گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

جگرمرادآبادی کی غزل کا مطلع ہے ”، جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے،گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے،“ شاعر کس زمانے کا ہو، کیسا ہو، دنیا میں اس کاکوئی مقام ہو یا نہ ہو، وہ آنے والی نسلوں کا مشاہدہ اپنے افکار کے آئینے میں کر لیتا ہے، اسی لیے کسی کا مقولہ ہے کہ ”الشعراء تلمیذ الرحمن“ شعراء رحمن کے شاگرد ہیں، آج کی دنیا بالخصوص اسلامی دنیا جو قانون و احکام جن کے نام پر وہ اسلامی دنیا کہلاتی ہے، اصل انسانوں کی دنیا ہونے کے باوجود، آج پوری دنیا میں انسانوں کے حوالے سے کم ترین انسانوں میں شامل ہوچکی ہے، لیکن سائے کے لحاظ سے ان کے سائے بہت بڑے بڑے ہیں، اہل عرب کو چھوڑیں صرف پاکستان ہی کو لے لیں، مذہب کے حوالے سے کتنے بڑے بڑے سائے ہیں، سیاست میں بڑے بڑے بت ہیں، روحانیت میں کیا کیا رنگ ہے، تقریر وکلام ان کا خاصہ ہے، تبحرِ علمی کہ زمانہ معترف ہے، روحانیت کے مینار کے آسمان کو چھورہے ہیں، لوگ قبروں اورقدموں کو چھونے کوسعادت سمجھتے ہیں، ملک کوحاصل کرنے کے لیے، اسلام کو استعمال بھی انہیں بلند شعور لوگوں نے ہی کیا، اورسادہ لوح مسلمان اپنا سب کچھ نچھاور کرکے پاکستان بنانے میں کامیاب ہوگئے، پاکستان بن گیا اورسائے چھٹ گئے، چونکہ سائیہ کا وجود کسی روشنی کے دمِ قدم کا مرہون ہوتا ہے، اورروشنی کسی غیبی یا ظاہری طاقت کے مرہون ہے، اور غیبی تو ایمانِ بالغیب سے مشروط ہے، اور ظاہری اسبابِ ب ِ دنیا کے مرہون ہے جواُن کے پاس تھے، جو اِن کو چھوڑ کر چلے گئے، اب تمام مذہبی وروحانی کاروان، اپنی اپنی منزلوں میں رک گئے، بقول کسے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن، ملک لیاتو تھا کہ اس میں اسلام کی حکمرانی ہوگی لیکن ہوایہ کہ اسلام کے بجائے مسلمان حکمران بن گئے، اور نظام سارے کا سارا انگریزوں اور ہندووں کاہی رہ گیا، اب قوم کے اندر ایک انتشار ابھراکہ اگر نظام یہی رہنا تھا تو ہم کیوں خوار ہوے؟لیکن اگر نظام بدلتا ہے تو ان سائیوں کو اسلام کے سائے میں آنا پڑتا ہے، جو ان کی نسلوں کے لیے مشکل ہے، جیسے علماء کرام اسلام کے کلی طور پر مالک سمجھے جاتے ہیں، وہ جس پر جو چاہیں حکم لگادیں، اوران کی سر پرستی پھر اسلام کاایک اور مقدس طبقہ جو پیرانِ عظام کہلاتا ہے، وہ کرتے ہیں، پیر صاحب تو من جانب اللہ جیسے عوام کے مالک ہیں، درباروں مزاروں اور جاگیروں کے مالک،کہ عوام کو مجالِ دم زدن نیست، روحانیات کے نام پر دنیاوی حاجات کے قبلہ،اورپھر ان کے تقدس کی اشاعت وتشہیر کے لیے اسلامی علماء خطیب و مقرر شعراء و منقبت خواں، اعراس ومحافل کی جان، سحرالبیان،قادرالکلام حاجت مندوں کی جلتی پرتیل کاکام کرنے والے، مخلوقِ خدا کو،خداکے نام پر ظلم کے سامنے سر نگوں رہنے کی تربیت کرنے والے، یہ سائیوں کے مینار پاکستانی قوم کو روشنی کے بجائے اندھیروں میں دھکیلنے میں لگے رہے، پاکستان ٹوٹ گیا پھر بھی کسی رہبرِ ملت کو یہ نہ سوجھا کہ یہ کس جرم کی سزاہے؟ اوراس کا کفارہ کیا ہے؟ عالمی شاطروں کے ہاتھ میں یہ شطرنج کے مہرے چلتے رہے، بساط بدلتی رہی لیکن کھیل وہی رہا، چوہتر سال ہوگئے، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، لیکن پاکستانی قوم زیادہ سے سے زیادہ ملک سے باہر جاتی رہی، علماء پیر، حکمران، سیاست دان،جج،جرنیل، اورہر علم وفکرکا مالک، بیرون ملک جانے کے علاوہ اور کوئی امنگ نہیں رکھتا، کیوں؟ اس لیے کہ یہ ملک جب اپنی کوئی پالیسی ہی نہیں رکھتا،اپنا کوئی نظام ہی نہیں رکھتا، صرف غلامی کے متشدد قوانین اور نظام کے علاوہ اس میں کیا ہے؟ اگر غلامی ہی کرنی ہے تو وہاں کریں ناجہاں قوانین تو غلامی کے نہیں،جہاں انسانوں کو انسان ہی سمجھا جاتا ہے چاہے وہ انسان نما حیوان ہی ہو، بلکہ وہاں انسان کی قدر بھی حیوان ہونے کی بنا پر ہی کی جاتی ہے، کہ جس طرح حیوان مادرپدر آزاد ہوتا ہے، وہاں انسان بھی ایسے ہی آزاد ہوتا ہے، اورآزادی ہی انسان چاہتا ہے،لیکن ہمارے یہاں حیوانی آزادی تو ہمیں مذہباً منع ہے اورانسانی آزادی ہم سے قانوناً چھین لی گئی ہے، چونکہ ہمارے اوپر قوانین غلامی کے نافذ ہیں،اوران کے نفاذ میں جہاں ہمارے نفس پرست دنیادار لوگوں کا ہاتھ ہے وہاں ہی ہمارے مذہبی طبقہ پیر وملا کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے،کہ وہ مسلمانوں کو دین کے نام پر اپنی دنیا کے لیے انتشار میں ڈالے ہوے ہیں، آج پوری دنیا میں اسلام کی کوئی حکومت بھی موجود نہیں،،اس لیے کہ مسلمانوں کے دل ودماغ میں یہ بٹھا دیا گیا ہے کہ اسلام موجودہ دنیا کے قوانین میں موجود ہے،لہذا دنیا کے قوانین کو ماننے سے اسلام کی سر بلندی ہوتی رہے گی، یہی وجہ ہے کہ دنیا نے ایک نیا نظام متعار ف کرادیا کہ دنیا کے قوانین کو منوانے کے لیے ایک عام مرض کو ایک نامعلوم مرض بنا کر حکم دیا کہ اب اس کے آگے سب سررنڈر ہوجاو، سب دنیا سررنڈر ہوگئی،لاکھوں جانیں بغیر علاج موت کے منہ مین ڈالی گئیں، اور پھر ایک نامعلوم ویکسین بنا کر لاکھوں جانوں کو امراض کے نرغے میں پھنسادیا، اب یہ عالمی طاقتیں اس بات پر متفق ہوگئی ہیں کہ دنیا کی قوموں او رملکوں کو طاقت سے فتح کرنے کے بجائے انہیں ان عالمی قوانین کے زبانی بندھنوں میں باندھ کر قابو کیا جاسکتا ہے، لہذاعالمی حکمران امریکہ نے افغانستان سے بھی اپنی افواج نکال لی ہیں،اورلوگ سائیوں کے پیچھے پڑگئے ہیں کچھ ورطہَ حیرت میں ڈوبے ہوے ہیں،کہ یہ کیسے ہوا، گوکہ افغان قوم بھی اپنی ہٹ پر قائم رہی تواس لیے آج ان کو جومنضبط نظام کوچلانے کے شاید ماہر نہیں انہیں ایک نظام پرقبضہ حاصل ہوگیا ہے، لیکن یہ جو دوتین ہفتوں سے ان میں خاموشی اور بیرونی معاونت، قومی حکومت، بین الاقوامی روابط وغیرہ کا معاملہ چل رہاہے یہ کوئی نیک شگون نہیں لگتا،اگر پاکستان کی آزادی کی طرح طالبان نے بھی صرف حکومت ہی کرنی ہے تو یہ افغانوں کے لیے بھی ایک پاکستانی قوم کی طرح کی مصیبت ہی بن جائے گی، یہودو نصاریٰ اب اس واپسی کی چال میں کوئی بڑاوارکرنے والے ہیں جوکروناٹائپ کسی نامعلوم مرض کاشایدہوجس سے وہ اپنے نکلنے کاسارافائدہ اٹھالیں گے، لہذااگر افغان طالبان اپنی جدوجہدکواسلامی آزادی کے لیے کررہے تھے توانہیں نظامِ اسلام کااعلان کردیناچاہے،جس اسلامی دنیاسے وہ توقعات رکھتے ہیں ان کے مسلمان ہونے پرتو کسی کو شک نہیں لیکن ان کا نظامِ اسلامی پریقین شاید اتنا ہی ہے، جتنا کہ وہ اپنے ملکوں میں اسے چلائے ہوے ہیں،لہذاخدارا اسلام کو داڑھی اور پگڑی والوں کا ہی دین نہ بنائیں، اور پوری دنیاکے مسلمان جو یہ سمجھے ہوے ہیں کہ اسلام صرف مولویوں کا دین ہے یہ عام مسلمانوں کا دین نہیں، یا پھردین سے مراد ان کو یہ سمجھائی گئی ہے کہ یہ صرف عقائد وعبادات کا نام ہے، یہ انفرادی اخلاقیات کا نام ہے، یہ صرف انفرادی روحانی ومعاشرتی رویوں کا نام ہے،اس میں نظامِ حکومت وقوانین نہیں ہیں، یہ بدلتی دنیاکے ساتھ چل نہیں سکتا، ان جیسے بے شمار دھندھلکوں سے مسلمانوں کو نکالنے کے لیے، امارتِ اسلامیہ افغانستان اپنے نظامِ شریعہ کا اعلان کرے، تاکہ دنیا میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ افغان قوم کے حصے میں آسکے،ورنہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ وہاں بھی اسلام انسانوں کے بجائے سائیوں میں دکھائی دے،اوربقول جگرمرادآبادی”جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے، گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے“اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنے دین کے سائے میں رکھے،آمین وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*