حضرت علامہ پیر حافظ محمدانورنوشاہی رحمۃ اللہ علیہ (گذشتہ سے پیوستہ)

قاری محمد عبدالرحیم

مدرسے میں داخل ہونے کے بعد معمولاتِ حضرت استاذی المکرم کوقریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا،میں حیران تھا کہ جنابِ والا صبح سورج ظلوع ہونے کے بعد سے لے کر نمازِظہر سے کچھ دیر پہلے تک بے تکان بیٹھے،ہر قسم کے طلبا ء صبح کو ابتدائی اسباق والے اور یسرناالقران والے بچوں کوبھی خود ہی پڑھاتے، اس کے بعد حفاظ سبقی اور منازل سناتے،ابھی وہ گئے تو درسِ نظامی کے طلباء آگئے، حتیٰ کہ دَور کرنے والے فارغ التحصیل طلباء بیٹھ گئے،کئی تو گھنٹہ بھربڑی بڑی کتا بوں کوسناتے رہتے،اورایک عجیب سلسلہ یہ تھا کہ قبلہ استاذی فقہ اور حدیث کی بڑی کتا بوں کوبھی خود زبانی ہی سن رہے ہوتے،اس دوران اکثر ایسا بھی ہوا کہ کوئی فارسی یا صرف ونحوکے قواعدوالا بھی ساتھ سنارہا ہے،اور کوئی منزل قران بھی سنا رہا ہے،قبلہ حضور ان سب کوبر موقعہ درستگی بھی کرارہے ہیں،شاید میری ان باتوں کوکوئی موجودہ زمانے کا سائنسدان،لاف وگزاف ہی کہے، حالانکہ اللہ نے انسان کوتمام قویٰ عالمیہ سے نوازا ہوا ہے،اورجب انسان تخلقواباخلاق اللہ،ہوجاتا ہے تواس میں اللہ کی صفات اجاگر ہوجاتی ہیں،اور اس کی سمع وبصراللہ کے نور سے متصف ہوجاتے ہیں، میرے نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ اتقوا بفراست المومن، ھوینظربنوراللہ، یعنی مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے،دوسری جگہ ایک حدیثِ قدسی میں فرمایامفہوم ” اللہ فرماتا ہے کہ جب میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے تو وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ میں اس کے کان بن جاتا ہوں کہ وہ ان سے سنتا ہے، میں اس کی زبان بن جاتا ہوں کہ وہ اس سے بولتا ہے،میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں کہ وہ ان سے پکڑتا ہے الخ علاوہ اس کے آج کی سائنسی دنیا میں ہمارے کمپیوٹر اور اس قسم کے سائنسی آلات جو آج انسانوں کے لیے عجوبہ ہیں اور ہمارے،بے شعور اور کاسہ لیس عقلاء اور علماء اس کو سائنس کی ایجادہی نہیں بلکہ کفارکی صلاحیت کہتے ہیں،اور اسی وجہ سے کفار کی اسلام پر فوقیت گمان کرتے ہیں،اس میں بھی ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں، جو مختلف چیزوں کو ایک ہی وقت اور ایک ہی چیز میں مختلف دکھاتی،اور مختلف سناتی ہیں، ،لہذابقول فرمانِ نبی ﷺ کہ”لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق ہی بات کرو“یہ باتیں عام لوگوں والی نہیں ہیں،کہ میاں محمد بخش ؒ نے بھی فرمایا ہے کہ ”خاصاں دی گل عاماں اگے نہیں مناسب کرنی“لہذاعام لوگوں سے بھی عرض ہے کہ جوباتیں آپ کی سمجھ میں نہ آئیں انہیں یکسررد نہیں کرنا چاہیے،ہاں تو میں عرض کررہا تھا کہ قبلہ حضوراستاذی المکرم کو اللہ نے یہ ملکہ ان کے زہد وتقویٰ اور تخلقوا باخلاق اللہ ہونے کے سبب عطا فرمایا ہواتھا، دن بھر میں اتنی مشقت کے بعد رات کوتمام نوافل واذکار کی ادائیگی اور اکثر بروزِ سوموار کوروزہ رکھتے تھے،بحالتِ معذوری بھی نمازِ باجماعت ادا فرماتے،اورہرقسم کے ملنے والوں کو بھی دورانِ تدریس ہی ملنے کا موقعہ دیتے، ان کے سوالات کے جوابات نہایت نرمی اور دلجوئی سے دیتے،نہ طلباء کورکاوٹ محسوس ہوتی نہ سائلین کودقت ہوتی،آج تو اکثر بڑے اساتذہ چاہے وہ دین کے ہوں یا دنیا کے،وہ تدریس تو تدریس ہے ویسے بھی عام لوگوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے،اور ان کو جواب دینے کے بجائے،ان سے بات کرنا ہی فضول سمجھتے ہیں،میں نے اپنے محسن استاد کے فیضِ نظر اور برکت سے سینتیس سال اسکولز میں پڑھایا ہے، میں ایک اسکول میں تھا،تووہاں کے سائنس ماسٹر صاحب باقی اسکول کے اساتذہ کوتو کیا صدرمعلم کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے، ایک دن وہ کلاس میں پڑھا رہے تھے،تو ایک مانگنے والا جو صدرمعلم کی اجازت کے ساتھ کلاسز میں اپنی معذوری دکھا کر بچوں سے کچھ مدد مانگ رہا تھا،وہ ان کے پیریڈ میں کلاس میں داخل ہونے کی اجازت مانگنے لگا،ایک بار تو انہوں نے جھڑکا،تو یہ پیشہ ور مانگنے والے بھی کب ٹلتے ہیں تو انہوں نے اسے تھپڑدے مارا،اور کہا تمہیں معلوم نہیں میں سائنس پڑھا رہا ہوں اور تم مخل ہوکرمیری توجہ اور بچوں کی توجہ ہٹارہے ہو،تووہ بے چارہ روتا ہوا صدر معلم کے دفترمیں آگیا،پیچھے ہی ماسٹر صاحب بھی آگ بگولہ ہوئے آگئے،کہ تم کوپتانہیں کہ اس طرح توجہ ہٹ جاتی ہے،تومیں نے عرض کیا سر جب بندے کی توجہ اللہ کے لیے دنیا کے مفاد سے ہٹ جائے توشکر پڑھیں کہ آپ سیدھی راہ پر آگئے ہیں،کیونکہ میرے اللہ نے فرمایا ہے کہ ”واماالسائل فلا تنھر“تو وہ اللہ کے بندے اپنے کیے پر شرمندہ ہوے اس سائل سے معافی مانگی اور اسے اپنی جیب سے سوروپے دیئے،اللہ ان پر دونوں جہانوں میں رحم فرمائے آمین،قبلہ استاذی المکرم ہرسائل کوچاہے وہ علم کا ہو مال کاہو،کبھی جھڑکتے نہ تھے،آپ کے اس محبانہ رویہ نے ایسے ایسے ہٹ دھرم لوگوں کو جن کی گھٹی میں،علماء کی مخالفت ہوتی تھی،اور اکثر جاہل قسم کے رند نما فقیروں کے دلدادہ ہوتے تھے،وہ بھی حضور کوسلام کرنے آجاتے،دورانِ تدریس ہی اپنے علم کے مطابق بڑے بڑے فلسفے بیان کرتے توقبلہ ان کو ان کے ظرف وذوق کے مطابق ہی اسلامی حوالوں سےء جواب عنایت فرماتے کہ وہ خود ہی اپنے فلسفے کو نادرست مان لیتے،اسی طرح ہمارے علاقے کے ایک نامور پہلوان جناب عبالخالق چک پرانا میرپور آزاد کشمیروالے،جواپنے وقت کے ہر برے بھلے میں سے گزرے ہوے تھے،شہ زورانسان تھے،ڈاکووں کے ساتھ بھی رہے،پہلوانی میں بھی نام کمایا،بیلوں کے اکھاڑے میں، گھوڑ دوڑ میں،بینی وکشتی کے مقابلوں میں،شعر خوانی کے مجمعوں میں کہاں تھا کہ وہ نہیں بلائے جاتے تھے،باباؤں بزرگوں کے ماننے والے تھے،مجذوبوں سے محبت کرتے تھے،وہ جناب استاذی المکرم کوسرِ راہ ایک جھونپڑی نما مدرسے میں پڑھاتا دیکھ کر ان سے ملنے بھی آگئے، (جاری ہے)

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*