آنکھ سے چھلکاآنسو اورجا ٹپکا شراب میں : قاری محمدعبدالرحیم

یاوسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

تکبیر اللہ کی بڑائی بیان کرنے کو کہتے ہیں، اوربیان سے مراد الفاظ بولنا ہی نہیں، بلکہ اللہ کی بڑائی کا اقرار کرنااور اقرار کرانا، تکبیرکہلاتا ہے، آج ہمارے ملک میں نعرہ ِ تکبیر جب لگایا جاتا ہے تو سننے والے ہزاروں لوگ باآوازِ بلند ”اللہ اکبر“ کہتے ہیں،۔ لیکن عجیب عالمِ ایمان ہے کہ ہم اللہ اکبر کو ثواب کے لیے کہتے ہیں،عمل کے لیے نہیں،ہم اسے تسبیح ومناجات سمجھ کر پڑھتے ہیں۔ جبکہ اس اظہار کا مقصد تمام افعال واحکام میں اللہ کی بڑائی کا ماننا ہوتا ہے، آج پورا عالمِ اسلام اللہ اکبر اللہ اکبر کہہ رہا ہے لیکن سارے کا سارا اس کے برعکس احکام اور اعمال میں غیر اللہ کے تابع ہے، ہم اپنے جینے مرنے اوررہنے سہنے کے لیے غیراللہ کے محتاج ہیں، ہمارے تمام لوگ اللہ اوراللہ کے رسول ﷺ سے اس قدر پیار کرتے ہیں کہ ہم اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کی توہین کرنے والوں کی جان لے لیتے ہیں،یا ان کو ماردیتے ہیں یا خود مر جاتے ہیں۔ اوریہی اللہ اور اللہ کے رسول ﷺکا ہم پر حق بھی ہے، کہ ہم ان کی شان میں کسی گستاخی کو برداشت نہ کریں۔لیکن کیا ہم جب ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کے خلاف خود کرتے ہیں یا ہوتا دیکھتے ہیں تو کیا ہمیں یہ نہیں علم کہ یہ بھی اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی گستاخی ہے،کہ کوئی ان کے احکامات کے بر خلاف ہمارے سامنے چلے بلکہ وہ ہمیں بھی اس پر چلائے۔اورہم اس کو دنیاوی ضرورت کہیں، ہم اللہ اوراللہ کے رسول ﷺ کے واضح احکامات کے بر عکس کافروں اور دنیا پرستوں کے احکام اورقوانین کو برضاورغبت تسلیم کریں۔ اللہ اوراللہ کے رسولﷺ کے احکامات وقوانین کے برعکس قوانین بنائیں، اور پھر انہیں قوانین مان کران کے اوپر عمل کریں۔جیسے آج کی دنیا میں معاشی اور معاشرتی قوانین جو اللہ اوراللہ کے رسول ﷺ کے پسندیدہ دین اسلام کے برعکس ہیں، اورہم انہیں برضا ورغبت قبول ہی نہیں کرتے بلکہ ان کو زمانے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔عالمی مالیاتی سودی نظام، جو ہمارے محراب ومسجد تک پھیلا ہوا ہے، ہم اس میں اتنے غرق ہوچکے ہیں،کہ ہمارااس کے بغیر کوئی کاروبار ہی نہیں چل رہا۔ہم مقابر ومساجد تک کو سودی کرچکے ہیں،اب کوئی مسلمان جو صرف دیہاڑی دار ہے اور شام شام اپنی مزدوری لے کر نانِ شبینہ کھاتا ہے وہ شاید سودلینے دینے سے بچاہواہو، باقی جو بھی بندہ ہے، وہ کسی نہ کسی طرح سود میں ملوث ہے، لیکن ہمیں یہاں اللہ کی بڑائی یاد نہیں آتی،کہ اللہ تو فرماتا ہے،جو سود سے باز نہ آیا اللہ اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہے۔اگر صرف یہی سودی نظام ختم ہوجائے تو دنیا سے تقریباًغربت ختم ہوجاتی ہے، بے روزگاری تو پھررہے ہی نہ، لیکن اس کے ختم ہونے سے شیطان اور اس کے چیلے بھوک سے مرجائیں جس بات کاشیطان نے ان کو ڈر دیا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ قران میں فرماتے ہیں کہ”وہ تمہییں محتاجی سے ڈراتاہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے“لہذاساری دنیا بے حیائی کے ساتھ سود پر ڈٹی ہوئی ہے۔معاش کے بعد معاشرت کا معاملہ ہے اسلامی ممالک چند روایات کے علاوہ معاشرت ساری کی ساری مغرب کی اپنائے ہوے ہیں،اسلام نے عورت کو کھلے عام مردوں سے اختلاط سے منع فرمایا ہے، لیکن ہم بین الاقوامی احکام کے تحت مخلوط نظامِ تعلیم وملازمت کو اپنانے کے پابند ہیں، اللہ اکبرکیا ہم اللہ سے زیادہ انسانوں کو عقلمند اور صلاح کار سمجھتے ہیں،کہ ہم نے بحکمِ عالمی اپنے دین کے خلاف عورت بے چاری کومردوں کے شانہ بشانہ مشغولِ کار کردیا ہے،پاکستان میں پولیس،ا ور فوج تک میں عورت مخلوط ملازم ہے۔ کیونکہ ہمیہں دنیا کے ساتھ چلنا ہے، لیکن باوجود اس کے ہم اللہ اکبر کے نعرے ہر پاک وناپاک مجلس میں لگاتے ہیں۔پھر اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے اولاد کا ماں باپ پرایک حق یہ بھی رکھا ہے کہ وہ انہیں اچھی تہذیب وتربیت کریں،لیکن ہم نے قانون پاس کرلیے کہ کوئی والدین اپنے بچوں کی پرائیویٹ زندگی میں دخل نہیں دے سکتا، اگر کوئی بچوں کو ان کے غلط رویوں پرروکے ٹوکے گا تو اسے سزاوجرمانہ کیا جائے گا، اس کے علاوہ تعلیم وتربیت کے لیے اللہ ا ور اللہ کے رسولﷺ نے اپنی ہدایات وتعلیم عطاکی ہیں، جن کے برعکس ہم نے نظامِ تعلیم اسلامی کے بجائے عالمی کو اپنایا ہوا ہے، اورپھر اس میں بھی قومی کے بجائے،بین الاقوامی نصاب میں ڈھالا ہو اہے، لیکن ہم اللہ اکبر اللہ اکبر نعرے یا تسبیحات میں کہتے رہتے ہیں۔ہم نے انسان کی اشد ضرورت علاج کو تو جیسے دین کا حصہ ہی نہیں سمجھا ہو ا، بلکہ یہ کوئی انسان کا دین کے باہر کامعاملہ جان کر اسے تو ہم نے سارے کا ساراکفار کے حوالے ہی کردیا ہوا ہے، جیسے آج ہمارے سامنے پوری دنیا ایک ہی نظامِ علاج میں پھنس چکی ہے۔ کفارنے علاج کو ایک حیلہ بنا کر پوری دنیا بالخصوص اسلامی دنیا کو اس کورانائی دور میں جو ذلیل کیا ہے،اللہ تیری دہائی،اسلامی عبادات پر قدغن، اسلامی شعائرکو بند،حتی کہ مقدس ترین جگہ خانہ کعبہ کو بندکردیا۔ کیا ہم اللہ کو بڑا مانتے ہیں؟اورکیا کوئی مخلوق جنوں اور انسانوں کے علاوہ خانہ خدامیں کسی کو نقصان پہنچاسکتی ہے؟ حاشاوکلا نہیں، دیکھیں چیتا ہرن کے پیچھے لگاو!حدودِ حرم میں جا کر وہ اس پر حملہ نہیں کرے گا، حالانکہ وہ اس کارزق ہے۔بازتیتر پر نہیں جھپٹتا، حدودِ حرم کے اندر جاکر دیکھ لو۔ تو کیا کوئی وائرس انسانوں پروہاں پر جھپٹ سکتا ہے۔جبکہ اللہ نے تو میرے نبی ﷺ سے فرمادیا کہ اللہ ایسا نہیں کہ ان (اہلِ مکہ)پر عذاب نازل کرے اور آپ ان میں موجود ہیں، دنیا کا سب سے بڑا فتنہ دجال پوری زمین میں سے جن دوشہروں میں داخل نہیں ہوسکے گا،وہ یہ مکہ اور مدینہ ہیں، لیکن دجال کے پجاریوں نے آج ان دونوں کے نہایت مقدس مقامات کو بند کردیا ۔ان جھوٹے اللہ کی بڑائی کو بیان کرنے والوں نے بت پرستوں جتنا بھی اپنے اللہ کی بڑائی کو عملاًنہ مانا۔دورانِ کورونا بت کدے توکھل گئے،اور میرے اللہ کے گھر بندہوگئے،تکبیرِ مسلسل تو یہ تھی کہ اللہ کے قوانین کے خلاف جو بھی آئے بیماری ہوبلا ہواسے اللہ کی بڑائی سے دفع کیا جائے، اسی لیے میرے نبی ﷺ نے ایک صحابی کے بھائی کوپیٹ کی تکلیف میں شہدپینے کا حکم دیا، ایک بار فائدہ نہ ہوا،دوسری باراور تیسری بار فرمایاجاو اسے شہد پلاو، تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے اور میرے اللہ کا فرمان سچاہے، کہ شہد میں شفا ہے۔اللہ اکبر یہ اللہ کی بڑائی کا اعلان ہے،میں نے ایک بہت ہی بڑے عالمِ دین سے عرض کیا کہ شہد استعمال کیا کریں، فرمانے لگے مجھے شوگر ہے ڈاکٹر نے منع کیا ہوا ہے۔علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اسی لیے اپنے ایک قطعہ میں یہ کہا ہے،”اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے۔ شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں مری بات۔یاوسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل۔یا خاک کی آغوش میں، تسبیح ومناجات۔وہ مذہبِ مردانِ خودآگاہ وخدا مست۔یہ مذہبِ ملا وجمادات ونباتات۔وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*