تحریر: صغیر قمر
کابل کی آزاد سرزمین پر اترتے ہی خوف اور تذبذب یخ بستہ ہوا کے ساتھ اڑگیا۔میں نے برفیلی ہوا میں کھڑے ہو کر آسمان کی طرف دیکھا اور لمبی سانس لے کر اپنے پھیپھڑے اس ہوا سے بھر لیے۔مجھے دنیا کی آزاد اور باغیرت اقوام اس لیے بھی اچھی لگتی ہیں کہ انہیں رب نے آزاد پیدا کیا تھا انہوں نے غلام رہنے سے مر جانا بہتر جانا۔مجھے خواب کی طرح لگا کہ میں نے ایک بار پھر کابل کو دیکھا اپنے ہم سفر راجہ عبدالقیوم سے کہا مجھے "چونڈی” مار کر جگائیں شاید یہ خواب ہو۔وہ کھلکھلا کر ہنس دیے۔ان کی ہنسی ایک آزاد شہری کی ہنسی تو نہیں تھی لیکن ہمارے اردگرد لوگ چل رہے تھے جن کے چہروں پر خوشی جھلک رہی تھی۔
امریکیوں کی عبرت ناک شکست کے بعد فاتح لوگوں کے بارے جعلی,غلط اور متعصب روے کو کابل کی مارکیٹوں,بازاروں اور سڑکوں پر رلتا ہوا پایا۔
آزاد کابل کی آزاد حکومت کے بارے میں اللہ کے خوف سے عاری میڈیا کےدن رات پراپگنڈے کا کیا کہنا۔کسی صاحب ضمیر صحافی کا اس شہر میں آنا ضروری ہے۔جھوٹ اور سرسر جھوٹ!!
کابل میں بحالی مہاجرین دفتر میں اس کے رئیس قاری عبدالمتین سے ملاقات کے لیے پہنچے تو ان کے تروتازہ بارونق چہرے پر مسکراہٹ تھی۔وہ آج صبح آٹھ بجے دفتر آۓ تھے اور اب مغرب ہو چکی تھیں۔
ان کی میز پر ہزاروں درخواستوں کا ڈھیر لگا تھا۔
ایک کروڑ آبادی کے اس شہر میں 45 مہاجرین کے کیمپ اور پانچ لاکھ سے زائد لوگ امریکیوں کی تباہی کے بعد سر چھپانے کی جگہ اور خوراک کے منتظر ہیں۔
دنیا بھر میں انسانی حقوق کا "علمبردار” امریکا انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ٹریجیڈی مرتب کر کے بھاگ گیا۔
قاری عبدالمتین صاحب سے جب گزرے بیس برسوں کے بارے میں پو چھا تو سر عاجزی سےجھک گیا۔
مزرا شریف کے رہنے والے قاری صاحب نے تین سال بگرام میں امریکی جیل اور آٹھ برس دنیا کی بدنام ترین گوانتاناموبے جیل کی کوٹھڑی نمبر802 میں قید تنہائی فتح کی امید پر گزار دیے۔آج سامراجی میڈیا کہتا ہے کہ نئی حکومت میں سب کو نمائندگی کیوں نہیں دی جارہی؟بات تو سمجھ آتی ہے کہ اس بوڑھے قاری کی اس "ترقی” کے دیونوانوں کے دور میں دو بار ٹاٹگ توڑی ایک بازو توڑا قصور محض یہ تھا کہ غلامی قبول نہیں کرتے تھے۔آج آزاد افغانستان میں اللہ نے انہیں اپنے عوام کی خدمت کا موقع دیا تو وہ دن رات معذوری اور بڑھاہے کے باوجود اپنے بھائیوں کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔میں نےآگے بڑھ کر ان کے ہاتھ چومے ۔
اللہ کی سرزمین پر اللہ کے ایسے بندے باقی ہیں تو اسی کی رحمت ہے۔ورنہ یہ زمین تو فسادیوں سے بھر رہی ہے۔