تحریر : اُم حبیبہ
ذہن میں ایک لہر دوڑتی دوڑتی کتنی دُور پہنچ جاتی ہے کہ معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں سے ہم نے شروعات کی تھی اور کہاں ہم اس سوچ کا اختتام کر رہے ہیں۔خیر! سوچ کے خیال سے مجھے بیٹھے بیٹھے یوسف بشیر قریشی کی چھوٹی سی شاعری یاد آگئی کہ
ایک سوچ عقل سے پھسل گئی
مجھے یاد تھی کہ بدل گئی
میری سوچ تھی کہ وہ خواب تھا
میری زندگی کا وہ حساب تھا
میری جستجو کے وہ برعکس تھی
میری مشکلوں کا وہ عکس تھی
مجھے یاد ہو تو وہ سوچ تھی
جو نہ یاد ہو تو گماں تھا وہ
مجھے بیٹھے بیٹھے گماں ہوا
گماں نہیں تھا وہ خدا تھا وہ
میری سوچ نہیں تھی خدا تھا وہ
وہ خدا کہ جس نے زباں دی
مجھے دل دیا،مجھے جان دی
بند کمرہ، خالی ذہن، نم آنکھیں، اذیت ناک یادیں، وابستہ امیدیں۔
ہم اس دنیا میں رہتے نہیں ہیں بلکہ یہاں سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ تو کیا یہ مناسب نہیں کہ جہاں سے گزر رہے ہیں اور حقیقی منزل کی جانب بڑھتے ہوئے، قدم قدم پر ساتھ دینے والوں اور پیچھا چھڑوانے والوں سے شائستہ انداز میں گفتگو کرکے، کچھ باتیں بھول بھلیاں میں ڈال کر، کچھ غلطیوں کو نظر انداز کر کے گزر جائیں۔
کیا یہ اشد ضروری کہ اسکے جذبات و احساسات، برداشت کو دیکھ کر ، اسکے صبر کا پیمانہ لبریز کرکے ہی ہم سکون کا سانس لیں۔ذندگی کی مصروفیات سے بالاتر ہوکر فیملی گیدرنگ میں جب بیٹھک ہوتی ہے تو کافی موضوعات پر بحث ہوتی ہے۔ جن میں سیاسی، معاشی، گھریلو، مذہبی موضوعات پر بات چیت شروع ہوجاتی ہے۔
اور کبھی کبھار تو پچھلی یادیں تازہ کی جاتی ہیں ۔ انہی یادوں میں، والد صاحب کو اپنے پرانے جوانی کےدوست یاد آگئے ، اور ان کے ساتھ گزارے ہوئے کچھ لمحات و واقعات پر تبصرہ ہونے لگا۔والد صاحب نے یاد تازہ اور حال احوال پوچھنے کیلئے دور جدید کا موبائل فون اٹھایا اور کال ملائ، ملانے پر انکی زوجہ نے کال اٹینڈ کی ، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ رات کو صیحح سلامت سوئے ہوئے، صبح کو بیدار نہیں ہوئے،اور اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ سن کر یک دم جھٹکا لگا۔اور سب گہری سوچ میں پڑ گئے۔ اور انکے ساتھ گزارے ہوئے لمحات اور یادوں پر تبصرہ شروع ہوگیا۔
دن میں کافی لوگ اس جہان فانی سے کوچ کرتے ہیں۔لیکن ہمیں افسوس انکا بہت زیادہ ہوتا ہے جو یا تو ہمارے بہت رقیب ہوتے ہیں یا ملک و قوم کیلیے اہم ہوتے ہیں۔ اک سوچ یہاں بھی جاتی ہے کہ ملک و قوم کے اہم لوگوں کی بھی کیا ذندگی ہوتی ہے۔ ملک کیلیے اپنی ذندگی کو وقف کرکے بقایا ذندگی حفاظت کے نام پر قیدی نما ذندگی گزار دیتے ہیں ۔ میرے موبائل فون پر اچانک نوٹی فیکیشن آیا۔ کھولنے پر معلوم ہوا کہ ڈاکٹرعبد القدیر خان انتقال فرما گئے ہیں۔ پڑھ کر فوراً ٹیلی ویثرن آن کیا خبریں لگائیں اور ہر چینل پر ڈاکٹر عبد القدیر خان کی تعریفیں کے پل بندھے ہوئے تھے ۔
سوچ کر تھوڑا سا دھچکا لگا کہ جب وہ حیات تھے تو انہیں یہ احساس کیوں نہیں دلایا کہ آپ ہمارے لیے بہت خاص ہیں۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کو یہ تو معلوم ہوگا کہ میں ملک کیلئے بہت خاص ہوں لیکن اتنا معلوم ہونے میں کافی سال لگے ہوں گے کہ کہ اتنا خاص ہوں کہ یہ ملک مجھے اپنا بنا کر نظر بند کرکے رکھتا ہے۔اس دور حاضرہ میں ہمیں یہ قبول کرنے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جس جہان میں آپ سانسیں لے رہے ہیں اور اس میں ہمارے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ کیا یہ نہیں ممکن کہ کچھ تعریفیں انکی حیات کے وقت کی جائیں، انکے روبرو ہوکر ،ہم کلام ہوکر کی جائیں تو کتنا اچھا احساس ہوتا ہے کہ اس گزرتے ہؤے جہان میں کوئ اپنا بھی ہے جسے ہم چھوڑ کر جائیں گے تو وہ افسردہ تو ہوگا، جب ہم دور جا چکے ہوتے ہیں یا اس جہان سے کوچ ہوجاتے ہیں تو بعد میں تعریفوں کے پل کیوں باندھے جاتے ہیں؟ ۔کہا جاتا ہے کہ انسان کے گزر جانے کے بعد اسے اچھے الفاظوں میں یاد کرنا چاہیے ۔میرا سوال یہ ہے کہ صرف انسان کے جانے بعد ہی یہ سب کیا جانا چاہیے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ اسکی حیات میں اسے احساس دلایا جائے ۔ اسکی تعریف کی جائے۔ کیا تعریفوں کے حصول کیلیے انسان کا مرجانا، یا کہیں دور چلے جانا ہی ضروری ہے؟ اس قوم سے یہ سوال میرا پیدا ہی رہے گا ۔اور شاید یہ روایت برقرار رہے گی ۔اور جب تک یہ احساس اس سوئ ہوئ قوم میں جنم لے گا تب تک ہمارا اس جہان فانی سے کوچ کرنے کا وقت آجاے گا۔