تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
مہنگائی اورلاقانونیت کے اس طوفان میں،حکمرانی کی لاج رکھتی حکومت کبھی کوئی قانون پاس کررہی ہے،توکبھی کوئی پیکج دے رہی ہے۔آئی ایم ایف کے ہر حکم کو سر آنکھوں پر مانتے ہوے، کبھی ڈالر کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچایا جارہاہے،تو کبھی تیل وگیس اور بجلی کی قیمتوں میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر اضافہ کیا جارہا ہے،آئی ایم ایف کا چوہڑا جب مردہ جانور کی کھال اتارتا ہے تو اس کی مزدوری زندہ جانور کی قیمت کے برابر مانگتا ہے۔ہمارے علاقے میں ہندودور کی بات ہے،اس وقت ہندو گائے بھینس وغیرہ مسلمانوں کو ذبح نہیں کرنے دیتے تھے،تویہ حلال جانور اکثر مرجاتے اور انہیں اٹھا کر پھینک دیاجاتا اس سے چوہڑوں اور گِدھوں کی عید ہوجاتی،گِدھوں کے ڈار کے ڈار آسمان پرپھررہے ہوتے اور چوڑے بھی چھریاں ٹوکے اٹھائے، آئی اینم ایف کی طرح گلی گلی گھوم رہے ہوتے تھے۔ ایک مائی کی ایک”کٹیا“قضائے قدرت سے مرگئی، اس نے چوڑے کو دیکھا تو کہا کہ اس کی کھال اتار دو، حالانکہ مردہ جانور کی کھال مسلمان بھی اتار سکتا ہے،اور کھال کو دباغت دینے کے بعد کھال پاک ہوجاتی ہے سوائے خنزیر کی کھال کے۔ لیکن شاید اس وقت مسلمان ڈر کے مارے کھال بھی نہ اتارتے کہ کہیں ہندوانہیں ماتا کی ہتیا کے قانون میں نہ پھنسالیں۔البتہ اس چوڑے نے کھال اتاری اور ساتھ ہی چوڑے اچھا اچھا گوشت بھی کاٹ کر لے جاتے تھے، چونکہ ان کے مذہب میں حلال وحرام کچھ بھی نہیں،جیسے آج کی دنیا میں خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کتے بلیاں،سوراور حتیٰ کہ زہردار جانور سانپ اور بچھو سب کھائے جارہے ہیں،اوریہ پاکستان میں گدھے اور کتے کے گوشت کاجو رولا ہے یہ بھی ان چوڑا نسل لوگوں ہی کی وجہ سے ہے، ہاں تو اس مائی نے جب چوڑے کو پوچھا کہ کھال اتارنے کی مزدوری کیا دوں،تو اس نے کہا چار آنے،تو اس مائی نے کہا ”ہائے یہ چھوٹی سی کٹی اس کے چار آنے“توچوڑے نے کہا چلومیں کھال ہی لے جاتا ہوں،جیسے آئی ایم ایف والوں نے کہا ہے کہ چلوسٹیٹ بینک ہی ہمیں دے دو،اورہم نے دے دیا، لیکن وہ مائی ہماری حکومت سے زیادہ دانش مند تھی اس نے کہا”ہائے ہائے اتنی بڑی بھینس ہے اور تم اس کی کھال مزدوری میں لینا چاہتے ہو“اب چوڑے بے چارے کو مردہ کٹیاکے گوشت پر ہی گزارا کرنا پڑا۔لیکن ہماری جاہل حکومت کو آئی ایم ایف والے کہتے ہیں تم اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کرو کہ اس سے ہم تمہیں قرضہ دیں گے،وہ راتورات اضافے کا آرڈر جاری کرتے ہیں،اس سے ایک تو عوام کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملتا،دوسرے عوام بھول جاتے ہیں کہ وہ کل دن کو کس بات پر برہم ہورہے تھے،بقولِ غالب،حیراں ہوں دل کورووں کہ پیٹوں جگرکومیں،۔اب عوام کو بے وقوف بنانے اور اپنے چوراچکوں کی جیبیں بھرنے کے لیے ایک شیطانی ہمدردی کا ڈھونگ کیا جاتا ہے،جسے انگلش میں کہتے ہیں ’سب سڈی“اورپنجابی میں یہی لفظ سب کچھ ہڑپ کرنے کے معنیٰ میں بولا جاتا ہے۔اور ہمارا ملک زیادہ تر پنجاب پر ہی مشتمل ہے،اس لیے یہاں سبسڈی سے مراد وہ پنجابی والی ہے کہ ”سب سُڈی جا“۔ لیکن عیاروں نے اسے باقاعدہ قانونی تحفظ دے رکھا ہے۔اور صرف یہی حکومت ہی نہیں بلک یادش بخیر اس سے پہلے حکمرانوں میں بھی یہ سب سُڈی کا مرض پایا جاتا تھا۔اس سے پہلے ایک حکومت نے کھاد پر سینتیس ارب روپے کی سب سُڈی دی،اس وقت کھاد کا توڑا کسان کواٹھارہ سوروپے کا ملتا تھا، سب سڈی کی وجہ سے کھاد ڈیلر کووہی توڑا بارہ سوروپے کا دیا گیا، لیکن کسان کو پھر بھی اٹھارہ سوکا ہی ملتارہا کیوں؟اس لیے کہ ”سب سُڈی“ سے صرف اپنے چمچوں کونوازنا مقصود تھا۔اپوزیشن کے ایک رکن نے اس کے خلاف تقریباًایک سال یا زیادہ کیس لڑا،تونتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات کہ قانون میں ہے کہ حکومت”سب سُڈی“ صرف ڈیلر کوہی دے سکتی ہے،توپھر کیا یہ قومی خزانہ صرف سرکاری ملازمین اور سیاسی لیڈروں کی عیش وعشرت کے لیے ہے،اس اقوم اوراس کی نسل جو ابھی عالمِ مثال میں ہے اس پر بھی قرض صرف ان چند حکمرانوں، چند سرکاری ملازموں،چند اوباش سیاست دانوں اور ان کے چمچوں کی عیاشیوں کے لیے چڑھایا جارہا ہے۔اب ایک نیا مزاق دیکھیے پیٹرول ایک سوپچاس کا کرکے حکومت نے کئی ارب روپے کی”سب سُڈی“کا اعلان کیا ہے،اوروہ کیا مزے دار اعلان ہے،کہ جن کی آمدنی تیس ہزار سے کم ہوگی ان کو پیٹرول دس سے بیس روپے کم ڈالا جائے گا، اب جس حکومت کے پا س اپنے وزیروں مشیروں اور افسروں کا ڈیٹا بھی موجود نہیں،وہ ہر غریب اور مزدورکا ڈیٹا اپنے پاس رکھے ہوں گے؟دوسرے نمبر پر جس کی آمدن ہی تیس ہزار ہے اس نے پیٹرول کوئی خودسوزی کیلیے لینا ہے کہ چلو اسے دس بیس روپے سستا مل جائے گا۔ اور پھر کیا اس”سب سُڈی“ سے بسوں ویگنوں گاڑیوں کے کرائے کم ہوجائیں گے؟اورکیاا س سے باقی اشیائے خوردونوش کی قیمتیں کم ہوجائیں گی؟نہیں اور یقینا ًنہیں۔تو پھریہ کس کے لیے ہے۔یہ ان سب اوباشوں اور سیاسی چمچوں کے لیے ہے،جواس وقت بھی مہنگائی سے متاثر نہیں ہوے،جن کی دعائیں اور تمنائیں ہیں کہ اگلے پانچ سال بھی یہی حکومت رہے،اور وہ کھلے عام سب ”سڈتے“ رہیں۔کہتے ہیں کسی اندھے نے نیاز بانٹنا شروع کی اوروہ ریوڑیاں تھیں،تووہ باربار اپنوں کوہی دیتا رہا،توپنجابی کی یہ ضرب المثل بن گئی کہ ”اَنّہاں بنڈے ریوڑیاں تے مڑ مڑ اپنیاں نوں“لہذایہ ساری سبسڈیاں جوحکومت عوام کے نام پر دے رہی ہے،یہ اندھے کی ریوڑیاں ہیں بلکہ اندھی قوم کو ریوڑیوں کا لالچ دے کر اپنوں کی جیبیں بھری جارہی ہیں۔وماعلی الاالبلاغ۔