مایوسی آدھی موت ہے

مایوسی آدھی موت ہے : ارم صباء

تحریر : ارم صباء

حضرت شیخ سعدی نے فرمایا تھا "مایوسی ایسی  دھوپ ہے جو سخت سے سخت وجود کو جلا کر  راکھ بنا دیتی ہے”
حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں خودکشی کی شرح میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر ہم خود کشی کی وجوہات کا جائزہ لیں تو  بہت سی وجوہات میں بنیادی وجہ ’’مایوسی‘ ہے جس کا شکار تقریباً ہر انسان  ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے   کہ انسانوں میں مایوسی کیوں پیدا ہوتی ہے اور اس کے تدارک کا طریقہ کار کیا ہے؟  اللہ تعالیٰ نے  ہمیں اس کے متعلق کیا تعلیمات دی ہیں ۔ اور ہم کس طرح مایوسی سے نکل سکتے ہیں ۔ میرے نزدیک مایوسی اس احساس کا نام ہے  جو ایک شخص اپنی کسی خواہش کی تسکین نہ ہونے کے طور پر محسوس کرتا ہے کیونکہ جب وہ  خواہش پوری نہ ہوسکے تو اس کے نتیجے میں اس کے دل ودماغ میں اک  تلخ احساس پیدا ہو گا اور یہ احساس مایوسی کی بنیاد ہے۔ فلسفے کے استاد کی حیثیت سے میرے نزدیک مایوسی  سے بچنے کے لیے ہمیں  سب سے پہلےحقیقت پسند ہونا چاہیئے اور غیر حقیقی خواہشات کو ذہن سے نکال دینا چاہیے اگر خواہشات  کی معقولیت پر غور کریں تو  ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خواہشات پوری نہ ہونے کی صورت میں اگر  نقصان کا اندازاہ لگایا جائے توآپ خود محسوس کریں گے کہ خواہش کی شدّت کم ہو جائے گی اور جب خواہش کی شدّت کم ہوتی ہے تو ناکامی  کی صورت میں مایوسی کی شدّت بھی کم ہوجاتی ہے۔ یعنی  خواہش کی شدت اور مایوسی کا آپس میں براہ راست تعلق ہے ۔ یہ  کتنا دلچسپ فارمولا ہے لیکن اس بات کا بھی خیال رکھنا ہو گا  کہ خواہش کی شدّت اتنی بھی کم یا ختم نہ ہو جائے کہ قوّتِ عمل کا رحجان ہی کم یا ختم ہوجائے ۔

جنسی درندگی کا عفریت وجوہات اور تدارک : ارم صبا

میں یہ بات اکثر محسوس کرتی ہوں کہ بعض اوقات ہم جس تاریکی  میں گھرے ہوتے ہیں اور مایوسی ہماری سوچ پر حاوی ہوتی ہے  مگر  وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ  ہمیں  احساس ہوتا ہے  کہ یہ اندھیرا تو ہمیں  روشنی کی طرف لے  کر جا رہا  ہے ۔شرط یہ ہے کہ امید رکھیں کہ صبح ہو گی۔ صبح صادق کا سورج نکل کر رہے گا ۔ ہم دنیا کے خلاف فریاد کیوں کریں  ‘ کوشش کریں کہ کوئی آپ کے زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہے۔ دوسروں کو خوش کریں ‘ خوشی خود ہی مل جائے گی اور یہی وجہ زندگی ہے اور راز ہستی ہے۔ مولانا روم نے کیا خوب فرمایا تھا تمھاری اصل ہستی تمہاری سوچ ہے باقی تو صرف ہڈیاں اور خالی گوشت ہے۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ زندگی گزارنے کا سلیقہ  ہمیں بہت  دیر سے آتا ہے۔ واصف علی واصف کہتے ہیں، ’’کہ کائنات کے بڑے بڑے مضامین میں نہ پڑو بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دو اس کو راضی رکھو جو ہمسفر ہے چاہے وہ ہم خیال نہ بھی ہو‘‘ ۔ دنیا بھر میں لوگ سمجھتے ہیں کہ دوسروں کے لئے جینے سے اصل خوشی ملتی ہے، یہ کام جتنی جلدی ہوسکے  ہم کیوں نہیں شروع کر دیتے ۔  اگر ہم۔خود کو مصروف رکھ لیں، اپنی روٹین اور زندگی کے نظم و ضبط کاخیال رکھیں ، اچھی خوراک استعمال کریں ۔ ورزش کریں  قدرتی مناظر کے قریب رہیں  تو  جینے کے لاکھوں بہانے سمجھ آنے لگتے ہیں۔ اور مایوسی ہمارے قریب بھی نہیں آتی۔ جب یہ بات زہن نشین کر لی جائے کہ ہر دیوار کے اندر دروازہ ہے جس میں سے مسافر گزرتے رہتے ہیں۔ مایوسیوں کی دیواروں میں اس کی رحمت امید کے دروازے ضرور کھولے گی ۔  ہمیں بس  امید کو زندہ رکھنا ہے۔ مایوس نہیں ہونا۔یقیناً موسم بہار اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ آئے گا  اور ضرور آئے گا۔ انسان ہی انسان کے دل پر حکمرانی کرے گا۔  تو یقیناً زندگی کو جوازِ زندگی مل جائے گا ۔  حضرت علی نے فرمایا تھا کہ دنیا میں پریشانی کی دو وجوہات ہیں۔ تقدیر سے زیادہ چاہنااور وقت سے پہلے مانگنا۔ کنفیوشس فلاسفر کہتاہے کہ  تاریکی کو کوسنے سے بہتر ہے کہ ایک چراغ جلا دیا جائے ۔ ٹیگور  فلاسفر کہتا ہے کہ پیدا ہونے والا ہر بچہ یہ پیغام لاتا ہے ۔کہ خدا ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا  خرابی ہمارے اندازِ فکر میں ہے۔

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*