تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
علامہ اقبال علیہ رحمہ نے اپنی کتاب ضربِ کلیم میں ”غلاموں کی نماز“ کے عنوان سے ایک نظم لکھی،جس میں وہ اس امتِ غلاماں کی نماز کو بڑے دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہیں، خیروہ آپ کو آخر میں پڑھنے کو ملے گی، وہ زمانہ تو واقعی ہی مسلمانانِ ہند کا غلامی کازمانہ تھا، لیکن آج چوہتر سال ہوگئے اس ملکِ پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے ہوے، اوریہ ایک آزاد وخود مختار ملک اسلامی پہچان کے ساتھ ساری دنیا کے کفارکے نہاں خانہِ دل میں کھٹک رہا ہے، کہ یہ شیر کہیں بپھر نہ جائے، لیکن یہ شیر ہے کہ بے چارہ بھیڑوں کے قدموں میں سر نوائے ان کے ساتھ چرنے چگنے میں لگا ہوا ہے، مولینا روم لکھتے ہیں، کہ کوئی خداترس چرواہا کسی جنگل میں اپنی بھیڑیں چرا رہا تھا، وہاں اسے شیر کا یک بچہ مل گیا،تووہ اسے اپنے گھر اٹھا لایا، اب وہ اسے بھیڑوں کا دودھ پلاپلا کر پالتا رہا، حتیٰ کہ وہ بھی چرنے چگنے پہ لگ گیا اب چرواہا اسے اپنے ساتھ جنگل میں لے جاتا وہ بھی دن بھر بھیڑوں کے ساتھ چرتا چگتا رہتا، رات کو چرواہا اسے دودھ ڈال دیتا، بھیڑیں اس سے مانوس وہ بھیڑوں سے مانوس، وقت گزرتا گیا وہ ایک مکمل شیر بن گیا لیکن وہ کسی جانور کو نہ مارتا نہ چھیڑتا، جنگل میں گیدڑ اور بھیڑئیے اسے دیکھ کر اس ریوڑ سے دورہی رہتے کہ کہیں اس کے ہتھے نہ چڑھ جائیں، لیکن کرنا خدا کاکیا ہوا ایک دن اس جنگل میں ایک جنگلی شیر آگیا، اس نے تو پہلے اس شیر کودیکھا تووہ بھی اس کے قد کاٹھ کو دیکھ کر رک گیا کہ یہ کہیں مجھ پر حملہ آور ہی نہ ہوجائے، پھروہ دیکھتا رہاکہ یہ ان بھیڑوں کے ساتھ ہی چلتا پھرتا اوران سے انس کے ساتھ رہ رہا ہے، اسکی کیا وجہ ہوسکتی ہے،جنگلی شیر اپنے بھائی کی طرف بڑی احتیاط کے ساتھ گیا، اس سے پوچھا بھائی تم یہاں کیا کررہے ہواس نے کہا چررہا ہوں اور کیا کررہاہوں، اس نے کہا یہ بھیڑیں تم سے ڈرتی نہیں، اس نے کہا ڈریں کیوں، اس نے کہا تم ان کو مارتے نہیں ہو، اس نے کہا ماروں کیوں، جیسی یہ ایسا میں،تو اس شیر نے سمجھا کہ یہ اپنے آپ کو بھولا ہوا ہے، وہ اسے لے کر ایک صاف پانی کے کنویں پر چلا گیا، اسے کہا دیکھوپانی میں کیا نظر آتا ہے اس نے کہا ایک تیری شکل اور ایک میری شکل، اس نے کہا میری اور تیری شکل میں کیا فرق ہے، اس نے کہا کوئی نہیں، اس نے کہا تو پھر تم میرے والا کام کیوں نہیں کرتے اس نے کہا وہ کیا کام ہے، اس نے کہا آو میں تمہیں دکھاتا ہوں، اس نے واپس بھیڑوں میں آکر ایک بھیڑ کو مارا،ا ور اس کا خون کچھ خود پیا، اور کچھ اس خود فراموش شیر کے منہ کو لگایا، تواس کے اندر بھی شیر کی جبلت عود کر آئی، تو اس نے بھی بھیڑوں کو گھائل کرنا شروع کردیا، مولینا لکھتے ہیں کہ آج کا مسلمان اپنی شناخت بھول چکا ہے، اورکفار کی بھیڑوں کے ساتھ چرتے چرتے ان کی طرح کی بھیڑ ہی بن گیا ہے، اسے یہ معلوم ہی نہیں رہا کہ مسلمان کی زندگی کامقصد صرف چرناچگناہی نہیں۔ بلکہ مسلمان خلافتہ الٰہیہ کاپاسبان ہے، اسے زمین پر اللہ کے نظام کونافذکرنااوراسے چلاناہے،اورصرف ذکرونماز ہی اس کی ڈیوٹی نہیں، بلکہ نظامِ اسلام کانفاذ اس کی ذمہ داری ہے، کہ انسانیت کی سر بلندی ِ، عزتِ نفس، امن وآشتی سب اس نظام کے مرہونِ منت ہے، جوآج پوری دنیا میں نہیں ہے، انسانیت جہاں میں جس کرب وبلا سے گزررہی ہے، یہ صرف مسلمانوں کے اپنے آپ کو نہ پہچاننے کی وجہ سے ہے، کفار کی ہزار قسم کی چالوں کے باوجود دنیا کے اندر کفار بھی انسانی کرب میں مبتلا ہیں، مسلمانوں کی تو بات ہی اور ہے، لیکن مسلمان امت کے راہنما یعنی علماء وپیر آج بھی امت کو ذکر وعبادت میں تو مصروف کئیے ہوے ہیں، مساجد میں علما قیام وسجود کی برکات سے آگاہی میں عمریں گذار رہے ہیں، خانقاہوں میں ذکر ومراقبہ میں مصروف کیے ہوے ہیں، لیکن زندگی کے وہ حقوق جو انسانوں کو معاش ومعاشرت میں انصاف دلا سکیں، تو پوری دنیا میں انسان آج انسانوں کے رحم وکرم پر ہیں، یورپ وامریکہ کو دیکھیں، چین وروس کو دیکھیں، پاکستان وہندوستان کی تو بات ہی کیا ہے، لیکن چوہتر سال ہوگئے پاکستان بنے ہوے آج بھی ہمارے تبلیغی بھائی لوگوں کو نمازیں سکھا رہے ہیں، کچھ لوگوں کو سنتیں سکھا رہے ہیں، کچھ توحید، کا بیڑ ااٹھائے ہوے ہیں، کچھ بزرگانِ دین کے آستانوں پہ لنگرچلائے بیٹھے ہیں، لیکن اسلام کے نظام کو نافذ کرنے کی کوشش کسی نے بھی نہیں کی،نمازیں ہی پڑھانے میں لگے ہوے ہیں،توعلامہ اقبال نے لکھا ہے کہ ایک ترکی وفد سے ملاقات کے دوران نماز کا وقت ہوا، تو نماز کے بعد ایک ترکی مجاہد نے کہا، علامہ صاحب آپ کے امام بڑے لمبے سجدے کرتے ہیں، توعلامہ نے اس پر یہ نظم لکھی،جودرجِ ہے، ”کہامجاہدِ ترکی نے مجھ سے بعدِ نماز۔ طویل سجدہ ہیں کیوں اس قدرتمہارے امام۔وہ سادہ مردِ مجاہد،وہ مومنِ آزاد۔خبرنہ تھی اسے کیاچیزہے نمازِغلام۔ہزارکام ہیں مردانِ حرکودنیامیں۔انہی کے ذوقِ عمل سے ہیں امتوں کے نظام۔بدن غلام کاسوزِعمل سے ہے محروم۔کہ ہے مرورغلاموں کے روزوشب پہ حرام۔طویل سجدہ اگرہیں توکیاتعجب ہے۔ورائے سجدہ غریبوں کواورکیاہے کام۔خدانصیب کرے ہندکے اماموں کو۔وہ سجدہ جس میں ہے ملت کی زندگی کاپیغام!۔“ وماعلی الاالبلاغ۔
