دین ملا فی سبیل اللہ فساد

مریم وکیل

منٹو اردو ادب کا وہ لکھاری جس نے معاشرے کے کڑوے کسیلے سچ کو جرات اور بے باکی سے بیان کیا،جسکے قلم نے ہوس و نفس پرستوں کی حقیقت کو ناصرف آشکار کیا، بلکہ منافقت زدہ سماج کے مکروہ چہرے کو آئینہ بھی دکھایا۔ویسے تو منٹو جیسے شخص کی ضرورت ہر دور میں رہی ہےلیکن موجودہ ترقی یافتہ اور جدید دور میں شدت سے اس کمی کو محسوس کررہی ہوں، معاملہ کچھ یوں ہے کہ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے نظر اس ویڈیو پر پڑی جو آج کل سوشل میڈیا سمیت نیوز چینلنز اور پرنٹ میڈیا میں بھی خبروں کی زینت بنی ہوئی ہے، جی۔۔۔ میں بات کررہی ہوں حریم شاہ اور مفتی عبدالقوی کی ویڈیو کی، حریم شاہ کون ہیں؟اس بارے میں وزیراعظم ہاوس کے لارجز سے لے کر ٹک ٹاک استعمال کرنیوالا ہرپاکستانی جانتا ہے،دوسری جانب مفتی عبدالقوی بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں،قندیل بلوچ سے لے کر حریم شاہ کے تھپڑ تک کی داستان ہر زبان زدعام ہے۔
یہاں ان دونوں شخصیات کا ذکر کرنے کا مقصد کسی کی کردار کشی کرنا ہرگز نہیں، کیونکہ یہ کام سوشل میڈیا صارفین اور دونوں کے فالوورز دل کھول کر چکے ہیں، اور ناہی مقصد تحریر کسی صنفی جنگ کو چھیڑنا یا رجعت پسندوں اور ترقی پسندوں کے درمیان کوئی بحث
کرانا یا موضوع کو ازسر نو "مرچ مصالہ ” لگاکر پیش کرنا ہے۔
آج قلم اٹھانے کا مقصد صرف اور صرف اخلاقی، ذہنی اور نفسیاتی سطح پر برباد اس سوچ کے ناسور کی جڑ تک پہنچنا ہے جس نے سماج کے ڈی این اے کو تباہ کردیا ہے۔جہاں ہوس و نفس پرستی برہنہ رقص کرتی یے، اور 3سال کی کمسن سے لے کر80سال کی بڑھیا تک غیر محفوظ رہتی ہے، جہاں شہوت اور بے حسی کا ناگ سر عام ایک نہتی ماں کو اسکے بچوں کے سامنے ڈنگ جاتا ہے اور محافظ خود ساختہ تاویلوں اور دلیلوں سے زخموں پر مزید زخم چھڑکتے نظر آتے ہیں، ایسے حمام میں جہاں سبھی ننگے ہوں، مدرسہ ہو یا اسکول، یونیورسٹی ہو یا دفتر حرص و ہوس کی آمجگاہ بن جائیں ، وہاں کیا ایک "تھپڑ” بیمار اور غلیظ سوچ رکھنے والے معاشرتی حیوان کیلئے کافی ہے؟ یا "مفتی” کا اعزاز واپس لے لینے سے اس مکروہ نفسیات سے چھٹکارا مل جائیگا؟
یہی میرا سوال ہے ترقی، تہذیب، امن ، حیا، علم ، سیاست اور مذہب کے ٹیکھیکداروں سے کہ جن کی بدولت جس نگر میں "می ٹو” متنازعہ بن جائے، لٹریچر سے فلم تک کی نمائش کو بے حیائی اور فحاشی پھیلانے کا سبب سمجھا جائے، ایسے ذہنی پسماندہ اور اخلاقی گراوٹ کے شکار سماج کی اصلاح بے حد ضروری ہے، ضروری ہے کہ کوئی منٹو جیسا نبض شناس ہو جو اس معاشرے کی تمام تر تلخ مگر کڑوی سچائی کی وجوہات کو بلا خوف و خطر بیان کرے۔
اگر آج منٹو زندہ ہوتا تو اس معاشرے کے چہرے پر لگی تنگ نظری کی عینک اتار کر بالغ النظری عطاکرتا، اگر منٹو آج زندہ ہوتا تو نا تو وہ عورت کو "دوٹکے” کا کہتا اور نا ہی مرد کو "ہوس پرست ” ہونے کا طعنہ دیتا، بلکہ ذہنی نابالغی کے شکار اس معاشرے کو سمجھاتا کہ مرد وعورت کے فطری تقاضوں کو سمجھتے ہوئے بالغانہ تعلیم و تربیت کا انتظام کرے ناکہ احساسات و جذبات کے اظہار کو جبرا دبایا جائے۔
اگر منٹو زندہ ہوتا تو کھل کر جہاد کرتا اس سوچ کیخلاف جہاں حیا اور پارسائی کا پیمانہ لباس اور چال ڈھال کو سمجھا جاتا ہے۔
اگر منٹو زندہ ہوتا تو رجعت پسندوں اور ترقی پسندوں میں منقسم اس معاشرے کو احساس دلاتاکہ اگر یونہی اظہار رائے پر پابندی لگتی رہی، فنون لطیفہ سے دوری رہی،الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری رہا ، اور ریاکار ی اور منافقت کو حیا اور اصلاح کے غلافوں میں لپیٹ لپیٹ کے رکھا گیا ، تو ماحول کے تعفن اور گھٹن سے یہ معاشرہ اپنی موت آپ مرجائیگا۔
اگر آج منٹو زندہ ہوتا تو کہتا کہ موجودہ جھگڑا مغربی اقدار اپنانے یا مشرقی روایات پر ڈٹنے سے نہیں بلکہ موجودہ عصری و فکری تقاضوں کو نا اپنانے سے ہے المختصر اگر آج منٹو زندہ ہوتا توویڈیو دیکھ کر برملا کہہ اٹھتا کہ دین ملا فی سبیل اللہ فساد

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*