جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بالِ جبریل میں ایک نظم بعنوان ابلیس کی عرض داشت لکھی،جس کامقطع یہ شعر ہے،”جمہورکے ابلیس ہیں اربابِ سیاست،باقی نہیں اب میری ضرورت تہ ِ افلاک“باقی دنیا کو چھوڑ کر صرف پاکستان ہی کو لے لیں، یہاں اربابِ سیاست توکم از کم ہماری نظر میں ہیں، دن کو اور ہوتے ہیں رات کو اور، سیاست سے مراد صرف یہ نعرہ باز سیاست یا عوامی سیاست ہی نہیں،بلکہ ہروہ کارستانی جو قوم کے ساتھ کی جارہی ہے، چاہے،وہ اربا بِ اقتدارواختیارکررہے ہیں،یاعوامی چھلیے،یہ سب سیاست ہے، اور اس سے قوم کی بھلائی شاید ہی کسی کو مقصود ہو.

اکثر اس کے اہل لوگ صرف اپنی عیاری ومکاری،اپنے مفادات،اپنی ذاتی زندگی کی ضروریات کو اس قوم وملک کی بھلائی کا نام دے کر اس قوم ِ ناداں کو دن رات لوٹنے، کھسوٹنے، کھینچنے وگھسیٹنے میں لگے ہوے ہیں، عوام میں مال وزر والا لیڈر کہلاتا ہے، اور بیوروکریسی میں اختیار والا مالک ہے، جو چاہے وہ کرے، یہ قوم ِ غلاماں لیڈروں کی بھی غلام،اور بیوروکریسی کی تو قانوناً غلام ہے، ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، لیکن اسلام اس میں صرف مجبور ومحکوم عوام میں پایا جاتاہے، اور جمہوریت صرف اختیارواقتدار کے مالکوں میں پائی جاتی ہے، کہ ہرایک کو حصہ بقدرِ جثہ مل رہا ہے، لہذایہ دو طبقہ ہائے ملک مل کر اسلامی اور جمہوری کہلارہے ہیں، اوردونوں اجتماعِ ضدین ہیں، یہ ایک دریا کے دونوں کنارے، دریا کے لیے تو ضروری ہیں، لیکن ان میں کبھی ایک ہونا نہیں ہوسکتا جب تک دریا ہی رخ نہ بدل لے،خدا نہ کرے دریا کا رخ بدل گیا تو کنارے تو ایک ہوجائیں گے لیکن خاک ہوکر،پچھلے چالیس سال سے حکومتوں میں رہنے والے لوگ آج بھی حکومت کی زینت ہیں،لیکن وہی لوگ کہہ رہے ہیں.

پچھلی حکومتیں،کرپٹ، چوراور ملک دشمن تھیں، لیکن عجیب بات تو یہ ہے کہ وہی عوام جو پچھلی حکومتوں کے دوران اُن کے لیے دن رات ایک کیے نعرے لگا رہی تھی، آج وہی عوام اِن حکمرانوں کے حق میں نعرے لگا رہی ہے، ان کو سمجھ نہیں آرہی کہ یہی وہ لوگ تھے جو کل ان حکومتوں میں تھے یہی یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ملک کو لوٹ رہے تھے، کیا یہ عوام اندھی ہے یا پھروہ سدا بہار وزراء اندھے ہیں،کہ اب انہیں کسی نے ہاتھی کی دم پکڑاکر بتا یا ہے کہ یہ ہاتھی ہے، مولینا روم علیہ رحمہ نے لکھا ہے کہ کسی جگہ چار اندھے بیٹھے دور کی کوڑی لانے میں مصروف تھے کہ کسی عیار کو شیطانی سوجھی اس نے ان سے جا کر پوچھا اوبھائیو آپ میں سے کسی نے ہاتھی دیکھا ہوا ہے، سب نے کہا نہیں جناب تو اس نے کہا آج میں آپ کو ہاتھی دکھاوں گا، انہوں نے کہا بڑی مہربانی اس نے ایک اندھے کو پکڑااور ہاتھی کی دم اس کے ہاتھ میں دی اورساتھ ہی کہا یہ ہے ہاتھی،اور پھر اسے اپنی جگہ بٹھایا دوسرے کو پکڑا اور اسے ہاتھی کاکان ہاتھ میں تھمایا اوکہا یہ ہاتھی ہے.اسے اپنی جگہ پر بٹھایا، تیسرے کو پکڑاسیڑھی پر چڑھا کر ہاتھی کی پیٹھ پر ہاتھ پھرایا اور اسے کہا یہ ہے ہاتھی، اسے واپس بٹھایا چوتھے کو پکڑا اور ہاتھی کی سونڈھ اس کے ہاتھ میں تھمائی اور کہا یہ ہاتھی ہے،اب سب کو بٹھا کر چلا گیا اوروہ پاکستانی اور آزاد کشمیر کی قوم اب اپنے اپنے علم بھگارنے لگے، ایک بولا اللہ کی کیا شان ہے، ہاتھی کیا بنا یا ڈنڈے کا ڈنڈا ہی ہے، دوسرے اندھے نے قہقہ لگا کر کہا دیکھو اس بے وقوف کو ہاتھی تو چھاج ہی ہے ،تو تیسرے اندھے نے کہا تم نے کیا دیکھا ہے ہاتھی تو میں نے دیکھا ہے وہ تو ایک نلکا سا ہے، ا ب چوتھے نے کہا تو پھرتم نے بھی ہاتھی ہی دیکھا ہے ہاتھی تو میں نے دیکھا ہے وہ تو ایک چٹیل میدان سا ہے، اور ساتھ ہی پاکستانیوں کی طرح لڑنے لگے کہ یہ جھوٹاہے،اوروہ کہے کہ یہ جھوٹا ہے، اوروہ ہاتھی دکھانے والا دور کھڑا تماشہ دیکھ رہا تھا.

آج بھی پاکستان میں ہاتھی دکھانے والے، اس اندھی قوم کا تماشہ کرکے محظوظ ہورہے ہیں، اور خود وہ ہاتھی کے دانت کھانے والے اور اور دکھانے والے اور کی طرح قوم کو دکھانے والے دونتوں کے پیچھے لگا کر خود کھانے والے دانت بنے ہوے ہیں، اور قوم دکھانے والے دانتوں پر نظریں جمائے کھڑی ہے، کہ اب کھائیں تو دیکھیں، اورپاکستان کے اب”ٹنٹھل“ ہی بچے ہیں، تین سال ہوگئے ملک کی بھاگ ڈور سنبھالنے والوں نے جو پہلے دن کہا تھا کہ ہم کیا کریں یہ پچھلی حکومتوں کا گندہے، وہ آج بھی اسی بات پرقائم ہیں، جہاز گرا تو پورے ملک کے پائلٹ ہی جعلی ہوگئے، ریلوے کا حادثہ ہوا تو پچھلی حکومت نے پٹڑیاں کیوں نہ نئی لگائیں، اورجب پچھلی حکومت نے بجلی بنائی تو کہا کہ ہم اسے استعمال کہاں کریں، انہوں نے زیادہ بجلی بناکر ملک کو مصیبت میں ڈال دیا ہے، ملک مہنگائی کی تاریخی سطح پر پہنچ گیا ہے، اگر عوام بولے تو حکمران کہتے ہیں ہم کیہا کریں، پچھلی حکومتوں نے قرضے جو لیے ہوے تھے، ادھر عوام پوچھے تو کیا آپ قرضے نہیں لے رہے ہوتو کہتے ہیں قرض نہ لوں تو قسطیں کیسے ادا کروں، عوام بے چاری اندھوں کی طرح ہاتھی ہی دیکھتی رہ گئی اور ہاتھی کی دم توعوام کے ہاتھ میں رہی مگر ہاتھی نکل گیا، ان لوگوں کو کیا کسی نے زبردستی حکومت دی ہوئی ہے کہ یہ عوام پر احسان کرکے اس پرسوار ہیں اگریہ لوگ واقعی سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت اب چلنے کے قابل نہیں تو یہ اسے چھوڑ کیوں نہیں دیتے، اورعوام کو موقع کیوں نہیں دیتے کہ وہ یہ ذمہ داری کسی اہل کے سپردکریں، جو اس بات کی ذمہ داری لے سکے کہ وہ عوام کی مشکلات کو کم کرے گا، لیکن ایسا ہاتھی دکھانے والے اس اندھی عوام کو نہیں کرنے دیں گے، توپھر آپ ہی بتائیں کہ ابلیس کیسے نہ اللہ سے عرض کرے کہ بار الٰہ اب تو مجھ پررحم کر اور مجھے آسمانی دنیا میں واپس آنے دے کہ اب میری ضروت تو اس خاک دان میں کیا ہے، اللہ تعالیٰ اس قومِ غلاماں پررحم فرمائے آمیں، وما علی الاالبلاغ

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*