تحریر : رانا علی زوہیب
18 دسمبر 2018کو ایک ہندوستانی لڑکا جسکا نام ”حامد نہال انصاری“ تھا کو مردان جیل سے رہا کرکے انڈیا واپس بھیج دیا گیا ۔ حامد نہال انصاری کی رہائی کی خبر سنتے ہوئے تمام پاکستانی میڈیا نے خبر بریک کی کہ ”بھارتی جاسوس حامد نہال انصاری“ کو تین سال بعد رہا کردیا گیا ہے ۔ ٹی وی پر خبر دیکھی تو فورا سے زہن میں خیال آیا کہ اگر حامد نہال انصاری جاسوس تھا تو تین سال بعد چھوٹ کیسے گیا ؟ اس سوال نے سوچنے پر مجبور کیا اور میں سچائی کی تلاش میں نکل پڑا ۔
سوال زہن میں صرف ایک تھا کہ اگر حامد نہال انصاری جاسوس تھا تو چھوٹ کیسے گیا ، اگر جاسوس نہیں تھا تو اسکے نام کے ساتھ ”جاسوس“ کیوں لگایا گیا ؟
حامد نہال انصاری کون تھا ؟ پاکستان کیسے آیا ؟ کس کے لیے پاکستان آیا ؟ پاکستان آنے کے بعد اسکے ساتھ کیا سلوک کیا گیا ؟ حامد نہال انصاری کا کیس کب اور کیسے عدالت میں لگا ؟ سزا کیوں ہوئی ؟ کتنی سزا ہوئی ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ایک عام قاری کے زہن میں آتے ہیں جب وہ اس طرح کی خبر ٹی وی پر دیکھتا ہے یا پڑھتا ہے ۔ ان سب کے جوابات اپنے قارئین کی نظر کیے دیتا ہوں ۔
حامد نہال انصاری ممبئی کا رہنے والا ہے ۔ حامد انصاری کے والد کا نام نہال انصاری اور والدہ کا نام فوزیہ انصاری ہے ، حامد کی والدہ فوزیہ انصاری محکمہ تعلیم کے شعبہ سے وابستہ ہیں ۔ حامد نہال انصاری انجنئیرنگ کا طالب تھا ۔
فیسبک کے زریعے حامد نہال انصاری کی دوستی ایک پاکستانی لڑکی سے ہو گئی جو چند ماہ کے بعد محبت میں تبدیل ہوگئی ۔ لڑکی کا تعلق پاکستان کے علاقہ کرک(کوہاٹ) سے تھا ۔ فیسبک پر محبت نے جوش پکڑا تو لڑکی نے حامد کو پاکستان آنے کی دعوت دے ڈالی ۔ حامد انصاری نے پاکستان آنے کے لیے تگ و دو کی لیکن اسے جلدی علم ہوگیا کہ پاکستان میں جانا آسان کام نہیں ہے اس لیے اس نے افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہونے کاارادہ کیا ۔
اکتوبر 2012 کو حامد نہال انصاری اپنے اصل پاسپورٹ پر ویزہ لیے افغانستان پہنچا ۔ افغانستان میں حامد نے جعلی پاکستانی شناختی کارڈ بنوایا ۔ جعلی شناختی کارڈ ”حمزہ“ کے نام سے بنایا گیا اور اس جعلی شناختی کارڈ کے ساتھ جلال آباد کے کچے پکے راستوں سے ہوتا ہوا کوہاٹ پہنچ گیا ۔ کوہاٹ پہنچ کر لڑکی کے رشتہ داروں کی طرف دو دن حامد نہال انصاری رُکا ۔
14 نومبر 2012 کو لڑکی کے رشتہ داروں کے گھر سے نکل کر حامد نہال انصاری نے ”پلوشاں ہوٹل“ کوہاٹ میں ”حمزہ“ کے نام سے چیک ان کیا ۔
حامد پلوشاں ہوٹل میں تھا اور لڑکی نے اپنے گھر والوں کو حامد کے بارے میں بتا دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ وہ کس جگہ پر ٹھہرا ہے ، لڑکی نے اپنی فیملی کو شادی کی غرض سے بتایا لیکن فیملی نے اس کی ایک نہ سُنی اور ایجنسز کو خبر کردی ۔
14 نومبر2012 کو عشاء کے وقت پاکستان کی سکیورٹی ایجنسز نے کے ڈی اے کے لوکل تھانے کے کانسٹیبل کے ہمراہ پلوشاں ہوٹل پر چھاپہ مارا اور حامد انصاری کو اپنی تحویل میں لے لیا ۔ ہوٹل انتظامیہ سے پوچھ گچھ کی گئی ، جس رجسٹر میں اسکا اندراج تھا اسے بھی تحویل میں لے لیا گیا ۔
حامد کے غائب ہونے کے بعد انڈیا میں حامد کی فیملی کی پتا چلا کہ وہ غائب ہوگیا ہے تو اسکی ماں نے میڈیا کے زریعے پاکستانی حکومت کو درخواست کی ۔ لیکن حامد کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں ہے اورکس حال میں ہے ۔ ؟ نجی ٹی وی چینل کی رپورٹر ”زینت شہزادی “ جسکا تعلق لاہور سے تھا اسکا رابطہ فیسبک کے زریعے حامد کی ماں سے ہوا ۔ حامد کی ماں نے سارا قصہ زینت شہزادی کو سنایا اور اس سے اپیل کی کہ وہ پاکستان میں میرے بیٹے کو ڈھونڈنے میں مدد کرے ۔ ”زینت شہزادی“ صحافی کے ساتھ ساتھ ایک ہیومن رائٹ ایکٹوسٹ بھی تھی۔ زینت شہزادی نے حامد کی ماں سے ”پاور آف اٹارنی“ کی ڈیمانڈ کی جس کی بنا پر زینت پاکستان میں حامد کے لیے تگ و دو کر سکتی ۔ حامد کی ماں نے ممبئی سے پاور آف اٹارنی تیار کیا ، اوتھ کمشنر سے اٹیسٹڈ کروانے کے بعد تمام لیگل کام مکمل کرکے زینت کو پاور آف اٹارنی بھیج دیا ۔
زینت شہزادی نے پاور آف اٹارنی لیا اور پشاور چلی گئی ۔ وہ پشاور میں مشہور وکیل اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر ”قاضی محمد انور“ کے دفتر پہنچی ۔ شاید وہ جانتی تھی کہ قاضی انور کے علاوہ انکا کیس کوئی نہیں لے گا ۔ زینت نے قاضی انور کے ساتھ تمام معاملہ ڈسکس کیا اور درخواست کی کہ وہ حامد کو ڈھونڈنے میں مدد کریں ۔
قاضی انور نے دسمبر 2012 میں پشاور ہائیکورٹ میں پہلی رٹ دائر کی ، رٹ مسنگ پرسن کے حوالے سے دائر کی گئی ۔ پشاور ہائیکورٹ نے پاکستان کی تمام سکیورٹی ایجنسز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے رپورٹ طلب کی ۔ تقریبا دس مہینے تک مختلف ایجنسیوں کو نوٹس جاتے رہے ، آئی ایس آئی کا جواب آیا ہمارے پاس نہیں ، ایم آئی کا جواب آیا کہ ہمارے پاس نہیں ہے اور یہ سلسلہ فروری 2014 تک چلا ۔ فروری 2014 میں پشاور ہائیکورٹ نے یہ کہہ کر رٹ ڈسمس کردی کہ جو بندہ مسنگ ہے ”حامد نہال انصاری“ جسکا نام ”حمزہ“ ظاہر کیا جا رہا ہے اسکا کوئی کاغذی ثبوت موجود نہیں ہے کہ وہ پاکستان میں داخل بھی ہوا ہے یا نہیں ۔؟ پاکستان میں کوئی حمزہ نامی شخص کو اون کرنے کو تیار نہیں ، لہذا پشاور ہائیکورٹ میں کی گئی پہلی رٹ ختم کردی گئی ۔
کچھ عرصہ گزرا اور زینت شہزادی نے قاضی انور سے رابطہ کیا اور کہا کہ ” ایک ڈاکومنٹ ایسا ہاتھ لگا ہے جس سے ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ حامد نہال انصاری یا حمزہ پاکستان میں داخل ہوا ہے “ ۔ زینت شہزادی نے قاضی انور سے مل کر انہیں پولیس اسٹیشن کے روزنامچے کا صفحہ دکھایا۔ یہ روزنامچے کا صفحہ اسی پولیس اسٹیشن کا تھا جہاں سے سکیورٹی ایجنسز ایک کانسٹیبل کو اپنے ہمراہ لے کے پلوشاں ہوٹل میں چھاپا مارنے گئے ۔ اس روزنامچے میں کانسٹیبل نے درج کیا کہ ” میں ۔۔۔۔ پاکستان کی سکیورٹی ایجنسز جن کے نام مجھے معلوم نہیں انکے ساتھ پلوشاں ہوٹل جا رہا ہوں ، اسی طرح اس نے واپس آکر اسی روزنامچے میں درج کیا کہ میں ۔۔۔ سکیورٹی ایجنسز کے ساتھ گیا ، ہم نے پلوشاں ہوٹل کے کمرہ نمبر فلاں میں چھاپا مارا اور ”حمزہ“ نامی انڈین لڑکے کو گرفتار کیا ۔ اس لڑکے کو ایجنسز والے اپنے ساتھ لے گئے ۔“
قاضی انور نے پھر پشاور ہائیکورٹ کا رُخ کیا اور رٹ دائر کی کہ پولیس اسٹیشن سے اس کانسٹیبل کو بلایا جائے اور اس سے پوچھا جائے کہ لڑکا کہاں ہے اور ایجنسز والے کونسے تھے ، پشاور ہائیکورٹ نے نوٹس جاری کیا اور کانسٹیبل کو عدالت میں طلب کیا گیا جہاں اس نے من و عن اس روزنامچے کو قبول کیا اور ساری کہانی جج کے سامنے کھول کر رکھ دی ۔ پولیس کی طرف سے عدالت میں بیان حلفی بھی جمع کروایا گیا جس میں یہ لکھا گیا کہ روزنامچے میں جو کچھ بھی درج ہے بالکل سچ ہے ۔
عدالت نے تمام صورت حال کو دیکھ کر منسٹری آف ڈیفنس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ۔ منسٹری آف ڈیفنس کو نوٹس جاری ہوناتھا کہ لاہور سے ”زینت شہزادی“ کو اغواء کرلیا گیا اور اسے بھی غائب کردیا گیا ۔ زینت شہزادی کا آج تک پتا نہیں چل سکا کہ اسے کس نے اغواء کیا۔ بہن کے اغواء کے بعد اسکے بھائی نے خودکشی کرلی ۔ بھائی نے خود کشی کیوں کی وہ ایک الگ معاملہ ہے ۔ اس کیس میں قاضی انور کے ساتھ زینت کا ساتھ یہیں تک تھا ۔ اسکے بعد زینت کے ساتھ کیا ہوا یہ کسی کو بھی علم نہیں ہے ۔
اگست 2015 میں منسٹری آف ڈیفنس نے اٹارنی جنرل کے زریعے تحریری جواب ہائیکورٹ میں جمع کروایا جس میں لکھا گیا کہ ” حامد نہال انصاری“ جو کہ حمزہ نامی شخص کے نام سے پاکستان میں داخل ہوا ہے وہ ”پاکستان آرمی “ کے پاس ہے اور اسکا مقدمہ ”ملٹری کورٹ“ میں شروع ہوچکا ہے ۔ “
منسٹری آف دیفنس کے جواب کے بعد پشاور ہائیکورٹ نے مسنگ پرسن کے حوالے سے مقدمہ ختم کردیا اور فاضل جج صاحبان نے فرمایا ”اب چونکہ ہمیں پتا چل چکا ہے کہ حمزہ فوج کے پاس ہے اور اسکا مقدمہ ملٹری کورٹ میں ہے تو اب یہ مسنگ کا معاملہ نہیں رہا ، لہذا یہ مسنگ پرسن والا مقدمہ خارج کیا جاتا ہے “ ۔ پشاور ہائیکورٹ نے مقدمہ خارج کردیا ۔ انڈیا میں حامد کے گھر والوں کو بھی بتا دیا گیا کہ حامد پاکستان آرمی کی تحویل میں ہے اور اسکا کیس کورٹ میں چل رہا ہے ۔
دسمبر 2015 میں قاضی انور اپنی زوجہ کے ہمراہ عمرے کے لیے سعودی عرب روانہ ہو گئے ۔ سعودی عرب میں قاضی انور نے ٹی وی پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان سنا جس میں کہا گیا کہ انڈین جاسوس ”حامد نہال انصاری“ کو تین سال قید با مشقت سنائی گئی ہے ۔ اور اسے پشاور جیل منتقل کردیا گیا ہے ۔
پاکستان واپسی پر قاضی انور نے سپرنٹنڈنٹ جیل مسعود الرحمن سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ مجھے ”حامد انصاری“ سے ملنے کی اجازت دی جائے ۔ اب چونکہ حامد ایک سول معاملے میں آچکا تھا ، فوج کا کردار ختم ہوچکا تھا تو قاضی انورکو حامد سے ملنے کی اجازت مل گئی ۔
قاضی انور پشاور جیل گئے اور حامد سے ملاقات کی ۔ حامد انصاری کو ڈیتھ سیل میں رکھا گیا تھا ۔ حامد کے جیل وارنٹ پر جو دفعات لگیں تھیں اس میں اصل شناخت کو چھپانا ، جعلی شناخت کے ساتھ داخل ہونا اور اینٹی سٹیٹ ایکٹیویٹی کی دفعات شامل کی گئی تھیں ۔ملاقات میں قاضی صاحب نے حامد کو سورة یوسف کی تلاوت کاکہا کہ وہ اسکو پڑھا کرے ، حامد نہال انصاری کا تعلق مسلم فیملی سے تھا ۔
واپسی پر قاضی انور نے پھر پشاور ہائیکورٹ کا رخ کیا اور استدعا کی کہ حامد انصاری کو ڈیتھ سیل سے نکال کر عام لوگوں کی طرح ٹریٹ کیا جائے ۔ قاضی انور کی درخواست منظور کرتے ہوئے ہائیکورٹ نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو حکم دیا کہ حامد کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کیا جائے اسے کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہو چاہیے ۔
2016 میں قاضی انور اپنی فیملی کے ہمراہ نتھیا گلی میں گرمیوں کی چھٹیاں منا رہے تھے کہ ہیومن رائٹ ایکٹیوسٹ ”میڈم رخشندہ“ نے قاضی انور کو بتایا کہ جیل میں حامد انصاری پر پھر سے حملہ کیا گیا ہے ۔ قاضی انور نے مسعود الرحمن کو فون کیا اور پوچھا کہ کیا معاملہ پیش آیا ؟ جس پر جیل سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ جس کانسٹیبل نے حامد انصاری پر حملہ کیا ہے اسے معطل کرکے انکوائری لگا دی گئی ہے اور حامد کو اسپتال پہنچا کر طبی امداد دی جا رہی ہے ۔ قاضی انور نے فورا یہ معاملہ پھر سے پشاور ہائیکورٹ میں اٹھایا ، ہائیکورٹ نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو بلایا اور سختی سے حکم دیا کہ حامد کو اب دوبارہ اس سیل میں نہ ڈالا جائے اور اسے عام انسانوں کی طرح ٹریٹ کیا جائے ۔ یوں حامد انصاری کو ڈیتھ سیل سے نکال کر عام قیدیوں کی طرح سلوک کیا جانے لگا ۔
قاضی انور نے مسعود الرحمن سے پوچھا کہ حامد کی سزا کب مکمل ہوگی اور اسے کب رہا کیا جائے گا ؟ جس پر جیلر نے کہا کہ 15 دسمبر 2018 کو اسکی سزا مکمل ہوگی اور 16 دسمبر 2018 کو حامد کو رہا کردیا جائے گا ۔
قاضی انور صاحب نے 382B سی آر پی سی کے تحت آرڈنری رمیشن کی درخواست دائر کی تو جی ایچ کیو سے جواب آگیا کہ چونکہ حامد کی دفعات میں اینٹی سٹیٹ ایکٹیویٹی کی دفعہ شامل ہے اس لیے اس پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا ۔ اس لیے حامد کو اپنی سزا کے تین سال پورے کرنا ہی ہیں ۔
حامد نہال انصاری کی رہائی سے ایک ہفتہ قبل قاضی انور نے جیل اتھارٹی سے رابطہ کیا اور خواہش ظاہر کی کہ وہ حامد انصاری سے ملنا چاہتے ہیں ، جیل حکام نے بتایا کہ آپ اکیلے نہیں مل سکتے بلکہ آپ کی ملاقات کے دوران ایم آئی کے دو نمائندے موجود ہوں گے آپ ان کے سامنے ملاقات کریں گے ۔ 8دسمبر کو ہفتے کے روز قاضی انور جب حامد سے ملنے جیل پہنچے تو مردان جیل میں ایم آئی کے دو نمائندے موجود تھے ۔ قاضی انور نے ملاقات کی اور ملاقات کے دوران وہ بھانپ گئے کہ حامد انصاری کی سزا پوری ہونے کے بعد بھی یہ (ایجنسز) اسے نہیں چھوڑیں گے ۔
قاضی انور نے جیل حکام سے اجازت لے کر حامد انصاری سے وکالت نامہ سائن کروایا اور 10 دسمبر کو قاضی انور نے پشاور ہائیکورٹ میں پھر رٹ دائر کردی کہ ” اس بات کو اشورکیا جائے کہ حامد کو سزا پوری ہونے پر چھوڑ دیا جائے گا “ ۔ پشاور ہائیکورٹ نے 11 دسمبر کو کورٹ فکس کی اور وفاقی حکومت سے 13 دسمبر تک جواب طلب کرلیا ۔ 13دسمبر کو وفاقی حکومت کا نمائندہ عدالت میں پیش ہوا اور اس نے عدالت کو بتایا کہ ” حامد کی رہائی ممکن نہیں ہے ، ہم اسکو نہیں چھوڑ سکتے “ ۔
یہ سننا تھا کہ حامد کی رہائی کی امید پھر غائب ہونے لگی ۔ جب ان سے وضاحت مانگی گئی کہ کیوں نہیں چھوڑ سکتے تو نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ حامد نہال انصاری کو کس حیثیت سے چھوڑیں ، جب اسکے پاس پاکستان کا کوئی ڈاکومنٹ ہی موجود نہیں ، کوئی شناخت ہی موجود نہیں ، یہ چھوٹ کر جائے گا کہاں اور بارڈر کیسے کراس کرے گا ؟ انڈین گورئمنٹ کیسے اسکو اپنی حدود میں داخل ہونے دے گی ؟ جس پر قاضی انور نے فاضل عدالت کو 12 مئی 2008 کا پاکستان اور انڈیا کا وہ معاہدہ پڑھ کر سنایا جس میں انڈیا اور پاکستان کے قیدیوں کی رہائی کے معاملات اور بندوبست کا زکر تھا ۔اس معاہدے کے مطابق کوئی بھی قیدی خواہ وہ انڈیا کا ہو یا پاکستانی ، اگر اسکے پاس ٹریول ڈاکومنٹ نہیں ہیں تو اسکو اس ملک کے ہائی کمیشن کے حوالے کیا جائے گا اور ہائی کمیشن اسکے ڈاکومنٹ تیار کروانے یا ڈائریکٹ بھیجنے کا مجاز ہوگا اور یہ سارا پراسیس واہگہ بارڈر کے زریعے کیا جائے گا کسی دوسرے راستے سے کام سر انجام نہیں دیا جائے گا ۔ قاضی انور نے عدالت سے استدعا کی عدالت یہ حکم دے کہ انٹیرئر منسٹری حامد انصاری کو انڈین ہائی کمیشن کے حوالے کرے اور انڈین ہائی کمیشن اپنی کسٹڈی میں واہگہ کے زریعے حامد کو انڈیا واپس پہنچائے ۔ جس پر عدالت نے قاضی انور کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے سزا مکمل ہونے پر حامد کو انڈین ہائی کمیشن کے حوالے کرنے کا حکم دیا ۔
15دسمبر کو حامد انصاری کی سزا مکمل ہوئی ، سولہ دسمبر کو اتوار تھا ، اسلیے حامد سولہ کو رہا نہ ہو سکا ، سترہ دسمبر کو بھی حامد کو رہا نہ کیا گیا ، قاضی انور نے جب جیل حکام سے رابطہ کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ حامد کے لیٹسٹ ٹریول ڈاکومنٹ بنانے کے لیے پراسیس جاری ہے اور جلد مکمل ہونے کے بعد اسے رہا کردیا جائے گا ۔ حامد کی حالیہ تصویر لی گئی اور 18 دسمبر کو انٹیرئر منسٹری کا سکارڈ مردان جیل پہنچا جہاں سے حامد نہال انصاری کو جیل سے رہا کردیا گیا اور 03:30 بجے اٹھارہ دسمبر کو واہگہ بارڈر پر انڈین حکام کے حوالے کیا گیا ۔
حامد کا فیسبک کا ریکارڈ یہ بتاتا تھا کہ وہ جاسوس نہیں ہے بلکہ ایک لڑکی کے چکر میں سرحد پار کرکے چلا آیا ، اپنی اصل شناخت چھپانا ، پھر جعلی شناخت کے ساتھ کسی دوسری سٹیٹ میں گھس جانا بلا شبہ یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ انسان کسی اینٹی سٹیٹ ایکٹیویٹی میں ملوث ہو سکتا ہے ۔ اس لیے پاکستان کی سکیورٹی ایجنسز نے اپنا کام کیا اور احسن طریقے سے کیا ۔
”آپ انسان نہیں فرشتہ ہیں “ یہ وہ الفاظ ہیں جو حامد انصاری کی ماں نے اپنے بیٹے کو واپس پا کر ”قاضی محمد انور “ کے لیے شکریہ کے طور پر ادا کیے ۔
اکثر کالمز اور آرٹیکلز خشک مزاجی کے باعث قاری کی توجہ حاصل نہیں کر پاتے لیکن میں رانا صاحب کو داد دینا چاہوں گا نا صرف یہ کہ انہوں نے ایسے موضوع کا انتخاب کیا اور اس کے لیے باقاعدہ ریسرچ کی بلکہ اسے لکھتے ہوئے کہیں بھی خشک نہیں ہونے دیا۔ اول تا آخر قاری کو باندھے رکھا۔ سوالیہ عنوان لیے یہ آرٹیکل آج کی نوجوان نسل کے لیے پڑھنا بے حد ضروری ہے کہ پیار محبت زندگی کی حقیقت ہے لیکن یہ فلم کی کہانی نہیں حقیقی زندگی ہے جہاں ایسے شناخت تبدیل کرکے بارڈر کراس کرنا ایڈونچر نہیں جرم ہے۔ نہ صرف آپ کی شناخت اور شخصیت بلکہ آپ سے متعلقہ ہر فرد کی شناخت مشکوک ہوجاتی ہے۔
ہم سب ہی جانتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کی سالوں سے چلتی آئی اس کشیدگی میں ہمیشہ نقصان عوام کا ہوا ہے یہاں بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ عام شخص جس نے ایک دوسرے ملک میں داخل ہونے کے لیے غلط راستے کا انتخاب کیا اور اس کے لیے سزا بھی کاٹی۔ یہاں پر پاک آرمی اور متعلقہ ایجنسیز نے بھی اپنے فرائض دیانت داری سے انجام دیے اور قاضی انور نے اپنے پیشے سے وفاداری کا مظاہرہ کیا۔
ایسے موضوعات پر لکھا جانا چاہیے ایسی حقیقی کہانیاں سنائی جانی چاہیے تاکہ لوگ ان سے سیکھیں۔
زارون علی