حضرت علامہ پیر حافظ محمدانور نوشاہی رحمۃ اللہ علیہ ۔ (گذشتہ سے پیوستہ)۴

قاری محمد عبدالرحیم

تزکیہِ نفس کے لیے،اکل ِحلال، صدقِ مقال اورماحول کی پاکیزگی، کاہونا ازبس ضروری ہے،میرے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ”اپنے ہاتھوں کی کمائی کے کھانے سے زیادہ پاکیزہ کھانا کسی نے نہیں کھایا اورنبی اللہ داود علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے“ اوردوسری جگہ فرمایا کہ ”ہاتھوں سے محنت کرکے کمانے والااللہ کا دوست ہے“لہذاتزکیہِ نفس،روحانیت کے لیے کم کھاناسے بھی یہی مراد ہے کہ حلال اور پاک کھانا،اسی طرح کم بولنا سے بھی یہی مراد ہے کہ سچ بولے،اوراسلام میں جن گفتگووں سے منع فرمایا گیا ہے،ان سے بچے،غیبت چغلی،تہمت،تخمین وظن سے کسی پربولنا،ہرسنی سنائی بات کو آگے بیان کرنا،ان باتوں سے بچے،پھرحلال وپاک کمائی اور چیز کوبھی پاکیزہ حالت میں بنا کریا بنانے والے کا پاکیزہ ہونا بڑاضروری ہے، اسی کوعملیات کی دنیا میں پرہیزِجلالی اورجمالی کہا جاتا ہے،کہتے ہیں کوئی صاحبِ ولایت اپنے تئیں اس مقام پرلے گئے کہ وہ پانی پرمصلیٰ بچھا کر محوِ عبادت ہوجاتے،ایسے فعل کو اگرکبھی بے ارادہ ہوجائے تو اسلام میں کرامت کہتے ہیں،اوراگربوجہِ سکراورمقابلہ ہوتوخارق عادت کہتے ہیں،جواکثرمجذوب،یا سکاریٰ فقراء سے سرزد ہوتے ہیں،لیکن اگر صاحب صحوایسا کریں تواسے مافوق العادت کہتے ہیں،جوکبھی شکرِ نعمت کے طور پرہوتا ہے اور کبھی نخوتِ نفس کی بناپر،تووہ صاحب ولایت شاید فریبِ نفس میں نخوت کے طور پرایسا کرتے تھے،اوراپنے گھروالی پرایک دن یہ جتانے لگے کہ میرے جیسامقربِ بارگاہ تجھے نصیب ہوا ہے کہ جوپانی اور ہواپربھی تصرف رکھتا ہے،تووہ اللہ والی بولی،کہ تیرے اس تصرف میں بھی میرا ہاتھ ہے ورنہ توبھی باقی لوگوں کی طرح ہے،نہ پانی پرچل سکے نہ ہواپر،توحضرت طیش میں آگئے،کہ اس طرح کہنے سے تونکاح سے نکل جائے گی،یہ میرے چلے،یہ میرے روزے،یہ میری راتوں کے قیام،اس میں توتوصرف رخنہ ہی ہے اورتیری کیا برکت ہے،تواس خدارسیدہ نے عرض کیا پھرحضور کل دریا پرجا کراپنا تصرف چلا لینا،پیرصاحب رات بھر تلملاتے رہے کہ یہ کہاں میری شریک بن گئی ہے،صبح کھانا کھایا عورت نے بے وضو،بغیربسم اللہ پڑھے،بغیر نمازادا کئیے،کھانا بنایاقبلہ نے ٹھونسا،اور مصلیٰ کاندھے پردھرا،اوردریا کوچل دئیے،مصلیٰ دریا پربچھایا تووہ ڈوب کربہنے لگا قدم رکھاتوخود بھی پانی میں چلے گئے،اب اردگرد دیکھنے لگے کہ کوئی دیکھتا تونہیں،توخیرادھرسے عزت بچ گئی،کہ کوئی دیکھنے والا نہ تھا،اب وہ گیلا مصلیٰ اٹھائے،خفت سے ٹانگیں گھسیٹتے واپس آگئے،بیوی نے پوچھا آج خیرسے جلدی ہی آگئے ہو،توکہنے لگے بندیِ خدا میں تجھے پیرمانتا ہوں مجھ سے راضی ہوجا،اور میری اس قوت کو مجھ سے نہ چھین،توبیوی نہ کہا،حضرت صاحب میں نہ پیر ہوں،نہ آپ سے ناراض ہوں،البتہ آج آپ کو پتہ چل گیا نا کہ آپ کے استدراج میں میرا ہاتھ ہے،وہ اس طرح کہ میں آپ کی حلال کمائی کو نہایت پاکیزہ حالت میں پکا کر آپ کوکھلاتی تھی، جس کی برکت سے آپ کاتصرف چل رہا تھا،صرف ایک ہی دن بے وضو، بے بسم اللہ،اوربے نماز ہوکرتمہیں کھلایا ہے توآپ نے اپنی حالت دیکھ لی ہے،لہذامیرے قبلہ استاذی المکرم کے بھی علم وفضل،تزکیہ وتصرف کا قظب مدار اماں جی کی پاکیزگیاں ہی تھیں،،اسی لیے آج کے زمانے کے علماء،شیخ الاسلام بن کر بھی،اسلام سے اتنے ہی ناآشنا ہیں جتنے جاہل لوگ ہیں، اس لیئے کہ علماء پہلے توکسبِ حلال پر ہی پورا نہیں اترتے، اگر کہیں وہ میسر ہوہی جائے تو،صدقِ مقال تو پھر ذرا مشکل سا کام ہے،اگر کبھی کوئی گونگا ہی بن جائے تواسے ماحول پاکیزہ نہیں ملتا،بکرے کو بسم اللہ اللہ اکبر کرکے حلال توکرتے ہیں،لیکن وہ سود اور حرام کی کمائی کا خریداہوا ہوتا ہے،اس کو پکانے والے کئی قسم کی نحوستوں میں مبتلا ہوتے ہیں،حضرت باقاعدہ روزہ رکھ کر تقرب اور تزکیہ کی نیت سے بھوکے پیاسے رہ رہے ہوتے ہیں لیکن نفوس میں تکدر ہی تکدر پھیل رہا ہے،پھر تزکیہ کودکھانے کے لیے اجلے کپڑے،خوشبوئیں،اور چہروں پررنگ برنگی کریمیں لگا کر کہتے ہیں اللہ جمیل ویحب الجمال،کہ اللہ سوہنا ہے اور سوہنوں کو پسند کرتا ہے،یہودیوں اور عیسائیوں نے اس بات کو سمجھ لیا کہ حرام اور پلید کھانے سے،مسلمانکی ایمانی اور روحانی طاقتیں ماند پڑجاتی ہیں، لہذانہوں نے مسلمانوں کواپنی حرام اورپلید غذاوں اور دواوں کوانہیں کھلانا شروع کیا،کرتے کرتے آج اولادِ رسولﷺ میں بھی کہیں وہ غیرتِ ایمانی اور صلاحیتِ روحانی نہیں رہی،جوشاید ان کا خاصہ تھا،میاں محمد بخش ؒ نے لکھا ہے کہ ”سبز لباس فقیراں والا سر ٹوپی گل الفی، باہروں دسے دیس اجا لا اندر کالا کلفی“علامہ اقبال ؒ نے بھی کہا ہے کہ ”زباں سے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل، قلب ونظرجو مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں“ یہی وجہ ہے کہ آج روحانیت کی کئی فیکٹریاں کھلی ہیں،کہیں ہاوہوکا غوغا ہے، کہیں لوگوں سے نفرت اور انسانوں سے دوری، کہیں اسلامی کے بجائے غیر اسلامی مشاقیاں،کہ کسی طرح سے عوام پر تصرف حاصل جائے،گیارہویں شریف جیسے پاک عمل کوذریعہ معاش بنا لیا،منشیات ومنیعات کوروحانیات بنا لیا، نفس کو مارنے کے لیے نشہ آوراشیاء کواپنا لیا، غوث علی شاہ قلندر نے لکھا ہے کہ ایک ہندوتصرفات واستدراج میں بڑے شہرے پرتھا میں اس کے پاس گیا اس کے استدراج کودیکھا تو دنگ رہ گیا کہ وہ جوکہتا وہ ہوجاتا،میں نے اس سے پوچھا یہ مقام تجھے کیسے حاصل ہواتو کہنے لگا،مجھے بارہ سال ہوگئے ہیں کہ اپنے نفس کے خلاف کرتا ہوں جو وہ چاہتا ہے وہ نہیں کرتا،جو نہیں چاہتا وہ کرتا ہوں،تو غوث علی شاہ نے اسے کہا کہ یہ توتم جھوٹ بول رہے ہو کہ تم نفس کے خلاف کرتے ہو،اس نے کہا یہ کیسے، آپ نے کہا سچ بتا تیرے نفس نے کبھی چاہاہے کہ تو مسلمان ہوجاے، اس نے کہا نہیں،توپھر غوث علی شاہ نے کہا تو پھرتو اس کی مخالفت کرکے مسلمان کیوں نہیں ہوجاتا؟توشاید پھروہ مسلمان ہوگیا،لہذآج میرے مسلمان پیراورولی کہلانے والے اسی طرح کے تزکیہ نفس میں لگے ہیں کہ نفس جو چاہتا ہے وہ کرو،کچھ پیدائشی آستانہ نشین ہیں،اور کچھ علم کے زور پرپیر بنے ہوے ہیں،جب کہ باقی عوام، بقول ہمارے ایک ڈرائینگ کے استاد کے، میاں تم ادھرکو چلوجدھرکی ہواچلے، اورہوا اصل میں نفس کی خواہشات کو کہتے ہیں، (جاری ہے)

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*