تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
ظلم عربی کا لفظ ہے جس کے لغوی معنیٰ ہوتے ہیں،کسی چیز کو کسی غیرمحل میں رکھنا، یعنی ایسی جگہ رکھنا جو اس کے لیے نہیں ہے، لہذاہر وہ کام جو اپنے مقام ومحل کے خلاف ہو ظلم کہلاتا ہے، اگر اس معنیٰ اور مطلب کو سامنے رکھا جائے تو دنیا آج ساری کی ساری ظلم میں ڈوبی ہوئی ہے، چاہے وہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم۔انساان خود اپنے آپ پرجو ظلم کررہاہے، اسی پر غور کی جائے تو دنیامیں باقی ظلم بھول جاتے ہیں، اللہ نے انسان کو احسن التقویم بنایا،انسان کو اپنی صورت پر بنایا،انسان کی تخلیق جنت میں کی،انسان کو پیداکرنے سے پہلے اسے زمین میں اپنا خلیفہ بنانے کا اعلان کیا، پھر تخلیق کے بعد فرشتوں کو اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا، اورپھر جنت سے زمین پر اسے شیطان کی مزلت کے ذریعے بھیجا، اورپھر انسان اول جو ایک خطا کا خمیازہ بھگتنے زمین پر آیا تو زمین میں اللہ کا خلیفہ بنا، مگر انسانِ اول نے اپنی خلافت سے پہلے مزلت کے ظلم کو اوروہ یہ تھا کی حکمِ الٰہی کے بر خلاف شیطان کی تاویل کو مان لیا،اس سے توبہ کرکے یعنی خود کو اپنے محل میں پہنچا کر ختم کردیا۔اورانسان کا محل اللہ کی طرف رجوع اوراس کے حکم کی تعمیل ہے، اب خلافتِ الٰہیہ کابوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیا، علامہ اقبال نے اسی لیے کہا ہے ”قصوروار،غریب الدیار ہوں لیکن۔تراخرابہ فرشتے نہ کرسکے آباد۔مری جفاطلبی کودعائیں دیتاہے۔وہ دشتِ سادہ وہ تیراجہانِ بے بنیاد“ لیکن کیا اولادِ آدام آج ساری کی ساری سوائے چند کے اسی مزلتِ شیطانی کا شکار نہیں۔ آج ابلیس کے کئی روپ بن گئے ہیں کہ بقول علامہ اقبال خود ابلیس نے بارگاہِ قدس میں کہا کہ ”اب میری ضرورت نہیں تہہ ِ افلاک“دوسری جگہ علامہ کہتے ہیں ”بنایاایک ہی ابلیس آگ سے تونے۔بنائے خاک سے اس نے دوصدہزارابلیس“اب یہ دوصد ہزار ابلیس اس خرابہ جہاں کو تلپٹ کرنے میں لگے ہوئے ہیں، آج دنیا ظلم کے اندھیروں میں کہیں مچلی ہوئی ہے کہیں سہمی ہوئی ہے۔ اسی دور کو لے لیں،عالمی ابلیسوں نے ابلیسِ اول کی طرح انسانوں کو فطرت کے خلاف ایسا اکسایا ہے کہ انسان مصنوعی زندگی بنانے کے چکر میں آکر، اینٹی بائیو ٹک یعنی زندگی کے اینٹی چیزوں کے ہتھے چڑھ گیا یاہے،۔ایک صدی سے تقریباً انسان نے زندگی کے خلاف جراثیم کو تحقیق کرلیا، اب جراثیم کے خلاف جنگ میں اینٹی بائیوٹک ادویات ایجاد ہونا شروع ہوئیں، قدرت کا ایک نظام ہے کہ آپ جس چیز کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں وہ چیز مکمل مٹ نہیں سکتی بلکہ بعض اشیاء مٹانے سے بڑھتی ہیں، اور جراثیم بھی انہیں میں سے ہیں، جہاں تک انسان نے ان کو مٹایا جس بیماری کو روکا وہ بیماری پھر اس طرح ابھری کہ انسان اس کا عادی ہوگیا،۔ اسی لیے اکثر امراض والے لوگ فخر سے بتاتے ہیں کہ مجھے شوگر ہے اس لیے مجھے شوگر فری چائے دیں وغیرہ، بلکہ پاکستان میں تو یہ ٹرینڈ اتنا چلا کہ اب لوگ شوگر خریدنے کے قابل ہی نہیں رہے، یہ وہ ظلم ہے جو انسان نے جراثیم کے ساتھ کیا تو ظلم مٹ گیا اور جراثیم بڑھ گئے، کیوں کہ جراثیم اللہ کی مخلوق ہے اور اللہ نے فطری طور پر اسے انسانی بھلے کے لیے بنایا ہوگا،اگر کہیں انسانی فطرت خود گمراہی میں چلی جائے تو جتنے اس کے ساتھ فطری اجسام ہیں وہ بھی گمراہ ہوجائیں گئے، تو پھر انہوں نے انسان کی گمراہی سے فائدہ تو اٹھانا ہی ہے نا۔اسی لیے انبیاء نے انسانی فطرت کو درست رکھنے کے لیے فطری قوانین کو انسانوں تک پہنچایا ہے، اورہردور میں بھٹکی ہوئی فطرت کو سیدھی راہ پر لگایا۔فطری صحت کے قوانین میں اسلامی عبادات، اورخوراک کا حلال وپاک حکمی اور جسمی ہونا۔ بصورتِ مرض علاج فطری اور طبع کے مطابق ہونا، یہ تمام آسمانی ہدایا ت میں شامل ہے کسی بھی جگہ فطرت سے جنگ کرنے کے لیے اینٹی بائیوٹک کے استعمال کا حکم نہیں، کیونکہ اینٹی بائیو ٹک صرف اجسامِ ضرارہ ہی کے اینٹی نہیں بلکہ وہ اجسامِ مفیدہ کے بھی اینٹی ہیں، لیکن شیطانی تحقیق وتجسس اس پرمطمئن نہیں رہ سکتا تھا لہذاایک صدی سے انسانوں کو اس بات پر قائم کیا گیا کہ جدید سائنس جراثیم ووائرس کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئی ہے لہذااس کے ذریعے علاج ہی اصل علاج ہے، پھر عالمی شیطانی قوتوں نے اس مفروضے کو انسانوں میں یقین بنانے کے لیے، اربوں ڈالر جو انسانوں سے دھوکا کرکے اکٹھے کیے ان کے ذریعے انسانوں میں مفت اپنی ادویات لگائیں اور پھر انہیں اس ظلم کا عادی بنا لیا کہ آج ہر بندہ اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کو ختم کرنے والی ادویات اپنی زندگی بچانے کے زعم میں کھارہا ہے، بالاخر یہ کورونا کا زمانہ آگیا شیطانی قوتوں نے پوری دنیا میں اسے پھیلانے کے لیے اربوں ڈالر مفت بانٹے،اورحکومتوں کے زریعے انسانوں پر اس کو مسلط کیا کہ جہاں کورونا اڑ کر نہیں جاسکتا تھا وہاں دست بدست پہچایا۔دنیا میں پہلی وبا ہے جو موسم،ماحول، علاقے اور بیماروں کے بغیر سب لوگوں تک پہنچ گئی، کیوں؟ اس لیے کہ یہ ایک ظلم تھا،جو آناًفاناً پھیلایا گیا، پھر واقعتاًلوگ اس میں مبتلا ہونے لگے،بڑے بڑے جدید سائنس کے حامل ممالک جیسے یورپ وغیرہ کے ان میں اموات بے قابو ہونے لگیں،ڈ اکٹروں کو پہلے توکہا گیا تھا کہ تم نے ہماراحکم آنے تک اس کا علاج نہیں کرنا، پھر ویکسین کی صورت میں حکم آبھی گیا۔ لیکن کورونا ویکسین لگانے سے بڑھنے لگا،اب خود ڈاکٹر ہی اس کا شکار ہونے لگے، لیکن ایک نفسیاتی خوف جو دلوں میں بیٹھ چکا تھا کہ اس کا علاج کوئی نہیں، اس کی بنا پر ڈاکٹر بھی علاج سے جان بر نہیں ہوپا رہے، اب لوگ کہتے ہیں توبہ کرو دعائیں کرو، وغیرہ لیکن توبہ وہ کررہے ہیں جنہوں نے یہ ظلم کیا نہیں،بلکہ زبردستی ان پر لاگوکیا گیا ہے، حالانکہ ان کی توبہ یہ ہے کہ وہ ظالموں کانکاراوران کے خلاف جہاد کریں،اور جنہوں نے یہ ظلم کیا ہے وہ شیطان کی طرح تاویل کررہے ہیں کہ ہم نے انسانوں کے بھلے کے لیے کیا ہے۔اورجب وہ اپنی ضد پرقائم ہیں تو طوقِ لعنت ان کے گلے میں پڑا رہے گا،اورجو لوگ ان کی خیرخواہی کو تسلیم کرتے رہیں گے وہ بھی اس لعنت میں مبتلا ہی رہیں گے، ایسے تمام لوگ جو کورونائی احتیاطوں اور ڈاکٹروں کے ساتھ منسلک ہیں وہ سب احتیاطوں اور ڈاکٹروں کی پوری توجہ کے باوجود کورونامیں مبتلا ہورہے ہیں اور جو بے چارے ظالموں کے ڈر سے ماسک پہنتے، ایک دوسرے سے لوگوں کے سامنے بچتے، اور دوائی ڈاکٹر کی نہیں لے رہے، وہ تقریباًتا حال اس مرض سے محفوظ ہیں،البتہ ایسے جن لوگوں کو زبردستی ویکسین لگائی جارہی ہے، اس سے کچھ لوگ کورونا،یا اس ویکسین کے سائیڈ افیکٹس کی زد میں آرہے ہیں، جیسے اکثر لوگوں کو میعادی بخار جھپٹ رہاہے، یا کچھ کو عمومی بخار ہوگیا، وغیرہ لیکن یہ سب فطرت کے خلاف ظلم کرنے کی وجہ سے ہے جب تک ظلم رہے گا فطرت بھی آپ کو امن سے نہیں رہنے دے گی، کیونکہ ظلم رہے اور امن بھی ہو یہ نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ظلم سے بازرہنے کی توفیق دے اور انہیں فطرت کے مطابق زندگی گزارنے کی راہ سجھائے۔ آمین وما علی الاالبلاغ۔