تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
ہرزمانے میں انسان کسی نہ کسی طرح سے اپنے حقوق کی جنگ لڑتا رہا ہے، کبھی انسان نے قبیلائی نظام کواپنے حقوق کا محافظ سمجھا،کبھی انسان نے علاقے اور زبان کو اپنے حقوق کا سہارا بنایا،حتیٰ کہ اللہ نے جو خالقِ کائنات وانسان ہے نے بھی اپنے انبیاء کو علاقوں اور قبیلوں تک ہی بھیجا، جیسے اللہ نے حضرتِ یونس علیہ السلام کو ایک بستی کے لیے بھیجا، انبیائے بنی اسرائیل کو صرف بنی اسرائیل کے لیے بھیجا، کہ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا کہ توان بنی اسرائیلیوں کو میرے ساتھ بھیج دے،دنیاوی طور پر بھی قبیلے اور علاقے اور زبان والے اپنے اپنے حقوق رکھتے تھے، لیکن اسلام جواللہ کی طرف سے آخری مکمل اور اللہ کا پسندیدہ دین ہے، اس نے آتے ہی سارے عالم کے انسانوں کو کہا میرے نبی اعلان فرمادو، کہ میں تم سب انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں، اب کوئی زبان، کوئی قبیلہ، کوئی علاقہ اس دین کی حدود سے جوتجاوز کرے گا،اس کے حقوق کا تحفظ نہیں کیاجائے گا، صلحِ حدیبیہ کے بعد کفارِ مکہ نے ایک کافرقبیلہ جومسلمانوں کا حلیف تھا، اس پر شبخون مارا تو میرے نبی ﷺ نے ان مظلوموں کے حقوق کا تحفظ کفارِ مکہ سے جنگ کرکے کیا، حتیٰ کہ مکہ فتح ہوگیا، حضرتِ عمر جب خلیفہ تھے توایک عیسائی بادشاہ نے مدینے میں آکر اسلام قبول کیا، حج یا عمرہ کے لیے مکہ حضرتِ عمر کے ساتھ گیا، دورانِ طواف اس کی شہانہ لٹکی ہوئی چادر جو زمین پر گھسٹ رہی تھی، اس پر ایک بدو کا پیر آگیا، بادشاہ نے پلٹ کر اسے تھپڑ رسید کردیا، وہ روتا ہوا حضرتِ عمر کے پاس گیا، آپ نے طواف روک کر اس نومسلم بادشاہ کو بلایا اور اسے کہا اس سے معافی مانگ یا پھر اس سے تھپڑ کھا، اس نے رات کی مہلت مانگی،اوررات کو فرار ہوکر واپس عیسائی ہوگیا، آج کے مسلمان ہوتے تو کہتے، نومسلم ہے،قران میں تالیفِ قلوب کا حکم ہے، علاوہ اس کے اس کے ساتھ ایک پوری قوم یا ریاست ہے جس سے اسلام کو تقویت ملے گی،چلوصدر اپنے اختیار سے اسے معاف کردیتے ہیں، چیف جسٹس سے فیصلہ کرالیتے ہیں، وہ نظریہ ِ ضرورت کے تحت اسے معاف کردیں گے،لیکن انسانی حقوق کا کیا بنتا،؟ جو آج دنیا میں کہیں بھی انسانوں کو حاصل نہیں، جس طرح آج دنیا میں مسلمان تو ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہوگئے ہیں لیکن اسلام کہیں بھی نہیں، ایسے ہی انسانی حقوق کی تنظیمیں، انسانی حقوق کے قوانین تو دنیا بھر میں کئی طرح کے پائے جاتے ہیں، لیکن انسانوں کو انسانی حقوق کہیں بھی حاصل نہیں، ساری دنیا میں تعلیم یافتہ لوگوں کے حقوق، ان پڑھ لوگوں کے حقوق، ملازموں کے حقوق، اداروں کے حقوق، انسان کے قدوکاٹھ سے لیکر رنگ ونسل تک، مال ودولت سے لے کر زمین وجائیداد تک،تعلیم وملازمت سے لے کر کاروبار وتجارت تک، ہر سوسائٹی کے حقوق ہیں، انسانوں کے معاشرے میں ہر شعبے کی اپنی تنظیم ہے جو انکے حقوق کے تحفظ کے لیے ہے، لیکن آج تک حقوق کسی کو بھی نہیں مل رہے، البتہ ناحق باتوں کو تسلیم کیا جاتا ہے، پاکستان تو وہ ایک عجوبہ ملک ہے جس میں انسانوں کے حقوق کی تو بات ہی نہیں کی جاتی، اگر کی جاتی ہے تو وہ بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعے اس قوم اور مذہب کے قوانین کے خلاف، یہاں لوگوں کے جن کے پاس اختیار،اقتدارہے یاجوملازمانِ سرکار ہیں،ان کے حقوق ہیں، جومال ودولت، کاروبارومعاش پر قابض ہیں ان کے حقوق ہیں، عام انسانوں کو صرف ایک حق حاصل ہے، وہ ہے ووٹ دینے کا، یا پھر دوسرا حق اس پرہے، وہ ملک کو بچانے کا، چاہے اس میں اس کا مال جائے یا اس کی جان جائے، البتہ یہ ملک بچانا عوام کا ذمہ ہے۔اسلام نے معاش اور معیشت جو انسان کااولین حق ہے، اسے یکساں رکھا، زمانہ خلافت میں مجاہدین جو مالِ غنیمت لاتے اسے دفاعی ضروریات کے علاوہ مجاہدین میں تقسیم کیا جاتا، اور ساتھ ہی عام مسلمانوں میں بھی تقسیم کیا جاتا، معاشی مساوات کے لیے خلیفہ اول نے جب ذمہ داریاں سمبھالیں توروزینہ یا تنخواہ کی بات ہوئی تو فرمایا، جتنی ایک مزدور کی روزانہ کی اجرت ہے اس کے مطابق رکھیں۔ ہمارے ملک کے نسل درنسل مسلمان اسلامی نظام سے کیوں ڈررہے ہیں کہ اس میں کسی عہدے،کسی مقام کے لیے کوئی علیحدہ حقوق نہیں، اس میں ایک مزدوراورایک خلیفہ وقت، ایک چیف جسٹس،ایک جنرل سب کو ایک انسان اور ایک انسان جیسی ضروریات کا حامل سمجھا جاتا ہے، یہاں تعلیم کی بنیاد پر عہدہ نہیں ملتا، یہاں عہدے کی بنیاد پر تنخواہ نہیں ملتی،اور نہ ہی عہدے کی بنا پرتکریم ملتی ہے،یہاں تو ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم کاقانون چلتا ہے، یہاں کسی کو خصوصی اختیار حاصل نہیں،یہاں خلیفہ سے ایک عام بندہ دوران خلافت ہی پوچھ سکتا ہے، کہ آپ نے بیت المال سے کپڑازیادہ لیا ہے، یہ نہیں کہ وزیرِ اعظم کو استنثنیٰ حاصل ہے، صدر سے کوئی جواب نہیں مانگ سکتا، حتیٰ کہ عدالت بھی طلب نہیں کرسکتی، ادارے کرپشن کودیکھ سکتے ہیں لیکن دورانِ حکومت پوچھ نہیں سکتے،یہ انسانی حقوق ہیں جو اس شیطانی دنیا نے گھڑ رکھے ہیں، اورجن کے لیے ہمارے جاہل لوگ دن رات انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سر بکف ہیں،۔اورجہاں انسانی حقوق ہیں اسے سے بھاگتے ہیں، اسلامی قوانین سخت ہیں، کس کے لیے؟ انسانوں کو اپنے قابومیں رکھنے والوں کے لیے، انسانوں کے معاش پر قبضہ کرنے والوں کے لیے،انسانوں کی عزتِ نفس مجروح کرنے والوں کے لیے، لہذااگر پوری دنیا کے انسان انسانی حقوق چاہتے ہیں تواسلامی قوانین کو مانیں، آج دنیا میں کورونائی قوانین کیا انسانی حقوق کے منافی نہیں؟لیکن جاہل انسان انہیں انسانوں کے بھلے کے لیے کہتے ہیں، جبکہ اسلام ایسے شدید دور میں بھی صرف انسانوں کو آگاہی دیتا ہے، انہیں اپنی آگاہی کے تحت پابند نہیں کرتا، نہ معاش وکاروبار کو بند کرتا ہے،نہ جرمانہ اور سزادیتا ہے، لہذااگر انسانی دنیا اپنے حقوق کے ساتھ جینا چاہتی ہتے تو اسے اسلامی انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہوگی ناکہ اس شیطانی دنیا کے گھڑے ہوے انسانی حقوق کے لیے جلسے جلوس کرے اور دھکے کھائے، اللہ تعالیٰ انسانوں کو اپنے عطا کردہ قوانین سے نوازے، بالخصوص اس امتِ مسلمہ کو ہدایت عطا فرمائے اوریہ اس زمانے میں انسانی حقوق کا وہ علم بلند کرے، جو اللہ نے اپنے قران میں اس کو دئیے ہیں، جس طرح افغان مسلمانوں نے اپنے مذہب کی سربلندی کے لیے ایک پوری نسل کو جہاد میں رکھ کر آج دنیا کو بتا دیا ہے کہ انسانی حقوق یہ ہیں جو ہم لوگوں کو دے رہے ہیں، ناکہ وہ جو مکار عالمی طاقتیں مال ودولت دے کر چند ہوس پرستوں کے ذریعے انسانی حقوق کا واویلا کرارہی ہیں، اللہ تعالیٰ اٖفغان قوم کو حق پر قائم رکھے اور ان کی مددونصرت فرمائے آمین،وماعلی الالبلاغ۔