قاری محمد عبدالرحیم
اس وقت بابا عبدالخالق کچھ تنگدستی کے عالم میں تھے،بچے جوجوان تھے،وہ بھی مرغ بازی اور اسی قسم کے رندانہ شوق میں مشغول تھے،لہذابابا استاد جی کے پاس اپنی پرسوز آواز میں پوٹھواری شعر پڑھتے،اور قبلہ سے اپنے بچوں کے لیے دعا کراتے،ایک دن ان کے ساتھ ان کے چھوٹے بیٹے عبدالقادر تھے،استاذی المکرم نے فرمایا بابا عبدالخالق یہ بچہ مجھے دے دومیں اسے حافظ بناناچاہتا ہوں، بابا نے عرض کیا حضور یہ لو،آج تو اسے جانے دو کہ یہ ماں سے مل آئے،کل سے یہ آپ کے پاس ہی رہے گا،اگلے دن سے عبدالقادرحافظ بننے جارہے تھے،تو حافظ کیا بنے،بفضلِ تعالیٰ آج انگلینڈ میں طوطیِ نوشاہیاں مشہور ہیں،اور اعلیٰ درجے کے قاری، عالمی نعت خوان،حافظ قران، خطیب ِ خوش الحان، کہ انگلینڈ میں پوٹھوہاری اشعار کے رسیا ان کی محفل سننے ضرور آتے ہیں،علامہ اقبال نے اسی لیے کہا ہے،کہ کون اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازوکا،نگاہ ِمردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں،بندہ نے بھی اپنی استعدادکے مطابق کسبِ علم کیا، اسی دورمیں ہمارے ایک دوست حافظ محمد یوسف جواپنی دونوں ٹانگوں سے پیدائشی معذورہیں،وہ بھی میرے ساتھ اس درِ فیض کے جرعہ نوش تھے،وہ صرف حفظ قران کررہے تھے،لیکن قران عظیم کیا حفظ کیا،ان پر علم کے دروازے کھل گئے آج وہ بفضل تعالیٰ وبفیضانِ استاذی المکرم افضلپور گورنمنٹ بوائزکالج میں عربی کے پروفیسر ہیں،دنیا میں نام اور مال کئی اور معذور لوگوں نے بھی کمایا،جیسے ہمارے میرپور ہی میں ایک نابینا پروفیسرالیاس ایوب ہیں کہ گورنمنٹ کالج میں اسلامیات کے پروفیسر ہیں،اوراس کے ساتھ انہوں نے معذور بچوں کے لیے ایک ادارہ اکاب کے نام سے بنایا، جس کے لیے کئی ایکڑزمین گورنمنٹ سے لی،عوامی فنڈز سے اک عالی شان عمارت تعمیر کی،لیکن کئی سالوں کے چلنے کے باوجود میرے علم میں کوئی ایک ایسا طالب علم شاید ہو جواعلیٰ تعلیم حاصل کرچکا ہو،لیکن میرے معذور بابا نے کئی معذوروں جن میں نابینا بھی ہیں ان کودین کی تعلیم سے ایسامزین کیا کہ وہ لوگوں کے رہبربن گئے،کہ ایں سعادت بزورِ بازونیست،حضرت استاذی المکرتمام علم وجاہ کے باوجوداورسارا دن تعلیم وتعلم میں مصروف رہنے کے باوجوداور جسمانی معذوری کے باوجودذرا سی فرصت میں بھی اپنے اکلِِ حلال کے لیے معذور ہاتھ کے ساتھ بھی،کتابوں کو جلد کیا کرتے تھے،اور بڑے مشاق جلد ساز تھے،میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کتاب کو شکنجہ میں رکھ کر اس زمانے میں ڈرل ٹائپ کی کوئی چیز نہ ہوتی تھی،، بلکہ سوے کوہتھوڑے سے کوٹ کر کتاب کے آر پار کرناپڑتا تھا،اور جب وہ پار ہوجاتا تھا پھر بڑے زور سے اسے کھینچ کر دھاگہ نکا لنا پڑتا تھا،تو میرے حضوراپنے معذور ہاتھ سے کتا ب کودباکررکھتے اور تندرست ہاتھ سے دھاگہ کھینچتے اور اس مشقت سے کتاب کو اسقدرمضبوط جلد کرتے کہ بندہ دیکھتا ہی رہ جاتا،اس زمانے میں آپ کی والدہ ماجدہ ہی آپ کا کل سرمائیہ تھی،اوراس پاکیزہ ماں کے کیا کہنے،سارادن تلاوتِ قران میں گزارتیں،پھراپنے بیٹے ہی کے لیے نہیں مدرسے کے بچوں کے لیے بھی اکثر کھاناپکا کردیا کرتیں تھیں،بچوں سے اسقدرمحبت کرتیں تھیں کہ بچے اپنی ماؤں کو بھول جاتے تھے،قبلہ حضور اس دور میں عملیات کی دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے،کہ آپ اپنے شاگردوں کوبھی موکلات وجنات کے عامل چنددنوں میں بنادیتے تھے،اسی لیے آپ خود پرہیزِ جلالی وجمالی میں رہتے تھے،اس لیے کسی عام بندے یا عورت کے ہاتھ کی پکی روٹی نہ کھاتے تھے،مائی صاحبہ جوتقریباًہروقت باوضوہوتیں تھیں،اور ان کی عمر شریف اسوقت ساٹھ سے اوپرہی ہوگی،لہذاجب ماں جی استاد جی کوباوضوروٹی بناکردیتیں تھیں،توجنات وموکلات آپ کے سامنے غلام بن کررہتے تھے،اورآپ اپنی ماں جی کے قدموں کوچھوے بغیرصبح کرتے نہ رات کرتے ، فیضان وعلم سرکھپائی اور کتابیں پڑھنے سے نہیں آتے بلکہ یہ ماں باپ اور اساتذہ کے فیضِ نظر سے حاصل ہوتے ہیں،اسی لیے علامہ نے کہا ہے،یہ فیضانِ نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی، سکھائے کس نے تھے اسماعیل کوآدابِ فرزندی،آداب ِ فرزندی سے بھرپورمیرے قبلہ اپنی ماں جی کی حتیٰ الوسع خدمت کرتے،اوراپنی ماں جی کواپنے ہاتھ کی کمائی سے کھلاتے اوراکثر اسی لیے جلدسازی کاکام کرتے تھے،اور ماں جی بھی ملاجیون ؒ سے کم نہ تھی،کہتے ہیں ملا جیون ؒ بادشاہ عالمگیرکے استاد تھے،آپ کے مدرسے میں کچھ قحط کی سی حالت ہوگئی،دل میں خیال آیا چلواورنگ زیب عالمگیر سے ملتے ہیں،وہ کچھ خدمتِ استاد کرے گا،تو مدرسے کے اخراجات آسان ہوجائیں گے،ملا جیون گئے عالمگیربہت خوش ہوا اپنے استاد کی خود اپنے ہاتھوں خدمت کی ، مدرسے کے بارے پوچھا،استاد جی نے بتا یا کچھ برکت کی کمی ہے،عالمگیر سوچ میں پڑ گیا صبح استادجی کو وداع کرنے چل کرباہر آیا اور وداع کرتے وقت استاد جی کو ایک دونی تھما دی اور عرض کی حضوراس کو اپنے گلے میں رکھنا، ملا جیون خاموشی سے دونی لے کرچل دیئے راستے میں سوچنے لگے،بھلے بادشاہ سے دان ہوا ہے،لیکن خیر گھر گئے،دونی کو گلے میں ڈال دیا اللہ نے برکات کے دروازے کھول دیئے،چند مہینوں بعد عالمگیر نے خود استاد جی کودعوت دی استاد جی آئے، خیرعافیت کے بعد عالمگیر نے عرض کیا حضور اب مدرسے کے حالات کیسے ہیں،استاد جی بولے اللہ کا بڑا فضل ہوگیا ہے،عالمگیر تمہاری دونی میں بڑی برکت ہے، توعالمگیر نے پیادہ بھیج کرایک بنیے کوبلایا اور کہا پوتھی ساتھ لے آنا، بنیا ڈرتے ڈرتے دربار میں داخل ہوا عالمگیر نے اسے کہا فلاں تاریخ کوتونے کیا خرچہ کیا تھا اور کیوں کیا تھا؟ بنیے نے پوتھی کھولی توکانپنے لگا کہنے لگا حضوراس رات بارش ہورہی تھی میری چھت ٹپک رہی تھی کوئی مزدور نہیں مل رہا تھا،کہ اتنے میں ایک مزدورادھرسے گزرا، میں نے اسے کہا کہ میری چھت پر مٹی ڈال دوکیا لوگے اس نے کہاچار آنے لوں گا،میں نے اس سے مٹی ڈلوالی لیکن میرے پاس اسوقت صرف دوآنے ہی تھے وہ میں نے اس کودیئے اوراگلنے دن آنے کوکہا لیکن وہ نہیں آیا ، میں اب بھی اسے دو آنے دینا چاہتا ہوں،بادشاہ نے کہااب تم جاو،پھر استاد جی سے کہاحضورروہ مزدور میں تھا،اور میں نے سوچاتھا کہ یہ حلال کی کمائی کی دونی کسی اعلیٰ کام کے لیے دوں گا، آپ جب تشریف لائے تو میں نے مدرسے سے اعلیٰ کوئی مقام نہ سمجھا،اس لیے میں نے وہ آپ کی نظر کردی،تویہ برکت اس حلال کی کمائی کی ہے،اس لیے میرے حضور اپنی حلال کی کمائی اپنی پاکیزہ ماں کے لیے کماتے تھے،پھرماں جی کی برکات تونورعلی نورہوناہی تھیں نا،(باقی آئیندہ)