تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
دل انسان کا وہ مرکز ہے، جہاں سے انسان عالمِ سفلی میں رہتے ہوے، عالمِ علوی میں پہنچ جاتا ہے، دل ہی انسان کی جسم وجاں کا سنگم ہے، دل ہی ہدایت وگمراہی کا مرکز ہے، دل ہی ظاہروباطن کا اتصال ہے، اللہ نے قران پاک کو بھی اپنے نبی ﷺکے قلب یعنی دل پر اتارا، اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے دلوں پر الہام فرماتاہے، یعنی ہر بھلائی اور برائی دل ہی کی مرہونِ منت ہے، کسی بھی طاقت وروبہادر کو دلیرکہا جاتا ہے، لوگوں کو داد ودہش کرنے والے والے بندے کوسخی دل یا بڑے دل والا کہا جاتا ہے، ترس وخدا خوفی کرنے والے کو رحم دل،نرم دل اوررقیق القلب کہا جاتا ہے،کسی قاتل وحشی اورڈاکو کوشقی القلب اور سخت دل کہا جاتا ہے، غرض انسانی زندگی کے ہربرے اور بھلے کا تعلق دل سے ہے، محبت اور عشق دل کا فعل ہے، اسی لیے کسی نے کہا ہے دل لگی تمہیں بھول جانا پڑے گی،تم دل کسی سے لگا کرتو دیکھو، خواجہ غلام فرید نے کہا ہے ”پچھ پچھ ہاریاں اکھیاں دل توں ہوسی کدوں دیدار، دلبر ملسی آکہڑے وار“اس درد وخوشی، علم وآگہی، محبت ونفرت، عشق وہوس، زندگی اور موت کے مرکز، یعنی دل کو دنیا سمجھ نہ سکی، اب زندہ جسموں میں مردہ دل بس رہے ہیں۔ہر زمانے میں اللہ نے اپنے انبیاء کو جودنیا میں بھیجا وہ اس دل کی دنیا بہتر کرنے کے لیے تھا،ہمارے آقاﷺ آئے تو اللہ نے فرمایا ”ویزکیھم“اوروہ ان کے دلوں کو پاک کریں گے، تو میرے آقا ﷺ نے جب دلوں کوپاک کیا تو وہ شقی القلب لوگ جو اپنی نومولود چاند وپھول جیسی بچیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے،اس قدر پاکیزہ ہوگے کہ، داحیہ کلبی جس نے کم از کم ستر بچیوں کو زندہ در گور کیا تھا، اس شقاوت کو میرے نبی ﷺ کی نظر نے اس رحمت اور نفاست میں بدلا کہ روح الامین اس قالب میں ڈھل کرمجلسِ رسول ﷺ میں آتے، اسی لیے میرے آقا نے فرمایا ہے کہ انسانی بدن میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے، وہ جب صحیح ہوتا ہے تو سارا بدن صحیح ہوتا ہے، اور وہ دل ہے، دل ہر وقت تڑپتا ور پھڑکتا رہتا ہے، جیسے کوئی نیم بسمل تڑپ اور پھڑک رہا ہوتا ہے، جسے ہم دھڑکن اور زندگی کا نام دیتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ زندگی تڑپنے اور پھڑکنے سے مرکب ہے، اللہ نے بھی کلامِ پاک میں فرمایا ہے،”من اتی اللہ بقلب سلیم“ جو اللہ کے پاس سانپ کے زہر سے متاثرہ قلب یعنی بے تحاشہ تڑپتا دل لایا،یعنی اللہ کے خوف اور مخلوق کے درد میں تڑپتا ہوا آیا، یعنی اہلِ دل اسے دل نہیں کہتے،جوتڑپتا نہ ہوکسی کے لیے،اورخوفِ خدا یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو مخلوق پر اپنا خلیفہ بنایا ہے، وہ اس کاحق ادا نہیں کر پا رہا، یہ اللہ کا خوف ہے، ناکہ اللہ کوئی ایسی بے رحم شئے ہے کہ بندہ اس سے ڈرتا رہے کہ کب بے جرم وگناہ کھا نہ جائے، یہی وجہ تھی کہ حضرت عمر جب اسلامی ریاست کے خلیفہ بنے توراتوں کو اٹھ کر دھاڑیں مار کر رونے لگتے، کہ گھر والے بھی بے آرام ہوجاتے، بیوی نے عرض کیا جب سے آپ خلیفہ بنے ہیں، یہ کیا مرض آپ کو لگ گیا ہے کہ نہ آپ خود سوتے ہیں نہ بال بچوں کو سونے دیتے ہیں،توفرمایا میں ڈرتا ہو کہ فرات کے کنارے اگر کوئی کتا بھی پیاسا مر گیا تو مجھ سے پوچھا جائے گا،کہ تم خلیفہ تھے تم نے اس کی خبر کیوں نہ لی، اورپھر دھاڑیں مارکررونے لگے، آج دنیا تو دل سے گئی کہ دل تو صرف گردشِ خون کا ذمہ دار رہ گیا ہے، اوران ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ گیا ہے، جو اس کے احساسات کے بجائے اس کی حرکات ہی کے پیچھے لگے ہوے ہیں، حتیٰ کہ باقاعدہ اس کے کی نالیوں کی صفائی دھاتی تاروں سے کی جانے لگی ہے، لیکن اس کی احساساتی صفائی کاکسی کو علم وفکرتک نہیں، گوناگوں پریشانیوں میں مبتلا انسان، اطمینانِ قلب کی دوائیاں لیتے لیتے باقاعدہ نشئی بن جاتے ہیں کہ نشہ دل ودماغ کو اپنے سے بے خبر کردیتا ہے، اورایک سویا ہوا اور نشے میں مبتلا شخص ایک جیسے ہوجاتے ہیں، اوپر سے ڈاکٹروں نے بھی نیند آور ادویات کا رواج بنا لیا ہے، اب تقریبا ًہر تیسرا شخص دواکے بغیر سونے سے بھی رہا، پھر لوگوں نے روحانی سہارے لینے شروع کردئیے، کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”الا بذکر اللہ تطمئن القلوب“ خبردار دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہے،تو پھر جسمانی ڈاکٹروں کی طرح کئی روحانی شفاخانے یعنی آستانے بھی کھل گئے، جہاں دن رات ڈاکٹروں کی طرح دلوں کا علاج ”ہا وہو“ سے کیا جارہاہے، حالانکہ اللہ کا ذکر بالجہر وخفی اس سے مراد نہیں، لیکن چلوں ڈاکٹروں کی انجیو گرافی کی طرح کچھ فائدہ اس میں بھی ہے ہی، لیکن وہ تزکیہ جو میرے نبی ﷺ نے کیا تھا، وہ ذکر جو اصحابہ کرام نے کیا تھا، اس ذکر کی ایک جھلک حضرتِ عمررضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے، اللہ کا ذکر نماز، قران، تسبیح وتحلیل سب ہی ہے، لیکن اللہ کا وہ ذکر جس کو میرے نبی ﷺ نے فرمایا کہ وہ بندے جن کو دیکھو تو اللہ یاد آجائے، یہ ذکر اصل مقصودِ حق ہے، جو آج نہ مساجد میں ہے نہ خانقاہوں میں، خانقاہوں میں وہ ذاکر موجود نہیں،کہ کسی ولی کے پاس سخت سردی میں کوئی مرید گیادیکھا تو حضرت صرف ستر پوش ہوکر باقی جسم ننگا لیے بیٹھے ٹھٹھرا رہے ہیں، عرض کیا حضور گرم کپڑے توموجود ہیں پھر کیوں سردی میں کانپ رہے ہو، رونے لگے کہ آج اس شہر میں ہزاروں لوگ اس طرح سردی سے ٹھٹھرارہے ہیں، میں ان سب کو توگرم کپڑے نہیں دے سکتا، میں نے کہا چلومیں ان کے ساتھ سردی سہنے میں حصے دار بن جاوں، یہ ہے اللہ کا ذکر، جس سے پیر وملا سب دور ہیں،اسی لیے علامہ اقبال نےء کہا ہے کہ ”پرورش دل کی اگر مدِ نظرہے تجھ کو۔ مردِ مومن کی نگاہِ غلط انداز ہے بس!“اللہ ہم سب کو دل کی دنیا میں اترنے کی توفیق دے آمین، وما علی الاالبلاغ