قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

زندگی ازل سے ابد کی طرف رواں دواں ہے،ارادہ الٰہی سے کن فیکون ہونے والی زندگی عالمِ ارواح سے ہوتی ہوئی، عالمِ اجسام میں جب شہود پذیر ہوتی ہے،تو اب سے اس کی آخری منزل ابد کی طرف کا پڑاو ہوتا ہے، ہرجسمِ ذی روح اس مقام میں اپنے وجود وشہود کاعروج دیکھتا ہے، میرے نبی ﷺ نے فرمایا ”الدنیا مزرعۃ الاٰخرۃ“یعنی دنیا آخرت کی کھیتی ہے، کہ جو تم اپنے اس مکمل وجودوشہود میں بوو گئے وہ ہی اپنی آخرت یاا بد میں پاو گے، زندگی محبت وانس کے ارادہ سے وجود میں آئی اور اس کی منتہائے شہود بھی یہی محبت وانس ہی ہے، اللہ نے تمام اشیائے مخلوق کواپنی اپنی جنس میں جوڑاجوڑا بنایا، ہرجوڑاا نس ومحبت کی کشش سے بندھا ہوا ہے، اوریہی محبت زندگی کی ابتدا بھی ہے اور یہی عروج وشہود بھی ہے، اسی سے دلوں میں درد اٹھتا ہے، اسی سے دلوں میں کشش ہوتی ہے، جب اجسام اپنے جوڑوں کی طرف جوڑے جاتے ہیں، تویہ تخلیق کے مقصد کی طرف زندگی کوتکمیل ملتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر جوڑا اپنے جوڑے سے تسکین میں آتا ہے، تو اللہ کے حکم کی تکمیل ہوتی ہے، ”اور اسکی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے پیدا کیے تمہارے لیے تمہاری جانوں میں سے جوڑے تاکہ تم ان سے تسکین پاو،اور بنائی اس نے تمہارے درمیان مودت اور رحمت“ (القران)

شہود کے اس عالم میں جب ہم نے بھی قدم رکھا توعالمِ کن فکاں سے ہمارے کانوں میں بھی یہ صدا گونجی کہ ہم نے تمہارے نفسوں میں سے تمہارے لیے جوڑے بنائے ہیں، توہم شعور میں آتے ہی اپنے جوڑے کے لیے اس عالمِ کون فساد میں بھٹکنے لگے، امید وانتظار کے سالوں بعد ایک ہمدم زندگی سرابِ زندگی میں ہمارے طرح ہی جلا بھنا، تشنہ لب وآبلہ پا،زمانے کی صرصر کے تھپیڑوں اور آسمانِ تقدیر کے سورج کی آتش سامانیوں سے بے سائیہ وبے آماں ہمارے دامن میں چھپنے کو آپہنچا، کہ خالق وعلیم ہر جوڑ کو خوب جان کر جوڑتا ہے وہ کچے دھاگوں کی گھانٹھیں نہیں باندھتا،میرے سائے میں پناہ لینے والی ابھی کم سن ہی تھی کہ باپ کا سائیہ سر سے اٹھ گیا، ایک مفلوک الحال شریف النفس ماں اپنے دوسنِ بلوغ میں قدم رکھتے بیٹوں کے ساتھ زندگی کی کشتی کو ریگ زمانہ میں گھسیٹنے لگی، یتیمی میں پلنے والی نادان بچی، جن کے بارے میں خود خدا کہتا ہے کہ ”وہ گہنوں میں پلنے والیاں“اس کو گہنے کون اور کہاں سے دیتا، رزقِ خداکی خاطر بھائیوں کی مزدوری سے روکھا سوکھا مل جاتا، سنِ شعور میں قدم رکھا تو رسمِ زمانہ کی طرح ماں نے گھر میں جانور پالنے کورکھے ہوے تھے ان کی رکھوالی اور خدمت میں لگ گئی، یتیموں کی زندگیاں کس حال میں گزرتی ہیں یہ وہی جانتا ہے جو یتیمی سے گزرتا ہے، اسی لیے میرے اللہ نے اپنے محبوب کو بھی یتیم پیدا کیا کہ میرے وہ بندے جو اس د کھ سے گزریں، وہ خود اپنے ساتھ رحمۃ للعالمین کو دیکھیں انہیں یہ تو امید ہو کہ ہم اس زمرے میں ہوں گے جہاں اللہ کے محبوب ہوں گے، 1997کے رمضان شریف میں میری زندگی کو تسکین دینے، میرے ایمان کو مکمل کرنے، میرالباس بننے والی وہ تشنہ زندگی آگئی.

عورت گہنوں کی تخلیقا ًکشش رکھتی ہے، توجو گہنے عروسی میں میں نے ڈالے تھے، بوجہ مجبوری وہ بھی ایک سال کے اندراندربیچ دئیے، لیکن وہ جس کو میرے رب نے کہا ہے کہ چاہے وہ نبی ہی کی بیوی کیوں نہ ہو گہنوں سے ہی خوش رہتی ہے، وہ ذرا ملول نہ ہوئی، میری زندگی بھی غربتکی اسی بٹھی میں بھنی ہوئی تھی جس سے وہ بے چاری نکلی تھی، ایک اسکول ٹیچر پھر لکھنے والا شخص گھر کے کسی کام کاج سے بالکل ناواقف،سارا گھر اس بے خانماں کے سر پرتھا، اللہ نے ایک بچی دی، اس کے بعد ایک بچہ جو پیداہونے سے پہلے ہی فوت ہوگیا، بس اب گھر کی ساری کائنات ایک بچی ہی تھی، شدائد میں پلی ہوئی اس میری ہمدم کی ہٹ میں مشقت اور جانوروں سے محبت تھی اپنی شوق کے لیے بکریاں پال لیں، گوکہ ان کی ہمیں ضرورت نہ تھی، لیکن میں نے اس کی مرضی کے لیے منع نہ کیا،جانوروں سے اپنے بچوں کی طرح محبت کرتی تھی، پھر اپنے جانوروں سے ہی نہیں کسی کاکوئی جانور کسی بھی مصیبت میں ہوتا تو اسے اس سے نکالنا اس کی پہلی ترجیح ہوتا تھا، لوگوں کے جانوروں کو راتوں میں اٹھ اٹھ کر پانی پلانا، انہیں کتوں وغیرہ سے بچانا، بھولے ہوے جانوروں کو ارات اپنے گھر میں ر کھنا، یہ سب اس کی زندگی کے مشغلے تھے، کرتے کرتے بیس سال گزر گئے میں نے پینشن لی، توپہلے اس کے گہنے جو بیچے ہوے تھے وہ بنا کر دئیے، لیکن اب کسے ان کی ضرورت تھی، اس وہ بیچے اور اپنی تنہا بیٹی کے لیے گھر بنانے لگی، سارے مکان کی چھتیں اکھیڑ دیں، کہ لینٹر کرنا ہے، مخالفین نے بلا وجہ ہی اس مکان پر سٹے لگوا دیا، زمانے بھر کے ظلم وستم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنی رہنے والی، کچھ اس وقت سہمی ہوئی ریت کی طرح سرکنے لگی، اندرہی اندر ٹوٹنے والی 25جولائی کی شام کو مجھ سے پوچھنے لگی کہ کیس کا کیا بنا ہے، میں نے کہا کل سے تاریخ ہوگئی ہے، ایک دودنوں میں سٹے ختم ہو جائے گا، لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ غریب الوطن اس غم سے کتنی ٹوٹ چکی ہے، شام کو طوفانِ بادوباراں کیا ہوا، کہ وہ جانوروں کو محفوظ کرکے ان کے پاس ہی بیٹھ کر پتا نہیں کیا سوچنے لگی کہ پیامِ اجل آگیا، دل میں تکلیف ہوئی ہم میں سے کوئی پاس نہ تھا، وہاں سے ہمارے طرف چلی گلی میں اپنے بھتیجے کے پاس پہنچی ایک قے ہوئی اور بے ہوش ہوگئی، جب مجھے بلایا گیا تو وہ بول نہ سکتی تھی،کار میں ڈالی اسلام گڑھ ویلفئیرٹرسٹ کی طرف گئے انہوں نے میرپور دل کے ہسپتال کی طرف بغیر ابتدائی طبی امداد ریفر کردیا، راستے میں جان جانِ آفریں کے سپردکردی اناللہ واناالیہ راجعون، رات گیارہ بجے باڈی واپس گھر آگئی، اجڑی ہوئی دنیا دکھنے لگی، خوابوں میں اپنا بے لباس دکھنا یاد آگیا، تو دل سے ایک ہوک نکلی، اے اللہ تو نے مجھے تو بے لباس کردیا ہے، البتہ تیرے پاس ایک یتیم آگئی ہے اسے اپنی چادرِ رحمت سے ڈھانپ لینا، اور اس کے ساتھ غالب کا یہ شعر یاد آگیا، جاتے ہوے کہتے ہو قیامت کوملیں گئے، کیا خوب!قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور۔اللہ اسے اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطافرمائے آمین۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*