تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
مسلمان قوم جوہندوستان میں تقریباًدوصدیوں سے غلامی در غلامی میں پلی بڑھی ہے،جب انگریزوں سے آزادیِ ہند کا نقارہ بجا تو چنداہل دل کی نظر اس طرف گئی کہ مسلمان کہیں ہندوستان کے اندرہی انگریزوں سے آزاد ہوئے،توخدانہ کرے سپین کی طرح ہندسے مٹا نہ دئیے جائیں، تو انہوں نے ایک علیحدہ اسلامی مملکت کے لیے سعی شروع کردی، اس تصور کواجاگر کرنے والے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ تھے، اورپھر امتِ مسلمہ میں اس کو پذیرائی علمائے اہلِ سنت اور پیران عظام کے ذریعے ہوئی، لیکن اس خار دارراستے کو ایک تنِ نحیف حضرتِ قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کرطے کیا، پاکستان کو وجود بخشا،اور اس جہاں سے رحلت فرماگئے، آپ کی رحلت کے حالات کسی زندہ قوم کے رہبر کی موت نہیں کہی جاسکتی۔کسی بھی زندہ قوم کے رہبرجہاں بھی اس دنیا سے گئے قوم نے جس وقار اور احترام سے ان کو نوازاوہ زمانے کی تاریخ میں موجود ہے ، لیکن بانیِ پاکستان جس کسمپرسی کی حالت میں اس جہاں سے گئے،وہ شاید کسی صحرا نشین پر بھی نہ گزری ہو،کیوں َ قوم نسل در نسل غلامی میں پلی بڑھی تھی اور غلامی جب فطرت میں رچ بس جاتی ہے تووہاں وفا نہیں رہتی،وہاں احسان مندی نہیں رہتی، جس سے ضروریاتِ زندگی دستیاب ہوں اسی کو سلام کرتے ہیں،قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے بعد یہ نیم آزاد قوم ایک بار پھر غلامی کے مکمل بندھن میں بندھ گئی،ملک عوامی حکمرانی کے تحت نہیں بلکہ ریاستی اداروں کی حکمرانی میں آگیا،اورادارے غلامی کے قوانین کے مطابق ایک آزاد قوم کو غلامی کی زندگی گذارنے پرمجبور کرنے لگے،چندسالوں بعد باضابطہ ملک مارشل لا کی لپیٹ میں آگیا،غلام عوام جو نسل در نسل غلامی میں پلی بڑھی تھی انہوں نے آزادی سے یہ مطلب لیا کہ ہم ایک علیحدہ مذہب تھے لہذاایک مذہب کو ایک ملک مل گیا ہے،وہ اس میں اپنی عبادات ورسومات بے خوف ادا کرسکتے ہیں،لیکن اسلامی قوانین واسلامی انسانی آزادی تو وہ ایک دوصدیوں سے ہی نہیں جانتے تھے،ادھر ملک پر مسلط ریاستی ادارے،جن کے سارے ملازمین تقریباً اسی قوم کے افراد تھے، انہوں نے غلامی کے قوانین کے تحت خود کو ملک کی اعلیٰ مخلوق اور اپنے ہی باپ بھائیوں کو اسفل اور شودر سمجھنا شروع کردیا،یہ بھی غلامی کے خمیر کی وجہ ہے ورنہ ہر جانوراپنے جیسوں سے باہم گھل مل کرہی رہنا پسند کرتا ہے۔تمام قدرتی وسائل اور انسانی محاسن اس ملک اورقوم میں وافر مقدار میں پائے جانے کے باوجود یہ ملک ستر سالوں سے غلامی کے زمانے سے بھی بدتر حالات سے گزررہا ہے، کیوں؟ اس لیے کہ غلامی جب کسی میں رچ بس جاتی ہے تو پھر غلام، خود سے زندہ بھی نہیں رہ سکتا،وہ اپنے زندہ رہنے کے لیے بھی کسی کی غلامی کا محتاج ہوجاتا ہے، اورخدا نخواستہ اسے کوئی آقا نہ ملے تو وہ پتھر کے بت بنالیتا ہے، اور اس کی پوجاکرکے اپنا مالک یا آقا سمجھ کر اپنے سرکا سائیہ بنا لیتا ہے، انبیاء علیہم السلام سارے اسی غلامی کی مرض سے لوگوں کی جان چھڑانے آتے رہے، کہ اللہ کو اپنی پیاری مخلوق انسان کی اپنے سوا کسی کی غلامی پسند نہیں،اوراللہ تعالیٰ نے اپنے سواکسی کی غلامی کو شرک فرمایا ہے،اور فرمایا ہے کہ وہ ہر گنا ہ کو معاف فرمادے گا سوائے شرک کے،یعنی شرک غلامی ہے، اورتوحیدوحدتِ انسانیت حقوق اور عدل وانصاف کے ساتھ ہے۔لہذااسلام کے پیروکار نہ کسی کے غلام بنتے ہیں، نہ کسی کو غلام بناتے ہیں،میرے نبی ﷺ نے اپنے غلاموں کو اپنے صحابہ فرمایا،اور صحابہ نے اپنے غلاموں کو اپنے بھائی کہا۔نبی پاک سے لے کر صحابہ تک کسی نے اقتدار واختیار کوبڑائی اورعزت نہیں بنایا، بلکہ اختیارواقتدار کو خدمت اور جواب دہی و ذمہ داری سمجھا، لیکن اسلام کے نام پر علیحدہ ملک لینے والوں کی نس نس میں غلامی اس طرح سمائی ہوئی تھی کہ وہ اپنوں پر حکمران بن بیٹھے، لیکن غیروں کی غلامی کا جوا ایسا ڈالا کہ اپنے عوام تو درکنار اپنے محسنوں تک کو غیروں کی خوشامد کی خاطر ذلیل وخوار کیا،قائدِ اعظم،محترمہ فاطمہ جناح سے کیا کیا۔ اورپھرتمام تحریکِ پاکستان کے لیڈران کو ملکی سیاست سے علیحدہ کرنا،اورپھر ان قائدین کی ہتک کرنا، پھرملک میں عوامی حکمرانی کے نام پر پتلی تماشے کرنا، کہ کہتے ہیں ابتدائی سالوں میں اتنے وزرائے اعظم تبدیل ہوے کہ ایک بندہ کوئی انٹرویو دے رہا تھا، تو کسی نے سوال پوچھا کہ پاکستان کا وزیرِ اعظم کون ہے تو اس نے کہا جب میں اندر داخل ہواتھا تو فیروز خان ن تھے اب پتا نہیں کون ہے،لیکن مشیت ِالٰہی سے ملک چلتا رہا، پھر ٹوٹ گیا، باقی ماندہ میں ایک شاطر اور ملازمین کی پسندیدہ قیادت اٹھائی گئی، غلامی اس وقت پھرسے عروج پر تھی کہ ملازموں نے اپنے آقا کا انتخاب کیا، اورخود اس کے حکم کے تحت نہتے عوام کو غلام بنانے میں لگ گئے، اس قیادت نے اپنے آزادانہ شعور سے سوچا کہ جب تک ایٹم بم نہ بنے گا تو ہم دنیا کا مقابلہ نہ کرسکیں گے، اس نے لیبارٹری کی بنیاد رکھ دی، پھر قدرت کو جو منظور تھا ہوگیا،وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے،۔لیکن ایٹم بم بنتا رہا، البتہ بننے کے بعد کئی سالوں تک محفوظ ہی رہا، بالاخر پھر ایک عوامی قیادت آئی تو انڈیا نے ایٹمی دھماکے کردئیے۔پاکستان میں غلامی کے خمیر سے گوندھے دانشور، ریاست کو اس بات کی دھائیاں دینے لگے کہ دنیاا یٹم سے تباہ ہوجائے گی اورہم تنہاہوجائیں گے۔ لہذا بڑی طاقتیں خود ہی ایٹم بم ختم کررہی ہیں،تو پاکستان اپنی عوام کو بھوکا مار کر ایسا ہر گز نہ کرے،بقول ڈاکٹر قدیر خان مرحوم چار آدمی تھے جو اس حق میں تھے کہ انڈیا کے جواب میں دھماکے کئیے جائیں،ان میں ڈاکٹر صاحب،وزیرِ اعظم اوردو آدمی اور تھے، تو سیاسی قیادت نے دھماکے کردئیے، پھر جو اس کے ساتھ ہوا وہ بھی تاریخ کاحصہ ہے، پھر وہ وقت بھی آگیا کہ پاکستان کی حکومت نے اپنے محسن وبانیِِ ایٹم بم کو مجرم بنا کر قوم کے سامنے ان سے معافی منگوائی، اورپھر انہیں نظربند کردیا گیا۔ کہ آقاوں کی آنکھوں میں وہ کانٹا تھے، پھروہ محسن کئی سال تک مسلسل نظربندی میں رہے، اورپھر نیم آزادانہ زندگی ملک کے اندر تک رہ کر بالاخردس اکتوبر دوہزار اکیس کو اپنے اللہ کے حضور پیش ہوگئے، ساغر صدیقی نے کہا تھا، ”زندگی کاٹی ہے جبرِ مسلسل کی طرح، پائی ہے کس جرم کی سزایاد نہیں“۔اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کو جنہوں نے اس ملک اورقوم کے لیے اپنے تن من دھن کو قربان کردیا، اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین۔البتہ بقولِ کسے ”بے وفاؤں سے وفا نہ مانگئیے“ کہ وفادار وہ ہوتا ہے جو آزاد ہوتا ہے، ۔وماعلی الاالبلاغ۔