عجب نہیں کہ خداتک تری رسائی ہو

قاری محمد عبدالرحیم

آج دنیائے اسلام میں،کردار کے بجائے علم وعمل کا ایک ڈھونگ سا چل رہا ہے،اہلِ علم بھی گدی نشین ہیں اوراہلِ عمل بھی گدی نشین ہیں،نہ اہلَ علم میں جدتِ تحقیق وافکارہے نہ اہلِ عمل میں شوق و اخلاص ہے،مذہب جبہ ودستارمیں بندھا ہواہے،تعلیمِ دین مساجدومکاتب کی بوقلمونیوں سے کیا دھنک رنگ تھی کہ ریاستی تعلیم نے بھی اس میں اپنا چونا لگا دیا،
پہلے مولوی قال اللہ وقال رسول اللہ ﷺ میں لگا ہواتھا اب اس کے سhe saidکا بھی تڑکا لگاہوا ہے،لیکن جس طرح پہلے قال اللہ وقال رسول اللہ ﷺ صرف تبرک اور فتویٰ کے لیے پڑھا جاتا تھا،ایسے ہی اب he saidبھی اپنا رعب جمانے کے لیے ہی بولا جاتا ہے،کہتے ہیں اکبر بادشاہ کے دورمیں کوئی کمزور ذات کا بندہ کسی دینی مدرسے سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرگیا،اس علاقے کے اکبرکے وزیرنے اکبرسے سفارش کی کہ میرے علاقے کا یک مولوی جوقران وحدیث کے شیخ کی سندرکھتا ہے آپ اسے بھی دربار میں جگہ دیں،اکبرنے پوچھا وہ کس ذات سے تعلق رکھتا ہے،تووزیرنے بتا یا کہ وہ ہے توایک چھوٹی ذات کا ہے لیکن علم اور ذات کا کیا تعلق ہے،لیکن اکبرنے کہا آپ اس کا وظیفہ وغیرہ لگا دیں لیکن وہ دربار کے قابل نہیں،وزیرنے کہا جناب آپ اس کاامتحان لے لیں توپھر آپ کوپتہ چلے گا کہ وہ دربار کے قابل ہے کہ نہیں،تواکبر نے کہا کل اسے لے آنا،اگلے دن مولوی صاحب کودربارمیں پیش کیا گیا،اکبر اپنے پورے جلال کے ساتھ نمودار ہوا،اورنہایت غصے میں کہا،مولوی صاحب میں نے سنا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ اکبراور خنزیر کارب ایک ہی ہے،مولوی صاحب ایک دم ہاتھ باندھ کرکھڑے ہوگئے اور عرض کرنے لگے حضور میں نے کبھی بھی ایسا نہیں کہا،تواکبر نے دوبارہ کہا آپ غور کرلیں کہیں آپ نے ایسا کہا ہو،انہوں نے دوبارہ عرض کیا حضور ایسا ہرگزنہیں ہوسکتا کہ میں نے ایساکہا ہو،تواکبرنے راضی ہوکر کہا،مولوی صاحب کوانعام واکرام دیا جائے اور انہیں احترام کے ساتھ ان کے گھر پہنچادیا جائے،بعدمیں اس نے وزیرسے کہا یہ مولوی صاحب تھے جنہیں مجھے غصے میں دیکھ کرخدایادنہیں رہا،اورانہوں نے ایک حق بات سے انکار کردیا ہے،میرا اورخنزیرکا رب توایک ہی نا،آج بھی ہمارے علماء شیخان اسلام ،مفسرانِ قران،مجددانِ ملت،امامانِ زمانہ کہ امت کواپنی تقاریروفتاویٰ سے درہم برہم کئیے ہوے ہیں،لیکن ایک کوروناکیا آیا سب نے کہا کہ کورونا sopگوکہ غیراسلامی ہیں،لیکن اب اللہ کی مرضی یہی ہے جوان پرعمل کریں گے وہی بچیں گے،لہذااس پرعمل کے فتوے جاری ہوے،مسجدِ حرام تک بند کردی گئی ،قوم فاقوں مررہی ہے اور علماء ملک الموت سے اسے بچانے میں لگے ہوے ہیں،اس کے ساتھ دوسرا طبقہ اہلِ عمل کا پیرانِ عظام،جن کے بڑے، دیواروں کوکہیں تووہ چل پڑتیں تھیں،خشک صحراؤں سے پانی نکل آتے تھے،وبائیں حکم سے ختم ہوجاتیں تھیں،مایوس اورلاعلاج امراض،آج بھی بعض مزارات کے فیض سے شفایاب ہورہی ہیں،چندسال قبل آنکھوں کی کوئی وباآگئی تھی،ہمارے علاقے میں ایک نامعلوم بزرگ کا مزار جوآنکھوں کی امراض کے لیے مشہورہے،وہاں لوگوں کے ٹھٹھ لگ گئے اور اکثرمریض وہاں سے شفایاب ہوگئے،پیرشہاب میرپورکوٹلی روڈ پرواقع ہے اوروہ اوقاف کے قبضہ میں ہے،طاعون جب 1920میں وارد ہواتوہمارے علاقے میرپور آزاد کشمیرمیں ایک مجذوب بزرگ سید فضل شاہ جودینہ پاکستان سے تعلق رکھتے تھے،اوروہ سماع کے دوران حالتِ جذب میں آجاتے،ان سے اسی حالت کے دوران لوگوں نے بار بار عرض کیا حضوراس وباسے نجات کی دعا فرمائیں،توآپ نے فرمایا”جاودریاواں وچ بوڑھ دتی اے،پھرفرمایا چلوکدے کدے ککڑاں نوں آجایا کرسی“ یعنی اس وبا کودریاؤں میں ڈال دیا ہے،پھرکہا چلوکبھی کبھی مرغیوں کوآجایا کرے گی،جوآج تک بڑی جدید سائنس کی موجودگی میں بھی ہرسال ہی مرغیوں پر آجاتی ہے لیکن اس کے بعد اب سوسال گزر گیے ہیں کہیں انسانوں میں طاعون ظاہرنہیں ہوئی،اسی طرح کی ہزاروں مثالیں ہیں،لیکن بقولِ اقبال زاغوں کے تصرف میں ہیں عقابوں کے نشیمن،کہین غوغائے ہا وہوپایا جاتا ہے توکہیں ”چھوچھا“پہ کام چل رہا ہے،بلکہ گدی نشینی کے نام پر لوگ عوام سے ووٹ لے کر وزرائے اعظم تک کی کرسیوں تک پہنچ گئے،لیکن امت اسی غلامی میں مبتلا ہے جوانگریزوں کے دور میں تھی،انسان کی خدائی چل رہی ہے،مظلوم ظلم کی چکی میں پس رہا ہے،انسان درجات میں بٹے ہوے ہیں،معیشت طبقات میں بٹی ہوئی ہے،پیربھی عوام پروہی قہرکرتے ہیں جوجاگیردارکرتے ہیں،مساجد میں مکاتب میں انسان ہرجگہ طبقات کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے،اوپرسونے پرسہاگہ ریاست کی مشینری ساری کی ساری انسانیت کی تذلیل پرقائم ہے،جس کوقانون تسلیم کرلیا گیا ہے،کوئی پیروملا نہین جوآدمی کوسمجھے اورولقدکرمنابنی آدم کی تشریح وتفسیراپنے کردار سے کرسکے،علامہ نے اسی لیے فرمایا تھا،”عجب نہیں کہ خداتک تری رسائی ہو،تری نگاہ سے ہے پوشیدہ آدمی کامقام،تری نمازمیں باقی جلال ہے،نہ جمال،تری آذاں میں نہیں ہے مری سحرکاپیام“ وماعلی الاالبلاغ۔

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*