شام کے سائے اورپرندوں کا شور : قاری محمدعبدالرحیم

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم

دن بھردانا دنکا چگتے،ہواوں میں تیرتے، باغوں میں چہچاتے،ندیوں کے کنارے گنگناتے،شام کے سائے ڈھلتے ہی،اپنے اپنے درختوں کی تلاش میں دوڑپڑتے ہیں، چڑیاں اوردوسرے پرندے چیخ وپکار کے ساتھ ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے اور درخت کی مالکیت جتانے میں لگ جاتے ہیں کہ اچانک کسی ہوائی فائر کی آواز تی ہے، سب آلنوں میں بیٹھے اور درخت کے مالک بننے والے سٹ پٹائے ہوے، اڑتے ہیں، تواب کسی کو کسی کی خبرنہیں رہتی کہ کوئی کہاں اورکس درخت پرجا بیٹھا ہے، پھر دم سادھے بیٹھے یہ سارے پرندے صرف اپنی جان کی فکرمیں ہوتے ہیں، نہ درخت پہ جھگڑا نا آلنے پہ، بقول کسے ”جان بچی تو لاکھوں پائے“والا مقولہ رہ جاتا ہے، آزادکشمیر کے الیکشن کا بگل کیا بجا، اس بے یار مدد گاراور دوسروں کے درختوں پر رات بسر کرنے والی چڑیوں کی قوم میں چیخ وپکار شروع ہوگئی، کووں نے باغ کو سر پر اٹھا لیا، سیاست ونظریات کے جھگڑے شروع ہوگئے، کہ اچانک شکاریوں نے ایک فائر داغ دیا، چڑیاں تو سہم گئیں لیکن کووں نے ایک سے دوسرے دوسرے سے تیسرے درخت پر پناہ لینی شروع کردی، وہ جو اس درخت کے مالک بنے بیٹھے تھے، انہیں ہوش نہیں رہا کہ ان کادرخت کونسا ہے،

پانچ سال کس پر بسر کئے، اب کس کی ٹہنیوں میں جا گھسے ہیں، سیاست کی رات ابھی شام بن کر اتری ہے، لیکن الیکشن کے بعد پورے پانچ سال یہ گھپ اندھیرا اس قوم کے سر پر چھایا رہے گا، جس طرح پاکستان میں مہنگائی، بیروزگاری، بھوک وننگ بدانتظامی، لوگوں کو عدل وانصاف نہ ملنااورعوام کا ناطقہ بندکیا ہوا ہے، اور صبح ہونے کے آثار شاید عوام کے مٹ جانے کے بعد پیدا ہوں، لہذاکوے تو حرام خوری اور اپنی شر پسند عادتوں کی وجہ سے درخت بدلتے ہیں کہ کہیں ان پر شکاریوں کی نگاہ نہ پڑ جائے لیکن چڑیوں کو کیا ڈر ہے کہ وہ کووں کے پیچھے چلیں وہ تو پہلے ہی حلال ہیں، انہیں کے خون و گوشت پہ کوے بھی اور شکاری بھی اپنا کاروبار چلائے ہوے ہیں، لہذاانہیں ہی قربانی دے کر درخت کو بچانا ہے، لہذاوہ اپنے وووٹ کو اس ملک کے بچانے کے لیے استعمال کریں، وہ کسی کوے کی پیروی نہ کریں، کسی شکاری کی ہوائی فائرنگ سے نہ ڈریں کہ وہ حلال ہونے کے سبب شکاریوں کا شکار تو پھر بھی بنیں گے، لیکن آج ان کاڈار اگر کسی سانپ کی نشاندہی کرسکے توہوسکتا ہے کہ وہ سانپ اس شور شرابے سے گھبرا کر بھاگ جائے، یا پھر کوئی سانپ کوکچلنے والاکہیں سے آنکلے، تو یہ درخت جوان کی نسلوں کا امین ہے،جو ان کی پہچان ہے، جودشمنوں کے گھیرے میں گھِرا ہوا ہے، جس کی بہاریں ابھی منتظر ہیں کہ کب یہ کاٹنے والوں سے بچ کر نکلے تواس کے برگ وبار کونکھاریں، کشمیری قوم اپنے مقامی مفادات کے لیے نہیں بلکہ آزادیِ کشمیر کے لیے ووٹ کرے، کسی منفعت ومنصب کی جاہ ولالچ سے ورا ہوکر اس پار کے بے بس وبے کس کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کی بقا کے لیے، اس ملک کی ایکتا کے لیے،

اس قوم کی سر بلندی کے لیے، اپنا ووٹ دیں، کسی چوہدری کسی راجے، کسی سردار کی خاطر نہیں، اپنے کشمیر کے بھائیوں کی بقاکی خاطر، اپنے اجڑے دیار کی رونقیں بحال کرنے کی خاطر اپنے حقِ خود ارادیت کی خاطر،اپنے اس بے شاخ برگ درخت کی بہار کی خاطر، اب یہ چڑیوں پر منحصر ہے کہ وہ اس درخت پرآباد رہناچاہتی ہیں یا اس کے ٹکڑے دیکھ کر آلنے اور درختوں پر بناتی ہیں، لیکن یاد رکھنا یہ شام جب رات میں ڈھل گئی تو پھر بسیرا مشکل ہوجائے گا، پھر سانپوں، بلیوں اورالووں کے جھنڈ تمہاری نہ دیکھتی آنکھوں کے سامنے ناچتے ہوں گے، پھر تمہیں زندگی بچانے کو کوئی درخت بھی نہ سوجھے گا، اللہ کرے میرے ہم صفیروں کو اپنے درخت کی گھنی شاخوں کے بسیرے، بے خوف خطر دستیاب رہیں، اوران چڑیوں کے جھنڈ سانپوں کے خلاف برسرِ احتجاج رہیں، اس سے پہلے کہ سانپ ان کے آلنووں میں گھس جائیں، سانپ کیفرِ کردار کو پہنچ جائیں، ہمتِ مرداں مدِ خدا،خدانے کبھی اس قوم کی حالت نہیں بدلی جس کوخود اپنی حالت کے بدلنے کا خیال نہ ہو،ورنہ پھر پیر سید نیک عالم شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے بقول ”شام پئی دن ڈب گیا گئے بجھ شتاب چراغ اللہ، گیاں بلبلاں اڈ گلزاروچوں کاٗیں کائیں کردے نے پئے زاغ اللہ،محرم راز ہمدرد رفیق نائیں لگن وانگ سراب دے باغ اللہ،پھاتھا غم دی قید دے وچ عالم مہرکرم دئیں فراغ اللہ“ یعنی بلبلیں تو اپنے اپنے آلنوں میں دم سادھے بیٹھ گئی ہیں، لیکن کوے باغ کو سر پر اٹھا ئے ہوے ہیں، اللہ تعایٰ ہمیں اس باغ کے بدلے سبز باغ دکھانے والوں سے بچائے اور ہماری قوم کوآزادی کی جو لگن عطا فرمائی ہوئی ہے، اس پرقائم ودائم رکھے آمین وما علی الاالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*