نظر آئی نہ مجھے قافلہ سالاروں میں : قاری مجمدعبدالرحیم

تحریر : قاری مجمدعبدالرحیم

پاکستان تاریخ کی بدتریں زبوں حالی کا شکار ہے۔بین الاقوامی استعمار کی گرفت اس سے پہلے پاکستان پر اس قدر کبھی نہ ہوئی تھی۔پاکستان ٹوٹنے کے دوران بھی اس قدر بدترین  قومی حالت نہ تھی، کہ عوام اس قدر بھوک وننگ سے تنگ ہوں،اور خود کشیاں کررہے ہوں، گوکہ وہ عالمی استعمار کا پہلا حملہ تھا، جس میں وہ اپنی امیدوں سے بڑھ کر کامیاب ہوے۔ اورپھرزخم خوردہ قوم کو سہلانے کے لیے جمہوری حکمرانی کا جواڈالا گیا،اور عالمی استعمار نے اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے، امدادی فنڈنگ اور اسلامی ممالک کی ہمدردی کا ڈھونگ ایسارچایاکہ علیحدہ ہونے والے حصے پرکسی قسم کی چارہ جوئی یا ہم آہنگی کے بجائے، موجودہ پاکستان میں یومِ تشکر منایا گیا،کہ شکرہے پاکستان بچ گیا۔کیا یہ ان بنگالی عوام کے اندر نفرت بڑھانے کے لیے ناتھا۔قوم کو غداروں سے بچاتے بچاتے قوم کے ہمدردوں نے ایک المیے سے دوچار کردیا۔پھر اچانک بنائی جانے والی جمہوری حکومت  نے جہاں کچھ اچھے کام کیے وہاں ہی جمہوریت کے بجائے فسطائیت کو اپنا لیا کہ تمام ریاستی قوت کے مراکز اپنے ہاتھ میں دیکھ کر اوردوسال تک سول مارشل لا ایڈ منسٹریٹر رہنے کی وجہ سے  جمہوریت صرف اپنی ہی پارٹی کو سمجھ لیا، جس طرح آج ملک پر مسلط حکومت خود کو کرپشن سے پاک سمجھتی ہے،جبکہ ایمنسٹی  اننٹرنیشنل کے رپورٹوں کے مظابق کرپشن کا بازار جو اس حکومت میں گرم ہواہے، وہ اس سے پہلے نہ تھا۔ انیس سواکہتر کے بعداپنی غلطیاں چھپانے والوں نے چند سال اس حکومت کو برداشت کیا،اور انتظار کیا کہ عوام کب آگ بگولہ ہوجائیں تو پھر اپنے سائے میں انہیں ٹھنڈا کیا جائے، بالاخر اسلامی تحریک ہی کو اٹھایا گیا،اور ملک کومحفوظ ہاتھوں میں کرلیا، نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔آج بھی قوم کو اسی مخمصے میں پھنساجاچکا ہے، لیکن آج عالمی استعمار نے خود آگے بڑھ کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا راستہ ہموار کرلیا ہے، جب کسی ملک کی معیشت کسی ا ور کے ہاتھ میں چلی جائے تو ملک کسی قومی یا نظریاتی سر حدوں میں نہیں رہتا بلکہ وہاں کی عوام اپنی زندگی کی حدود کو ہی اپنی سرحد سمجھ لیتی ہے، اور زندگی کی بقا صرف معیشت پر ہوتی ہے، کسی نظریے یا سرحد سے منسوب نہیں، استعمار نے ہر زمانے میں بھوک کو پیدا کرکے بھوکے لوگوں کو اپنی سرحدوں میں کیا ہے۔پاکستان قائدِ اعظم کے بعد آج دن تک کسی بالغ نظر لیڈر سے خالی ہی رہا ہے،اس کی بین وجہ استعمار کی دخل اندازی ہے جس سے وہ قوموں کے اندر سے چند فصلی بٹیرے اٹھاتے ہیں،اورپھر جال ڈال کرڈاروں کے ڈار شکارکرلیتے ہیں۔موجودہ  دور میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی قوم کے لیے سوہانِ روح ہیں،حکومت عالمی استعمار کی خدمت پر مامور ہے جبکہ اپوزیشن خدمت کا موقع مانگ رہی ہے۔اورعوام کبھی ادھرکبھی اُدھردیکھ رہی ہے،عوام پر نہ حکومت کو ترس آتا ہے نہ اپوزیشن کو یقین ہے،جس طرح حکومت کے وزیر نے کہا کہ ہمیں یہ حکومت عوام نے نہیں دی،بعینہ یہ یقین اپوزیشن کوبھی ہے کہ انہیں حکومت عوام نہیں دے گی، بلکہ وہ بھی اسی در کے سوالی ہیں جس سے حکومت نے جھولی بھری ہے۔قوم اور ملک سے اگر ذرہ بھر بھی حکومت یا اپوزیشن کو کچھ تعلق ہوتووہ اس طرح بھوکوں مرتی قوم کو دیکھ کر نہ فلسفے جھاڑیں نہ تسلیاں دیں،بلکہ یکسر اس نارِ نمرود میں کود پڑیں،قران پاک میں ایک واقعہ ہے اسے اصحابِ اخدود کہتے ہیں،ظالم بادشاہ عوام کو آگ کی خندقوں میں جلا رہا تھا،اورایک ماں سے اس کا بچہ چھینا گیا کہ پہلے اسے ڈالیں گے تو شاید اس کی ماں ایمان سے دستبردار ہوجائے۔ جب  بچہ چھیناگیا ماں کی ممتا بھڑک اٹھی تو خندقوں کی آگ  بے کار ہوگئی بچے نے ماں سے پکار کرکہا ماں کود پڑویہ ٹھنڈی ہوگئی ہے،تو ماں جب کودی تو آگ پھر آگ ہی ہوتی ہے،وہ خندقوں سے نکلی اور بادشاہ کے اوپرچڑھ دوڑی تووہ جلنے لگے جو جلانے بیٹھے تھے۔ لیکن اپوزیشن مامتا جتنا پیار اور کلیجہ کہاں سے لائے؟تین سال سے مارچ مارچ ہورہی ہے، لیکن مارچ کی بھی تئیس تاریخ کہ جب مارچ ختم ہونے والا ہوتا ہے۔ حالانکہ اب وہ وقت آن پہچاہے کہ مائیں یہ آگ کی خندقوں میں کودپڑیں، کہ کس کے بچے بھوک، ظلم اور بربریت سے نہیں مارے جارہے،لیکن ایک طرف حکومت  مہنگائی، بے روزگاری،لاقانونیت اورپابندیوں کی آتشیں خندقیں بھڑکائے،عوام کے بچوں کو بھسم کررہی ہے تو دوسری طرف اپوزیشن ان سوختہ جانوں کو انتظار انتظارکی دھائیاں دے رہی ہے۔کیوں؟اس لیے کہ یہ سب اٹھائے ہوے ہیں،ان میں خود اٹھنے کی کوئی صلاحیت نہیں،ان کو عوام سے ہمدردی نہیں،اسی لیے انہیں عوام پر یقین بھی نہیں، ایک محاورہ ہے کہ جس کے اپنے دل میں چور ہو وہ دوسرے پر اعتبار نہیں کرتا۔علاوہ اس کے اس ملک کی تمام لیڈر شپ امریکی سامراج کی پروردہ ہے، کسی قومی اور مذہبی نظرئیے سے خالی ہے۔ورنہ طالبان بھی تو اسی خطے کے لوگ ہیں،انہوں نے دنیا کی ساری سپرپاوروں سے مقابلہ کیا اپنے ملک،ثقافت اور مذہب پرکمپرومائز نہیں کیا تیس سالوں سے جنگ میں جھونکا رہنے والا ملک آج پاکستان ایٹمی طاقت سے زیادہ کرنسی میں مظبوط ہے، پاکستان کی کرنسی اس سے بھی کمزور ہوچکی ہے، اس کا بینک کسی آئی ایم ایف کے گورنر کے تحت نہیں ہے، لہذاقوم آج بھی تہیہ کرلے کہ اسے ا ن استعماری قوتوں سے نجات حاصل کرنا ہے،حکومت اور اپوزیشن اورمقتدرہ سے کوئی بھی اس قوم وملک کی نگہبانی کا اہل نہیں۔بقولِ اقبال ’نظر آئی نہ مجھے قافلہ سالاروں میں،وہ شبانی کہ ہے تمہیدِ کلیم اللہی“وماعلی الاالبلاغ

تعارف: ویب ڈیسک

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*