پاکستانی تاریخ کے پراسرار قتل

پاکستانی تاریخ کے پراسرار قتل : پروفیسرعبدالشکورشاہ

تحریر : پروفیسرعبدالشکورشاہ

پراسرار واقعات اورحادثات کاانسانی تاریخ سے گہرا تعلق ہے۔ ادوار کے تنوع، انسانی تخلیقی صلاحیتوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اورجدید ٹیکنالوجی کے باوجود، ابھی تک ایسے بے شمارپراسرار واقعات موجودہیں جنہیں ہم حل کرنے میں ناکام رہے۔ دیگر دنیا کی طرح پاکستانی تاریخ میں بھی بہت سارے پراسرار واقعات ہیں جن کی گھتی ہم آج تک سلجھانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ان پراسرار واقعات میں سے ایک قتل محترمہ بینظیر بھٹو کا ہے۔ بینظیر بھٹو کو27دسمبر 2007کوایک جلسے کے دوران راولپنڈی لیاقت باغ میں شہید کر دیا گیا۔فائرنگ کے فورا بعد خودکش دھماکہ کیا گیا۔محترمہ کی شہادت کے بعد ان کی پارٹی برسراقتدار آئی اور ان کے خاوند آصف علی زرداری ملک کے سربراہ ہونے کے باوجود محترمہ کے قاتلوں کو تلاش کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت بھی محترمہ کے قتل سے متعلق ایک پیج پر نہ تھی۔محترمہ کی شہادت کے فورا بعد ان کا ریکارڑ حکومتی حکام نے قبضے میں لے لیااور متعلقہ ڈاکٹرز کو بھی اس معاملے پر بات کرنے سے روک دیا گیا۔ بدقستمی سے تدفین سے قبل کوئی روائیتی آٹوپسی تک نہ کی گئی کیونکہ محترمہ بھٹو کے شوہر نے آٹوپسی کرنے سے منع کر دیا تھا۔ اس معمے کو حل کرنے کے لیے سکاٹ لینڈ یارڈکی مدد بھی لی گئی مگر وہ بھی اس پراسرار کیس کو سلجھانے میں ناکام ہو گے۔ القاعدہ کمانڈر مصطفی الیزیدی نے اس منصوبے کی ذمہ داری قبول کی جبکہ سی آئی کے ڈائیریکٹر مائیکل ہیڈن کے بقول اس پراسرار قتل میں معسود گروپ ملوث تھا۔3اکتوبر2016کو محترمہ بھٹو کی جانب سے جنرل مشرف کو لکھے گئے خط میں اعجاز شاہ،ارباب غلام رحیم، چوہدری پرویز الٰہی اور جنرل حمید گل کو اپنے ممکنہ قتل کی منصوبہ بندی کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ محترمہ کی 4خفیہ ای میلز جنرل مشرف کو ممکنہ قتل کا موردالزام ٹھہراتی ہیں۔ بہت سے لوگ محترمہ کے خاوند کو ان کے قتل کا ذمہ دار تصور کر تے ہیں۔تاہم اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی پاکستانی تاریخ کا یہ پراسرار قتل نہیں سلجھ نہ سکا۔ اسی طرح دوسرا پراسرار قتل جنرل ضیاء الحق کا ہے۔ جنرل ضیاء الحق حادثے کے وقت ملک کے صدر اور فوج کے سربراہ بھی تھے۔جنرل ضیاء الحق 17اگست1988کو ایک C-130طیارے کے حادثے میں شہید ہو گئے۔ بہت سے اعلی سو ل اور فوجی افسران بھی اس حادثے میں جان کی بازی ہار گئے۔اس حادثے کی تحقیقات کے لیے امریکہ نے ایئر فورس کی ایک ٹیم پاکستان بھیجی جس نے حادثے کی وجہ کو ایک تکنیکی خراب قرار دیا۔ پاکستان کی جانب سے تحقیقاتی ٹیم نے 365صفحات پر مشتمل خفیہ رپورٹ پیش کی جس میں دھماکہ خیز مواد کی آموں میں موجودگی ظاہر کی گئی۔جنرل حمید گل نے امریکہ کو حادثے کاممکنہ ذمہ دار ٹھہرایااور بین الاقوامی خفیہ ایجنسوں کو اس سازش میں ملوث قرار دیا گیا۔ کچھ لوگوں کے مطابق ضیاء الحق کو شہید کرنے کے درپے ایک حریف گروہ ال ذولفقار اور کچھ مذہبی گروہ تھے۔ کچھ اعلی فوجی افسران کو اس منصوبے کا ذمہ دار تصورکرتے ہیں مگر ان تمام مفروضوں کے باوجود اس پر اسرار قتل کی گھتی نہیں سلجھ سکی۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل بھی ایک معمہ ہے۔لیاقت علی خان کو 16اکتوبر1951کوراولپنڈی میں ایک جلسے کے دوران سینے میں دوگولیاں مار کرشہید کر دیا گیا۔ ایک پولیس افسر نے قاتل سید اکبر ببراک کو فورا موقعہ پر ہی گولی مار دی۔ قاتل ہزارہ کا رہنے والا ایک افغانی ماہر اور تربیت یافتہ قاتل تھا۔ کہا جا تا ہے کہ قاتل کو گولی مارنے والا پولیس افسر بھی اس سازش میں شامل تھا۔لیاقت علی خان کو شہیدکیا جانے والا اسلحہ اور گولیاں امریکی ساختہ تھی اور یہ اعلی امریکی فوجی افسران کے استعمال میں ہوتی ہیں۔کچھ طبقات گورنر جنرل غلام محمد اور کچھ مشتاق احمد گورمنی کو لیاقت علی خان کے قتل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ کچھ طبقات امریکہ کو افغان حکومت کے زریعے لیاقت علی خان کوقتل کروانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔تاہم ان تمام مفروضوں اور قیاس آرائیوں کے باوجود پاکستانی تاریخ کا یہ قتل بھی ابھی تک ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ حکیم محمد سعید صاحب کا قتل بھی ایک پہیلی ہے۔ حکیم محمد سعیدایک عالم، طبعی محقق کے علاوہ سندھ کے سابقہ گورنر بھی رہ چکے تھے۔آپ ہمدرر فاونڈیشن کے بانی ہونے کے ساتھ ساتھ تقریبا200کتابوں کے مصنف بھی تھے۔آپ کو1998میں ہمدرد لبارٹیریز جاتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔ متحدہ قومی مومنٹ کے نامعلوم قاتلوں کو گرفتا رکر کے سزائے موت دے دی گئی مگر اس قتل کے پیچھے کون تھا یہ راز ابھی تک حل طلب ہے۔لوگوں کی اکثریت الطاف حسین کو اس بے گناہ قتل کا ذمہ دار گردانتی ہے۔القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو 2مئی2011کو ممکنہ طور پر ایبٹ آباد میں امریکی سپیشل فورسسز نے ایک آپریشن کے زریعے شہید کرنے کادعوی کیا۔ امریکہ نے آئی ایس آئی کے سربراہ پر اسامہ کی موجودگی کے بارے علم ہونے کا الزام لگایا۔ اسامہ پرپینٹاگون حملے کا الزام تھا۔ امریکہ نے اسامہ کو ممکنہ طور پر مارنے کے بعد سمندر میں پھینک دیا۔ اسامہ کی لاش کوسمندر میں پھیکنے، اس کی تصاویر شائع نہ کرنے اور ا س کے ڈی این اے کے فوری نتائج نے اس آپریشن کو معمہ بنا دیا ہے کہ آیا اسامہ ایبٹ آباد میں موجودبھی تھا یا نہیں۔ بعض لوگوں کے مطابق اسامہ طالبان امریکی جنگ کے اوائل ہی میں شہید ہو گیا تھا اور امریکہ نے ایک نفسیاتی ڈرامہ رچایا۔اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن اور اسامہ بن لادن کی شہادت بھی ایک معمہ ہے۔ مصحف علی میرپاکستان فضائیہ کے سولہویں سربراہ تھے۔ آپ 20فروری2003کوطیارے کے ایک حادثے میں اپنی بیوی اور دیگر افسران سمیت کوہاٹ کے قریب شہید ہو گئے۔ فضائیہ کے مطابق حادثہ پائلٹ کی غلطی اور شدید موسمی خرابی کے باعث پیش آیا۔ایک تحقیق صحافی جیرالڈ پوزنرکی کتاب کے مطابق یہ حادثہ نہیں تھابلکہ مصحف علی میر سمیت تین دیگر اہم شخصیات سعودی شہزادہ ترکی بن فیصل السعودجو سعودی خفیہ ایجنسی کے سربراہ بھی تھے اور اسامہ بن لادن ایک منصوبے کے تحت شہید کیے گئے ہیں۔ سعودی شہزادہ مریکہ کے ہاتھوں پاکستانی اڈوں کے استعمال کے شدید مخالف تھا۔مصحف علی میر کی شہادت بھی دیگر پر اسرار واقعات کی طرح ایک معمہ ہی ہے۔

تعارف: پروفیسر عبدالشکور شاہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*