تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
اسلام کی اصلی شکل وپہچان جوعالمِ دنیا میں دیکھی گئی وہ تصوف ہی کی شکل ہے، میرے نبی ﷺ نے اپنے عمل وپیغام میں تصوف ہی کواجاگر کیا، آپ ﷺ نے خود بھی فقیرانہ زندگی گذاری،اپنے اصحاب کو بھی اسی کی تعلیم وترغیب دی، سونے اور چاندی کے خزانوں والے صحابہ بھی آن کی آن میں اللہ کا مال اللہ کودے کر خود خشک روٹیوں پراکتفا کرتے تھے ،اورانہی لوگوں نے فقیری میں شاہنشاہی کی، لیکن امتدادِ زمانہ کے ساتھ جہاں ہرچیز میں تبدیلیاں آئیں، وہاں اسلام کی اس اصل میں بھی نقل در آئی ہے، عام لوگوں کے خیال میں تصوف ملوکیت کے دور میں ایجاد ہوا یہ بالکل غلط ہے، البتہ تصوف اس ملوکیت کے دور میں مظلوم ومقہور لوگوں کی ایک پناہ گاہ کے طور پرسامنے آیا اور اس دورِ فتن میں اسلام کی آبیاری تصوف نے خانقاہی نظام کے ذریعے کرناشروع کردی، لیکن اس پناہ گاہ میں جہاں اصحابِ کہف جیسے لوگ چھپے وہاں ہی شیطانی صفات کوبھی کمین گاہیں مل گئیں عالمِ عرب سے عالم ِ ہندتک کئی طرق ہائے تصوف چل رہے ہیں، اور اکثر لوگوں کے خیال کے مطابق کسی ناکسی سلسلہ تصوف سے وابستہ ہونا ہی ذریعہِ نجات ہے،
البتہ یہ معاون ضرور ہے لیکن ضروری نہیں، آئیے سابقہ دوصدیوں سے تصوف کا اسلام سے تعلق دیکھتے ہیں، اہلِ ہند تصوف کواسلام کی ایک صنف گننے لگے ہیں، اوراہلِ ہندہندووں کی طرح اسلام کے صوفیاء کو دینی ودنیاوی حاجات وبلیات میں وسیلہ الی اللہ سمجھ کر ان سے استمداد کرتے ہیں، جوغلط بھی نہیں، ایسا قران وحدیث سے ثابت ہے کہ اللہ کے مقرب بندوں سے دعاووسیلہ لیاجائے، اور صوفیاء کا ذکروعبادات میں مصروف رہ کر دنیا سے بے رغبتی کا حصول بھی کوئی غیر اسلامی نہیں،یہ بھی قرآن وحدیث سے ثابت ہے، لیکن تصوف سے یہ قطعی مراد نہیں کہ بندہ ذکروعبادت وسلسلہ اس لیے اپنائے کہ وہ دنیا کے اموروفوائد اس سے حاصل کرے، اور پھر لوگ بھی اسی نظریہ سے اس سے بیعت وتعلق قائم کریں کہ دنیاوی ضروریات میں سماوی امداد اس سے ہوتی ہے، اورپھر اس سارے دھندے کوذکر وعبادت کے نام پر چلایا جائے، زہد وریاضت اورچلہ کشی بعض غیبی طاقتوں کے حصول کے لیے کی جائیں، اوپھر ان طاقتوں کے ذریعے چاہے مخلوق کی خدمت ہی کی جائے، جیسے امراض وسحروجادواور جنات سے لوگوں کو نجات دلانے جیسے مفید کام کیے جائیں، یہ سب بھی ماجورِ من اللہ ہونے کا ایک ذریعہ ہیں، لیکن تصوف تزکیہ نفس کا جو اصل ذریعہ ہے اس سے ان باقی چیزوں کاکوئی تعلق نہیں، یہ تمام صلاحیات اس سے حاصل ہوسکتی ہیں، لیکن یہ اس کا مقصود نہیں، تصوف کو ہندوستان میں فقر کے نام سے منصوب کردیا گیا ہے، اور اس ملک کے لوگوں نے فقر وشرع دوعلیحدہ چیزیں بنالی ہیں، پیرسید نیک عالم شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے، ”ف فقر تے شرع نو وکھ جانن انھے لوگ بے دین بے پیر میاں، کیتا خوب دھیان تے نظر آئے نوکر شرع دے پیر فقیر میاں، اک دوہ کے جاہلاں ناس کیتا مٹھاستھرا فقر دا شیر میاں،عالم شرع دی فرع فرماگئے نے سچے لوک سلوک دے امیر میاں“یعنی تصوف وہی ہے جو شرع سے مطابق ہے، اورشرع وہ ہے جو میرے نبی ﷺ اور آپ کے خلفا ء کی زندگی ہے، کچھ لوگوں نے شرع سے مراد نمازوروزہ اور صرف عبادات ہی کو لیا ہے، لیکن شرع وہ ہے جو میرے آقاﷺ نے ہردن وشب جیسے گزارا ہے، لہذامیرے آقا نے جو تزکیہ نفس لوگوں کا کیا اس کے اثرات یہ تھے کہ لوگ ظلم ووزیادتی کے باوجود بھی باطل کے سامنے کبھی جھکے نہیں، اورحق کے لیے جان کی پرواہ تک نہیں کی، لیکن آج کی دنیا کے سلاسلِ صوفیا ء کے اجتماع اگر دیکھیں توپتا چلتا ہے کہ سار اجہان ہی امڈآیا ہے، لیکن باطل کے سامنے کھڑاہونا تو دور کی بات ہے، باطل کو باطل سمجھنا بھی ان کے بس میں نہیں، یہ اب باطل کوبھی مشیتِ الٰہی ہی کہتے ہیں،انہیں دوسالوں کولیجیے کوروناآیا ہوسکتا ہے یہ کوئی لاعلاج مرض ہی ہو لیکن کیا اس کے لیے ان تمام احکامات کو ماننا جو کوروناکے ڈاکٹروں نے جاری کی ہیں، یہ کوئی حکمِ الٰہی ہے، بڑے بڑے شرع والےء پیروں نے انسان گریزی اپنا لی کسی سے ہاتھ نہیں ملانا، حتیٰ کہ نماز میں ایک دوسرے سے کم ازکم تین فٹ کے فاصلے پر کھڑاہونا،
اوریہ تو کعبے سے لے کر ہر مسجد وخانقاہ تک عمل کیا گیا، کیا یہی تصوف وتزکیہ سے حاصل ہو اہے کہ اللہ سے نوامیدی اورڈاکٹروں سے امید، تصوف تو موت سے بے خوف کردیتا ہے، بلکہ موتوقبل ان تموتوا، کہ موت سے پہلے مرو کا حکم دیتا ہے، علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اسی کو محسوس کرتے ہوے اپنی ایک نظم بنام ”تصوف“ میں لکھا ہے،۔ یہ حکمتِ ملکوتی،یہ علمِ لاہوتی،۔حرم کے درد کادرماں نہیں تو کچھ بھی نہیں،۔ یہ ذکرِ نیم شبی،یہ مراقبے، یہ سرور۔تری خودی کے نگہباں نہیں،توکچھ بھی نہیں،۔یہ عقل جو مہ وپروین کاکھیلتی ہے شکار۔شریکِ شورشِ پنہاں نہیں توکچھ بھی نہیں۔خردنے کہہ بھی دیالاالہ توکیاحاصل۔دل ونگاہ مسلماں نہیں توکچھ بھی نہیں۔عجب نہیں کہ پریشاں ہے گفتگومیری۔فروغِ صبح پریشاں نہیں توکچھ بھی نہیں۔وماعلی الالبلاغ۔ٖٖ