہ طلباء کو کالجز میں داخلے سے قبل طلباء تنظیموں کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے انکار کا حلف نامہ دینا ہوگا ۔حلف نامہ کی یہ تجویزپاکستان بار کونسل کے چےئرمین محمد نواز مری نے عدالت اعظمی کو پیش کیا ۔مسئلہ پر غور وغوض کرنے کیلئے اے ٹی آئی نے لاہور میں سیمینار منعقد کروایاجس میں مختلف طلباء تنظیموں کے قائدین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔اپریل 1993میں چیف جسٹس افضل ظلہ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل یونینز پر عائد پابندی اٹھانے کا فیصلہ لکھا جسے 12جولائی 1993کو جاری کیا گیا۔عدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عدالت نے محسوس کیا کہ سابقہ یونینوں کی طرز پر تعلیمی سرگرمیوں کی اجازت دی جا سکتی ہے ۔عدالت نے تعلیمی اداروں کے سربراہان کو ہدایت جاری کیں کہ وہ ایک ما ہ کے اندر ایسے اقدامات کریں جو طلباء کو صحت مند انہ سرگرمیاں فراہم کرنے کی ضامن ہوں مگر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے باوجود کہیں طلباء یونین الیکشن منعقد نہیں ہو سکے ۔29 مارچ 2008وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے پالیسی بیان میں طلباء یونینز کی بحالی کا اعلان کیامگر سپریم کورٹ کے ان فیصلوں اور جمہوری حکومتوں کے اعلانات کے باوجود طلباء یونین الیکشن نہیں ہوسکے ۔12جنوری 2016میں انجمن طلباء اسلام کے وفد نے چےئرمین سینٹ میاں رضا ربانی سے ملاقات کرکے انہیں طلباء یونینز کی بحالی پر قائل کیا ۔جس پر پاکستان کے ایوان بالا میں چےئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے تمام اراکین سینٹ کو حکم دیا کہ وہ طلباء حقوق کی بحالی کیلئے اپنی سفارشات مرتب کریں مگر افسوس کہ بات اعلانات اور سفارشات سے آگے نہ جا سکی ۔ 13جنوری 2017کو چےئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے حالات کو جانچتے ہوئے ایوان بالا میں رولنگ دیتے ہوئے طلباء یونینز پر پابندی کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا اور اس کی بحالی کیلئے قانون سازی کا فیصلہ کیا اور سینٹ سیکریڑیٹ کو ہدایات جاری کیں کہ دو ہفتوں میں قرار داد کا مسودہ تیار کریں تاکہ طلباء یونینز کی بحالی ممکن ہوسکے ۔

انجمن طلباء اسلام کے مرکزی صدر نعمان الجبارنے سال 2018کو بحالی حقوق طلباء کے عنوان سے منانے کا اعلان کیا تواس عنوان کے تحت ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں کانفرنسوں ،کنونشنز ،مارچ اورریلیوں کا انعقاد کیا گیا جس سے ملک بھر کے طلباء میں شعور اور بیداری کی لہر دوڑ گئی ۔19دسمبر 2018کو ایک بارپھر متحدہ طلباء محاذ کی قیادت اے ٹی آئی کے پاس آئی تونعمان الجبار کی قیادت میں طلباء حقوق کی بحالی اور مسائل کے حل کیلئے بھر پورملک گیر تحریک چلائی گئی ۔بحالی حقوق طلباء مہم کی مرکزی تقریب بحالی حقوق طلباء کانفرنس 20 جنوری 2018لاہور پریس کلب لاہور میں منعقد ہوئی جس میں اہم سیاسی ،سماجی ،مذہبی اور صحافتی شخصیات نے شرکت کی ۔اس موقع صدر انجمن نے حکومت کو چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا اور 9فروری 2018 کو ملک گیر ریفرنڈم کا اعلان کیا ۔ریفرنڈم کا انعقادملک بھر کی سرکاری ونجی جامعات،کالجز،سکولز ،مدارس اور چھوٹے بڑے شہروں میں کیمپ لگا کر کیا گیا ۔ریفرنڈم میں برائے راست مجموعی طور پر لاکھوں طلباء و طالبات نے حصہ لیا اور اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ۔82فیصد طلباء نے یونینز کے حق اور 18فیصد نے نامنظور یا مبہم ووٹ کاسٹ کیا ۔ اس طرح کے ملک گیرطلباء ریفرنڈم کی ملک گیر سطح پر ماضی میں نظیر نہیں ملتی ۔ انجمن کے اس اقدام کو ملکی اور بین الااقوامی سطح پرخوب پذیرائی ملی۔ سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی اور دیگر سیاسی مذہبی جماعتوں نے طلباء یونینز کی بحالی کیلئے انجمن طلباء اسلام کی جہدوجہد کو سہراہا۔انہی نتائج کو بنیاد بناکر انجمن طلباء اسلام نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں عدالتی چارہ جوئی کی سعی کی ۔

راقم الحروف جب سیشن 2019/20میں انجمن طلبہ اسلام کا مرکزی سیکریڑی جنرل تھا تو 8فروری 2020کو ملک کی تمام چھوٹی بڑی طلباء تنظیمات کی لیڈر شپ کو لاہور میں جمع کرکے اے پی سی کا انعقاد کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں طلبہ یونین کی بحالی کیلئے ملک گیر احتجاجی تحریک کے اعلان کے ساتھ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے حقوق طلبہ ریلی کا فیصلہ کیاگیا۔ملک کے بڑی جامعات میں بحالی طلبہ یونین کنونشن کروائے گئے۔وزارت ہائیر ایجوکیشن پنجاب اوروائس چانسلر ز کانفرنس کی جانب سے یونینز پرپابندی کی حمایت اورسٹوڈنٹ سوسائٹی کی صورت میں متبادل پلیٹ فارم کو یکسر مسترد کر دیاگیا۔تعلیمی اداروں میں لسانی اور علاقائی بنیادوں پر قائم کونسلوں اور تنظیموں پرفوری پابندی عائد کرنے اور نصاب میں تبدیلی اور تعلیمی بورڈ آغا خان گروپ کی سربراہی سے واپس لینے کامطالبہ کیا گیا۔طلبہ یونینزکی بحالی کیلئے تمام طلبہ تنظیموں کے قائدین کا دستخط شدہ خط اعلی شخصیات کو ارسال کیا گیا اور طلبہ وفد تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز سے ملاقاتیں کیں ۔ طلباء یونینز پر پابندی آمرانہ سازش ہے جس کے تانے بانے غیر جمہوری قوتوں نے آمروں کی آشیرباد سے بنے تھے جس کا مقصد جبر واستبداد کی قوتوں کو تقویت بخشنا تھا ۔وطن عزیز کو موروثی ،وڈیرہ شاہی ،سرمایہ دارانہ ،جاگیر دارانہ سیاست نے بے پناہ نقصان پہنچایا ہے ۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی جمہوریت ہے وہاں طلباء یونینز آزاد اور طلباء کو جمہوری حقوق مل رہے ہیں ۔طلباء تنظیموں نے ہر دور میں ملک وقوم کو بہترین قیادت فراہم کی ہے ۔طلباء یونینز پر عائد پابندی سے باصلاحیت لیڈر شپ کا فقدان پیدا ہو رہا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے تدریسی اداروں میں بھی لیڈر شپ ابھارنے کا کوئی موثر فورم بھی نہیں ہے ۔ماضی میں طلباء تنظیمیں جمہوریت کی نرسریاں سمجھی جاتیں تھیں جہاں سے صلاحیتوں سے بھر پور لیڈر شپ جنم لیتی تھی۔جمہوریت کا راگ الاپنے والے چئمپین طلباء کو کب انکے جمہوری حقوق دیں گے ، قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہر حکمران نے طلباء برادری سے سو تیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا ہے ۔طلباء یونینز پر پابندی پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔حکمرانواں کو طلباء برادری کے آئینی حقوق سے محروم کرنے کا فیصلہ ترک کریں جبکہ آج کے دن تمام طلباء تنظیموں کو اپنے فروعی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے بحالی طلباء یونینز کیلئے اٹھ کھڑا ہوں اور فیصلہ کن تحریک کا آغاز کرنا ہوگا ۔ انصاف اور تبدیلی کی علمبرار موجودہ جمہوری حکومت کو طلباء یونینز سے عملاپابندی ہٹاکر طلباء یونینز کے انتخابات کا ٹائم فریم دینا ہو گا تاکہ طلباء برادری میں بڑھتا ہوا اضطراب ختم ہوسکے ۔انجمن طلبہ اسلام ضلع لاہور کے ناظم عبدالصبور ہنجرا کی میزبانی میں آج (09فروری)کو ملک گیر طلبہ تنظیموں کی اے پی سی منعقد کروائی جارہی ہے امید ہے نوجوان نسل کی جہدوجہد ضرور ثمربار ہوگی ۔۔۔

تعارف: ویب ڈیسک

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*