علمِ حاضرسے ہے دیں زاروزبوں۔

تحریر : قاری محمدعبدالرحیم
آج پوری دنیا میں علم بقول علمائے دنیا عروج پر ہے، اوریہ علم یورپ وامریکہ کا توایک امتیاز ہے، بجاطور پر پر آج امریکی بھی پرانے عربوں کی طرح باقی دنیا کو ”گونگے“ کہہ سکتے ہیں، لیکن علم جب دیں سے خالی ہوتو وہ بھی سمِ قاتل ہوتا ہے، اللہ نے شیطان کو علم تو دیا، لیکن اسے دین نہ دیا،شیطان نے اپنے علم کی بنا پر آدم سے اپنے آپ کو تخلیقاً ارفع سمجھا،اور سجدے سے گریز کیا، جنت میں علم کی تخمین بازی سے شجرِ ممنوعہ کو شجرِ حیات سمجھ بیٹھا، اور پھر اس کاتجربہ آدم، پر جھوٹ بول کر ہی نہیں قسم اٹھا کر جھوٹ بولا کہ یہ کھانے سے تم فرشتے بن جاو گے، یا ہمیشہ کے لیے زندہ رہوگے آج کا بے دین علم بھی اسی شیطانی روش پرچل رہا ہے، اس لیے ہر تخمین وظن کو انسانوں، حیوانوں اور ماحولیات پر جھوٹ بول کر کہ اس سے انسان وحیوان اور ماحول ہمیشہ کے لیے خوشحال رہیں گے،

انسانوں کی فلاح وبہبود کے لیے، صحت وغذائیت کے لیے، شیطانی سائنس عجیب وغریب تجربات کررہی ہے، کبھی کہتے ہیں خلا میں جا کر ادویات بہتر بنیں گئیں، کبھی درختوں کو کاٹتے ہیں کبھی لگاتے ہیں، اوزون کا رولا پڑا ہوتا ہے کہ تہہ ٹوٹ پھوٹ رہی ہے،، اور ساتھ ہی مختلف خلائی مہمات کے لیے ایندھن وبارود سے بھرے راکٹ اوزون کی تہہ سے گذارے جارہے ہیں، زمین پر لوگ بھوک وپیا س سے مررہے ہیں لیکن سائنسدان خلائی مہمات پر کھربوں ڈالر خرچ کررہے ہیں، شیطان کی طرح سائنس بھی شجرِ حیات کی تلاش میں کئی زندگیوں کو بھینٹ چڑھا چکی ہے، اورہمیشہ رہنے کی ہوس سے کئی لوگوں کو قبل ازوقت ہی موت کے پنجے میں پھنسا چکی ہے، آج کل کوروناوائرس بھی اسی علمی تخمین بازی کا ایک ہوا ہے، اوراب اس کی ویکسین بھی ایک علمی تخمین بازی کا کھیل ہے، جس کے فوائدخود ویکسین سازوں کے علم میں بھی کورونا پر نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن اس سے بقول ان کے اگر کورونا ہوبھی گیا تو مریض کو تکالیف کم ہوں گی، اور اس کے سائیڈ افیکٹس سے تو کسی کو بھی انکار نہیں ہے، لیکن چلو یہ تو امریکیوں اور ان کے حواریوں کا معاملہ ہے، لیکن پاکستان میں اس علمِ حاضر کا اثر علمائے دین اور پوری پاکستانی مسلم قوم پر بھی ہوچکا ہے جس سے دین زاروزبوں ہورہا ہے،پچھلے دنوں ایک نوبل انعام یافتہ، نے کسی انٹرویو میں اپنے اندر کی بات بتا دی، کہ کسی کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے (یعنی اس سے جنسی لذت حاصل کرنے کے لیے) کسی نکاح نامے کی کیا ضرورت ہے؟

علماء اور عوام کے جو بھی اس کے بارے میں موقف ہے وہ اپنی جگہ، لیکن میراسوال ہے کہ اگر نوبل انعام یا فتہ ہونے کے لیے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے، یعنی جو انعام آپکو نہیں مل رہا ہے صرف اس کا سرٹیفیکیٹ آپ کے پاس ہے اس میں سے ایک پائی بھی آپ کو نہیں ملے گی، اس کا سرٹیفیکیٹ تو ہونا چاہیے اور جس سے سے آپ لذتِ نفس حاصل کریں گی اس کے لیے سرٹیفیکیٹ کیوں نہیں ہونا چاہیے،؟اسلام ایک دین ہے اور دین بھی لوگوں کا بنایا ہوا نہیں بلکہ یہ اس خالقِ کائنات کا بھیجا ہوا ہے جس کی یہ دنیا اور تمام عالم تخلیق ہیں، اور اس سے بڑھ کر کوئی عقل ودانش والا کسی اچھائی یا برائی کو نہیں سمجھ سکتا، اوردین وہ ہوتا ہے جس پر عقل وشعور سے نہیں، ایمان اوریقین کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے، ہر مسلم وکافر اس بات کو جانتا ہے، کہ کوئی طاقت ہے،جو انسان کی پیدائش وموت پرقادر ہے، سائنس لاکھ جتن بھی کرے تو موت کا وقت نہیں ٹال سکتی، نہ ہی کسی مردہ کو زندہ کرسکتی ہے، بلکہ دسیوں سالوں سے لوگوں کو پولیو کی ویکسین پلا پلا کر لوگوں کو پولیو زدہ ہونے سے بھی نہیں بچا سکی،

آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی لوگ اتنے ہی پولیو زدہ ہیں جتنے ہمارے صوبہ خیبر پختون خواہ میں ہیں، علمائے اسلام ہر سائنسی تخمین وظن کو قران واحادیث سے ثابت کرکے،ملالہ جیسیوں کے لیے نوبل انعام کی راہ ہموار کرنے میں لگے رہتے ہیں، باوجود اس کے آج تک کسی مولوی کو نوبل انعام نہیں دیا گیا، حالانکہ ہمارے مفتی قوی نے بھی ملالہ کے مشابہ نکاح کے بغیر ساتھ رہنے کے شرعی دلائل بھی دئیے ہیں، اور پھرقندیل بلوچ اور حریم شاہ سے ٹک ٹاک بھی بنوائی ہے، لیکن ظالم یہودیوں نے انہیں پھر بھی نوبل انعام کے لیے نامزد نہیں کیا،لہذامخلص علمائے امت سے میری گزارش ہے کہ خدارا اس امت پررحم کرو،اور اسے علمِ حاضر کے چنگل سے نکالو!، علم وہی نہیں جس سے اسائشاتِ دنیا ہی حاصل ہوں یا جوجنگ ودفاع کے لیے اسلحہ کے انبار بنا سکتا ہو، بلکہ وہ بھی علم ہے جس سے دنیا بغیر اسلحہ کے بھی فتح ہوجاتی ہے، اوروہ ہے اسلام کا علم، اس سے دنیا کی تمام انسانی مجبوریوں،اور ضرورتوں کا حل نکل سکتا ہے، لیکن جب اسلام کوکسی اورعلم کے تابع نہ کیا جائے، آج علمائے امت اگر صرف اس کورونا کے غیر منطقی وبائی طرز پر صرف اعتراض ہی کریں تو آدھی دنیا اسلام کی بات سے اتفاق کر لے گی، لیکن جب اسلام کے اندر سے یہ آوازیں اٹھنے لگیں کہ کورونا کی چائینی ویکسین لگے ہووں کو حج کی اجازت نہیں ہوگی،توپھران مسلمانوں نے کشمیروفلسطین کے بارے میں کیا کرنا ہے، کہ وہ تو واقعی اسلحے سے لڑی جانے والی جنگ ہے،

یہ زبانی انکار کی بھی جرات نہیں کرسکتے، اسلحے کے سامنے توپھر کیا کرسکتے ہیں، لہذامسلمان ہونے کے لیے پہلا لفظ جوہے وہ انکار پر مبنی ہے، جو لوگ جراتِ انکار سے خالی ہیں، وہ اسلام کے بھی صرف نام لیوا ہیں،نہ کہ اسلام کے پیروکار اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو علمِ حاضر سے اپنے دین کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین، وما علی الالالبلاغ۔

تعارف: قاری محمد عبدالرحیم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*