اقبال اوربے اقبال : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

ابھی گذشتہ دنوں یومِ ولادتِ اقبال تھا،ہمیں تودوسرے دن اخباروں کے آرٹیکل دیکھ کر پتا چلا کہ یومِ اقبال تھا۔کہ ہمارے بچپن کے زمانے میں یومِ اقبال پر چھٹی ہوا کرتی تھی،توہمارے سب ہم جھولیوں کو نومبرکی پہلی تاریخ ہی سے انتظار ہوتا تھا کہ کب یومِ اقبال ہوگا،اللہ بھلا کرے ہمارے قوم کے ہمدردوں کا انہوں نے قومی ترقی کے لیے کام  کے دنوں میں چھٹی کوختم کردیا،اورہماے پاس اقبال کا علم یومِ اقبال کے علاوہ اور کچھ تو ہے نہیں کہ ہمیں یاد ہوکہ یہ اس اقبال کا دن ہے جو ہمیں اس راہ چلا گیا تھا۔چونکہ ہمیں ابھی تک یہ ہی پتا نہیں چلا کہ اقبال ہم میں سے تھا، یا ہمارے لیے تھا؟اوراقبال کوئی شخصیت تھی یا پھر ایک شخص تھا؟کسی معاصر دوست نے لکھا ہے کہ اقبال کو اقبال ہی رہنے دیا جائے،اور لبَِ لباب یہ تھا کہ وہ ایک شاعر تھا، جس کے کلام میں مختلفات ہیں کبھی وہ شکوہ لکھتا ہے،جواب شکوہ لکھتا ہے،حسن کی تعریف کرتاہے، خدا کی بات کرتا ہے، خود پسندی پہ آجاتا ہے،پھر انسانی حقوق کی بات کرتا ہے،وہ ایک حسن پرست اوربقول اس کے روشن خیال شاعر ہے،اس کے خطوط جو حسینوں کے نام ہیں وہ دنیا کی ہر لائبریری سے مل جاتے ہیں،وہ اپنے عشق کے لیے اس ملک سے بھاگنا چاہتا تھا،یا پھر شراب میں ڈوب کر مدہوش رہنا چاہتا تھا۔لہذاس کی شاعری اور شخصیت کو ایک ہی صفحے میں سمجھ لینا،اور اسے کسی مذہبی تناظر میں دیکھنا  تعصب  ہے لہذااقبال کو صرف ایک شاعر کی حد تک پڑھ کر اس سے محظوظ ہونا ہی اصل اقبال شناسی ہے۔میں اپنے فاضل دوست کی کسی دل آزاری  سے معافی کا خواستگار ہوں، لیکن مجھے ایک عرض کرنا ہے کہ اقبال،نٹشے اور گوئیٹے  اور شیکسپئریہ سارے ہی شاعر ہیں، لیکن کیا نٹشے اور گوئٹے اور شیکسپئر کی قوموں نے انہیں ٰ صرف شاعر ہی سمجھا ہے،یا وہ انہیں فلاسفر مانتی ہیں،اورکیا اقبال نے جدید دنیا سے فلاسفی نہیں کی ہوئی تھی؟اورکیا سوائے انبیاء علیھم السلام کے کوئی بندہ معصوم ہے؟آج کل کے میرے ایسے لکھاری دوستوں کو بھی  اگر یہ کہا جائے کہ انہیں صرف لکھاری ہی سمجھا جائے،ان کے کسی وژن کو کچھ نہ سمجھیں،یہ کل پچھلی حکومت کے بارے میں لکھ رہے تھے آج اس حکومت کے بارے میں لکھ رہے ہیں،تو شایدتوہینِ صحافت ہوجائے۔لیکن ایک بندہ جس کا قصور صرف یہ ہے کہ اس نے انگریز سے سیکھ کر بھی،انگریز کو قبول نہیں کیا، حتیٰ کہ  ”سر“ کا خطا ب واپس کردیا اور ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد ڈاکٹر کے لفظ کو بھی اپنے نام سے ہٹا دیا،۔اب اس زمانے میں بھی اگر کوئی اسے صرف شاعر ہی کہنے پر اصرار کرے تویہ اس کے ساتھ زیادتی نہیں؟دوسری گزارش یہ ہے کہ صرف کسی بندے کی سوانح عمری  کے پہلے باب ہی سے کسی کی شخصیت کا اظہار نہیں ہوتا، بلکہ مابعد والوں کے لیے پختہ عمری ہی مثال ہوتی ہے۔البتہ تاریخ سب لکھ دیتی ہے، لیکن کمال انجام پر ہوتا ہے۔میں نے  اپنے ناقص مطالعہ اور علم کے باوجود جہاں تک علامہ اقبال کی اردوشاعری کو دیکھا ہے،یہ دیکھا میں نے اس لیے لکھا ہے کہ میں اسے پڑھ کر سمجھ نہیں سکا،اس میں میری ناقص نظری کے باوجوداقبال کی نوے فی صد شاعری کالبِ لباب انسانی معراج،خودی یعنی خود آگاہی، جرات  اور شعوروفکر،دردِ دل اور حق طلبی حتیٰ کہ پرودگارسے بھی اپنے حق کے لیے مخاطب ہونا،کسی جگہ میں اقبال نے بے دلیل تارے توڑ کر لانے کی بات نہیں کی،اقبال نے کہیں صرف قصیدہ خوانی نہیں کی دلائل سے اسلام کی برتری بھی بیان کی ہے، شخصیات پرستی بھی نہیں کی اسلام کے ظاہری مدارالمہام پیروملا کو بھی ان آڑے ہاتھوں لیا ہے کہ وہ بھی علامہ کو صرف شاعر ہی کہنے لگے، لہذاگر موجودہ اردو کی شاعری میں نوے فی صد شاعری قومی فکر کی تجدید ووتدوین پر ہے اور فارسی کلا م تو تقریباًاسلام ہی کی تشریح وتعبیراور بحیثیتِ قوم وفرد خودی اورخود آگاہی کادرس ہے،تو پھر شاعرِ اسلام اور حکیم الامت سمجھ کر اقبال کی تعریف کرنا، یا اس کے کلام سے دلائل لینا،اقبال کی شخصیت میں کہاں سے نقب زنی ہے،جبکہ پوری دنیا کے  صاحبِ عدل لوگ اسے انسانی آزادی کا پیامبر ہی سمجھتے ہیں،اوراسلام کے بارے میں اقبال نے ضربِ کلیم میں یہ لکھا ہے ”روح اسلام کی ہے نورِ خودی، نارِ خودی۔زندگانی کے لیے نارِ خودی نوروحضور۔یہی ہر چیز کی تقویم،یہی اصلِ نمود۔گرچہ اس روح کو فطرت نے رکھا ہے مستور۔ لفظِ ”اسلام“سے یورپ کواگر کدہے تو خیر۔ دوسرانام اسی دین کا  ہے فقرِ غیور“اب اس ردوکد سے جو یورپ کو للکارتا ہے اس کے لیے یورپ تو ہمیں یہی سبق دے گا ناکہ وہ ایک شاعر ہے،یہاں شاعر تعریف کے معنیٰ میں نہیں بلکہ ایک لایعنی بات کہنے والے کے معنی میں ہے،قران میں اللہ تعالیٰ بھی فرماتاہے کہ ”اورشاعرو ں کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں۔کیاآپ نے نہیں دیکھا کہ وہ ہروادی میں سرمارتے پھرتے ہیں۔اور وہ،وہ کہتے ہیں جوکرتے نہیں“ لیکن اللہ نے ایمان والے شعراء کواس سے مستثنیٰ قراردیااورفرمایا”مگرجولوگ ایمان لائے اورنیک کام کئیے،اوراللہ کوبہت یاد کرتے رہے،اور انہوں نے اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعدانتقام بھی لیا،“اب جس نے اپنی شاعری سے انگریزوں سے انتقام لیا کہ ان کے مقابل ایک قوم کو زندہ کردیا،اوراس قوم نے دنیاکانقشہ بدل دیا،اب اس سے یورپ یہی انتقام لے گا نا کہ وہ تو ایک شاعر ہے،اوراسے شاعر سمجھ کر ہی پڑھو،اوریہ ہماری بے اقبالی ہے کہ ہم نے یورپ کے کہنے پر اقبال کو پڑھناہی چھوڑدیا بلکہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ جو انگلش پڑھا ہوا ہے وہ اقبال کو پڑھ ہی نہیں سکتا،اللہ تعالیٰ ہمیں اقبال کو پڑھنے اور اسے سمجھنے کی توفیق عطافرمائے،اور ہمیں اقبال کی سوانح سے کیڑے نکالنے کے بجائے اپنے اندر جھانکنے کی توفیق دے آمین،وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*