حاجی فضل محمود انجم
آج فیس بک پہ ایک دوست کی پوسٹ نظروں سے گزری جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ایک صاحب میرے پاس آۓ اور میرا نام لیکر کہنے لگے کہ آپکا یہ نام ہے تو میرا ایک کام کر دیں۔مجھے کسی کلب سے پریس کارڈ بنوا دیں کیونکہ میرا پاکپتن آنا جانا ہوتا ہے تو ٹریفک والے مجھے بہت تنگ کرتے ہیں۔انہوں نے اپنی مجبوری کا اظہار کیا کہ میرا فی الوقت کسی پریس کلب سے تعلق نہیں ہے اور اگر ہوتا بھی تو کوئی بھی پریس کلب ایسا کام نہیں کرتا کہ وہ اسے کارڈ بنا کے دے دے جس کا صحافت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔آپ کو چاہئے کہ آپ قانون کا احترام کریں اور ایسے اداروں کے پیچھے نہ چھپیں کیونکہ اس طرح قانون کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔لیکن آنے والا مصر رہا کہ میرا ایک دوست اسی کارڈ کی وجہ سے بڑے سکون میں ہے۔میرے دوست کے استفسار پر اس نے بتایا کہ میں پرائمری تک تعلیم رکھتا ہوں اور کھیتی باڑی کرتا ہوں۔اس کے بعد شرمندگی کے سوا کچھ نہیں تھا۔اب یہ نہیں پتہ چلا کہ اس شرمندگی کا اسٹیٹس کیا تھا؟۔اس کی بات سن کر شرمندگی میرے اس دوست کو ہوئی یا کارڈ بنوانے والے کو۔کبھی ملاقات ہوئی تو ان سے اس بابت ضرور پوچھیں گے۔
اپنے دوست کی یہی بات میں نے ماما بلو کے سامنے رکھی اور اسے کہا کہ کچھ پتہ ہو تو بتاۓ کہ کیا ایسا ممکن ہے ؟ کہ کوئی پریس کلب ممبر اور صحافی نہ ہونے کے باوجود اسے یہ سہولت دے دے۔ میری بات سن کر ماما بلو تو جیسے پھٹ پڑا اور کہنے لگا کہ صاحب آپ بھی کتنے بھولے ہیں؟ آپ کیا سمجھتے ہیں؟ کہ جو اپنے آپ کو صحافی کہتے ہیں وہ سارے کے سارے حقیقت میں صحافی ہیں اور اس حوالے سے وہ تعلیم یافتہ بھی ہیں ۔ وہ صحافت کو درکار ضروریات اور لوازمات سے آگاہ بھی ہیں۔اس نے مجھے یہ کہ کر حیران و پریشان کر دیا کہ یہ شہر کیا اب تو ہر جگہ ایسے لوگ کثرت سے پاۓ جاتے ہیں جنہوں نے اس قسم کے کارڈ بنوا کے رکھے ہوۓ ہیں جن سے وہ دوسرے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور انہیں بلیک میل کرتے ہیں۔انہی لوگوں کی وجہ سے آج یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ صحافی لوگوں کو اس کارڈ کی بناء پر ڈرا دھمکا کر اپنے ناجائز اور غیر قانونی کام نکلواتے ہیں اوراس مقدس کام کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔ایسے نام نہاد صحافی بدعنوان پولیس والوں کے سانجھے دار ہوتے ہیں۔کچھ ایسے صحافی بھی ہوتے ہیں جو صحافت میں ہوتے ہوئے بھی مختلف سیاسی جماعتوں کے تنخواہ دار ہوتے ہیں ۔ وہ بھی صحافی کہلاتے ہیں جو ریاستی اداروں کے پے رول پر ہوتے ہیں اور کمیونٹی ان صحافیوں کو بھی جانتی ہے جنہوں نے ماہانہ بنیاد پر کسی کی مدح سرائی کا ٹھیکہ لے رکھا ہوتا ہے۔لفافہ صحافی کی اصطلاح کوئی ایسے ہی معرض وجود میں نہیں آ گئی۔کچھ کا اسٹیٹس سفید لفافہ اور کچھ کا خاکہ لفافہ ہوتا ہے۔جبکہ صحافیوں میں ایک اور قسم کے صحافی بھی پاۓ جاتے ہیں جنہیں لوگ چھاپہ مار اور بلیک میلر صحافی کہتے ہیں ۔اس قسم کے لوگ گندے ہوٹلوں ، غلیظ بیکریوں، دو نمبر فیکٹریوں اور ملاوٹ کرنے والے گوالوں پر چھاپے مارتے ہیں۔ یہ رہائشی علاقوں میں چلنے والے جدید قحبہ خانوں کے پتے جانتے ہیں اور ان کو بھی جانتے ہیں جو اس گندے کاروبار سے منسلک ہوتے ہیں ۔منشیات فروش جوۓ باز اور اس کے اڈے چلانے والے سب ان کی نظر میں ہوتے ہیں۔ گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے شعبوں کی طرح صحافت کا رنگ بھی اب پھیکا پڑ گیاہے۔ زرد صحافت کی اصطلاح زبان زد عام ہو گئی ہے، کئی صحافی۔ لفافہ صحافی کے نام سے مشہور ہوئے، انتہائی پستی کی اس سطح تک پہنچنے کے لئے ان صحافیوں نے بہت زور آزمائی کی جنہیں عزت سے زیادہ پیسہ عزیز تھا اور آج کل تو صحافت ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کی لونڈی بن چکی ہے ،چند ٹکوں کے عوض سیاستدانوں اور سرکاری افسران کے حق میں کالم اور مضامین لکھنا، شریف لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا، غریب اور بے کس گھرانوں کی لڑکیوں کی تصاویر بنا کر بلیک میل کرنا اور پیسے نہ دینے پر تصاویر کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر کے ہنستے بستے گھرانوں کو جہنم زار بنا دینا ان لوگوں کا وطیرہ ہے۔ ۔صحافت کے نام پر ایسے کرپٹ افراد اپنے الو سیدھے کرنے میں لگے ہیں۔کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں والا معاملہ ہے۔ قصے ہزاروں ہیں کیا کیا سنایا جائےِ صاحب جی؟لیکن یہ کہنا یا سوچنا کہ ان لوگوں کو کارڈ پریس کلب جاری کرتے ہیں یہ مناسب نہیں ہے کیونکہ کوئی پریس کلب یہ نہیں چاہے گا کہ کوئی دو نمبر شخص ان کے نام کو استعمال کرے اور اس کی بدنامی کا باعث بنے۔
۔میں تو ماما بلو کی باتیں سن کے حیران رہ گیا کہ صحافت جیسے عوامی خدمت والے شعبے میں ایسے بھی لوگ صحافی کے روپ میں موجود ہیں جنہوں نے صحافت کو اپنے کالے کرتوتوں سے بدنام کر رکھا ہے۔ورنہ صحافی تو معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے۔وہ جو کچھ دیکھتا ہے اسے نہائیت ہی ایمانداری سے ان لوگوں تک منتقل کر دیتا ہے جو اس کے حل کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔گویا ایک صحافی عوام اور اعلیٰ حکام کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے اور کمیونٹی کے مسائل کے حل کیلیےء اپنی کوششیں بروۓ کار لا کر معاشرے کی بہتری کا باعث بنتا ہے۔اسی لیےء صحافت کو چوتھا ستون مانا گیا ہے۔اسی لیےء میں کہتا ہوں کہ جب کبھی صحافیوں کو لفافے کی گالی دینے کا جی چاہے تو اکثریت میں موجود ان صحافیوں کو نہ بھولنا جو بچوں کے اسکول کی فیس بھی قرض لے کر بھرتے ہیں۔ وہ سچے صحافی جو کئی کئی ماہ بغیر تنخواہ ادھار پر گھر چلا رہے ہیں، وہ دیانت دار صحافی جو بکنے کو تیار نہیں مگر اپنی تنگ دستی میں بھی عزت بنائے بیٹھے ہیں۔ایسے صحافی واقعی خراج تحسین کے لائق ہیں اور صحافت کے ماتھے کا جھومر ہیں ۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے ناسوروں کو تلاش کرکے ان کا مستقل علاج کیا جائے اور ان ننگ انسانیت اور ننگ صحافت لوگوں کو بے نقاب کر کے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے تا کہ کھرے اور کھوٹے اور جھوٹے اور سچے صحافی میں تمیز کی جا سکے اور معاشرے کے تمام طبقات کا صحافی اور صحافت پر اعتماد بحال ہو سکے۔ اس سلسلے میں صحافتی برادری کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے درمیان موجود ایسی کالی بھیڑوں کو تلاش کریں اور انکے کے خلاف تادیبی کاروائی کریں،بلکہ پریس کارڈ جاری کرتے وقت پریس کلب اور صحافتی ادارے اخبارات اور چینلز کے ذمہ داران صحافی کی تعلیم ،تجربے اور اخلاقی کردار کو ضرور جانچیں ورنہ صحافیوں کی رہی سہی عزت کو بھی یہ دو نمبر صحافی دیمک کی طرح چاٹ جائیں گے اور صحافت جیسا مقدس پیشہ بدنام ہو کر رہ جاۓ گا۔اب یہ پریس کلبز اور میڈیا کے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کو اپنے کلب کا کارڈ یا کوئی شناختی دستاویز جاری نہ کریں جو تعلیم یافتہ نہ ہو یا اس کے پاس کسی بھی ادارے کا چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا کا باضابطہ اجازت نامہ یا کارڈ نہ ہو۔اس طرح صحافت میں موجود کالی بھیڑوں کی بھی نشاندہی ہو جاۓ گی اور صحافت بھی ایسے لوگوں سے پاک ہو جاۓ گی۔