قاری محمدعبدالرحیم
رمضان شریف اختتام پذیر ہورہا ہے، اورکورونا بھی لہردرلہرہمارے حکمرانوں کے دماغوں پر چھارہا ہے، اللہ تعالیٰ نے قرانِ پاک میں فرمایا ہے کہ”یاجیسے کسی گہرے سمندر میں تاریکیاں ہوں،جس کواوپرسے ایک موج (لہر)نے ڈھانپ لیاہو، اس موج پر ایک او موج ہو،اور موج پر با د ل ہو، یعنی اندھیرے ہی اندھیرے ہیں، ایک کے اوپردوسرا اندھیراہے کہ جب کوئی اپناہاتھ نکالے تواسے اپنا ہاتھ بھی سجھائی نہ دے، اورجس کے لیے اللہ نور نہ بنائے اس کے لیے کوئی نور نہیں“ (سورہ نور)اورچونکہ ہم تمام قوم اللہ کے بجائے، دنیاوی ذرائع پر زیادہ متمکن ہیں لہذاکورونا بھی ہماری اس کمزوری سے واقف ہوگیا ہے، وہ جب بھی امتِ مسلمہ کی کسی اجتماعی عبادت وعید کو آتے دیکھتا ہے تو لہر کے اوپر لہر بن کر ہمارے حکمرانوں کے دماغوں پر چڑھ دوڑتا ہے، اور ساتھ ہی عالمی دباو کا بادل بھی گنگھور گھٹابن کر گرجنے لگتاہے، اب پھر شعور کا ہاتھ بھی ہم کو سجھائی نہیں دیتا، اورعوام بے چارے اس ظلماتِ ثلاثہ میں کہ مرض کے خوف کا اندھیرا، پابندیوں کے خوف کا اندھیرا، اور بھوک اورافلاس کی گنگھور گھٹا کااندھیراکہ اس میں،زندگی بھی سوجھ نہیں رہی، آدھی آبادی تو ہماری پہلے ہی غربت کی لکیر کے نیچے تھی، اب سوائے سرکاری ملازمان کے باقی دوتہائی آبادی بھی غربت کی لکیر کے نیچے کیا موت کی لکیر کے نیچے دم بخود پڑی ہے، ساتھ ہی ہمارے اندرجوذرا جیتے ہیں ان میں تکبراورنخوت پھڑپھڑارہا ہے،کہ ہرصاحبِ ثروت لوگوں کوگھوررہاہے بازاروں میں، رمضان وعید کی وجہ سے پیشہ ور بھکاریوں جن میں ngoبھی شامل ہیں وہ بھی لوگوں کومتوجہ کررہی ہیں لیکن دوسری طرف وہ سفید پوش، جو شاید مانگنے کی اہلیت نہیں رکھتا،لیکن بھوک سے بلکتے بچے تو جانور بھی نہیں دیکھ سکتا،چہ جائے کہ ایک انسان، کچھ تو اس ذلت سے بچنے کے لیےء خودکشیاں کرلیتے ہیں، کچھ بچوں کوبھی اپنے ساتھ موت کے دامن میں لے جاتے ہیں،پھران کے مرنے پر میری قوم کے سچے مسلمان حرام موت کے فتوے دیتے ہیں، لیکن اپنی زندگی کے بارے میں نہیں کہتے کہ ہم حرام زندگی جی رہے ہیں، کہ ہم اللہ اوراللہ کے رسولﷺ کے ہرحکم کی خلاف ورزی کررہے ہیں، ایسی حرام زندگی سے تو حرام موت ہی بہتر ہے، لہذاوہ موت سے سخت لمحات سے گزرنے والا کوئی بندہ جب بھرے بازارمیں لوگوں کی طرف دیکھتا ہے تواس کی ان ملتجی نظروں کی تاب توشایدفرشتے بھی نہ لاسکتے ہوں، لیکن میرا سنگدل مومن اس کی ہٹی کٹی حالت پرہنستا ہے، صحافی اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو نبھاتا ہے اور لکھتا ہے، بازاروں میں مانگنے والوں کا رش لگا ہے، لیکن انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، اورانتظامیہ جب اپنی خاموشی توڑتی ہے توپیشہ ور اور عام سب کو اٹھا لیتی ہے، اورجس کے پاس جوہے وہ اس سے لے لیتی ہے، کہ اس میں حق ہمارابھی ہے، تم کل اور مانگ لینا، کورونا کے زمانے میں یہ تیسری عید گزررہی ہے، کہ غریب اور غیرت مند مجبورلوگ عید نہ آنے کی دعائیں مانگتے ہیں،کہ بچوں کا سامنا کیسے کریں گے،کہ کورونا کے نام پرکاروبار بند، مہنگائی کا طوفان، کہ متوسط طبقہ بھی گھٹنوں کے بل ہوگیا ہے، لیکن آئیے رمضان شریف کا صدقہ میرے آقاﷺ نے فطرانہ مقرر کرکے اس بات کی راہ بنادی کہ میری امت کا غریب عید سے ڈرے نا، میں محمد ﷺموجود ہوں جس کو تم سے زیادہ تمہارے بچوں کا خیال ہے، کہ میرے اللہ نے فرمایا ہوا ہے کہ ”النبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم“کہ نبی ﷺ مومنوں کی جانوں سے بھی زیادہ ان کے نزدیک ہیں،جانوں میں بسنے والے نے بے گناہ جانوں کو ترسنے نہ دیا، یہ صدقہ فطر مقرر کردیاہے،لہذاصدقہ فطر اپنے اردگرد کے ایسے لوگوں جن کو تم چہروں سے پہچانو کہ مجبور ہیں وہ لوگوں سے لپٹ کر مانگتے نہیں ان کو دو، یہ بڑی بڑی تنظیمیں، یہ ٹرسٹ، یہ ادارے اس کے مستحق نہیں، خدارا اللہ کے رسول ﷺ کی روح کو شرمندہ نہ کرو،کہ علامہ اقبال مے کہا تھا ”امتی باعثِ رسوائی ِ پیغمبر ہیں“کہ آج میرے نبی ﷺ کی امت پر شیطانی دنیا ایک خوف کو مسلط کرکے ان کے بھوکوں مرنے کا تماشہ کررہی ہے، لہذااگر آپ جاہل حکمرانوں کوسمجھا نہیں سکتے توکم ازکم اپنے نبی ﷺ کی عزت کاتوخیال رکھیں کہ میرے آقاﷺ نے شیطانوں کے ایسے حربوں کا علاج امت کودین وعبادت میں پہلے سے ہی عطاکیا ہوا ہے، اوراس ”شھرِمواسات“میں اپنے ارد گرد کے بے زر مسلمانوں کے بچوں کو اپنی عید میں شامل کریں کہ روایات میں ہے، میرے آقا ﷺ ایک عیدپڑھنے جارہے تھے، راستے میں ایک دلگیر بچے کودیکھا جس کا باپ نہیں تھا، تواسے اٹھایا اپنے گھر میں لائے، اپنے گھروالوں سے اسے نہلایا،نئے کپڑے پہنائے،حضراتِ حسنین کے ہمراہ اپنے ساتھ لے جاکر عید پڑھی کہ ایک کم سن اپنے باپ کے نہ ہونے سے عید کی خوشیوں سے خالی نہ رہے،لہذااس سنت کو پیشِ نظر رکھیں،اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے آقاﷺ کی سنت پہ قائم رکھے آمین، ”قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے،دہرمیں اسمِ محمدﷺسے اجالاکردے“وماعلی الاالبلاغ۔
