قاری محمد عبدالرحیم
اسلام میں علم کا حصول ہر مردوزن پر فرض کیا گیا ہے،اسلام جس علم کولازم قرار دیتا ہے،وہ ہے،خود شناسی اور خدا شناسی کا علم،کہ بندہ خود کوپہچان سکے اوراپنے خدا کو پہچان سکے،اور ایک حدیثِ رسول ﷺ میں ہے کہ ”جس نے خود کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کوپہچان لیا“علامہ اقبال اسی کوشاید خودی کہتے ہیں،”یہ پیام دے گئی ہے،مجھے بادِ صبح گاہی۔کہ خودی کے عارفوں کاہے مقام پادشاہی۔تری زندگی اسی سے تری آبرواسی سے۔جورہی خودی توشاہی، نہ رہی توروسیاہی“لہذاعورت کی خودی اسی میں ہے کہ وہ مرد کے سائیہ میں رہے، اوراپنے رب کے اس حکم کی”الرجال قوامون علی النساء“کی عملی تفسیربن جائے،علم وہنر کچھ بھی ہولیکن عورت کاروبارِ معاش کے لیے نہیں بلکہ اللہ نے تخلیقِ کے کاروبارکے لیے اسے بنایا ہے،علامہ نے اسی لیے کہا ہے،”رازہے اس کے تپِ غم کایہی نکتہِ شوق،آتشیں لذتِ تخلیق سے ہے، اس کاوجود“اسلام نے عورت کوجن احکامات کا مکلف کیا ہے،وہ اس کومکمل طورپر اپنے خاوند کی حیثیت کے تابع بناتے ہیں،خاوند کی پارسائی کی محافظ،خاوندکے مال وگھرکی محافظ،خاوند کی اولاد کی محافظ ومربی،اللہ نے قرانِ پاک میں فرمایا ہے،جس کا ترجمہ یہ ہے کہ،”اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے نفسوں میں سے تمہارے جوڑے بنائے،تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرسکو“،یعنی عورت مرد کے لیے سکون وراحت کا ذریعہ ہو،آج کے اس دورمیں،تعلیم و آزادیِ نسواں کا ایک مغربی پروپیگنڈہ چل رہا ہے،جس کے تحت مسلم عورت ایک عجیب مخمصے میں پڑگئی ہے،اگروہ تعلیم حاصل نہیں کرتی توزمانے کے لالچی انسان اس سے نکاح نہیں کرتے،اوراگرتعلیم حاصل کرلیتی ہے توخواہشاتِ نفسانی کے رسیا اس میں نسوانیت کی کمی کی وجہ سے نکاح نہیں کرتے، علامہ نے اسی لیے کہا ہے کہ ”جس علم کی تاثیرسے زن ہوتی ہے نازن، کہتے ہیں اسی علم کوارباب، نظر موت“ علمائے اسلام نے اسی معاملے کوشاید پیشِ نظررکھتے ہوے،اسلامی مدرسہ جات تعلیم ِ للبنات کا قیام کیا،اور بفضلِ تعالیٰ آج ملک کے طول وعرض میں ایسے ہزاروں مدرسہ جات پائے جاتے ہیں،جوعورتوں کواسلامی تعلیم کی اعلیٰ ڈگریوں تک پہنچارہے ہیں،لیکن باوجود اس کے وہ عقدہ حل نہیں ہوسکا،جس درد کا یہ درماں بنایا گیا تھا،کہ یہ تعلیم بھی عورت کو اسلام کی تعلیم سے مزین توکر گئی لیکن وہ ضرورتِ آج بھی تشنہ ہے کہ عورت علم کو معاش کے لیے ہی حاصل کررہی ہے،اورجب عورت معاش کے لیے ہوگی توپھر اس کی آغوش کا مدرسہ بند ہوجائے گا،اورجب آغوش کا مدرسہ نہ چلا تو پھر شررِ افلاطوں کس شعلہ سے ٹپکے گا،علامہ ہی کہتے ہیں،”مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی،لیکن۔اسی کے شعلے سے ٹوٹاشرارِافلاطوں“ابرِ نیستاں توآج بھی برستے ہیں لیکن گوہر مقصود نہیں بن رہے کہ آج صدفِ آغوش اس خلوت سے تہی ہوچکی ہے،علم وہنرکے ذوقِ نظر نے اس کو ابتر کردیاہے،علامہ نے کہاہے کہ ”خلوت میں خودی ہوتی ہے خودگیر،ولیکن۔خلوت نہیں اب دیروحرم میں بھی میسر“ایک طرف فرنگی معاشرت نے عورت کو عورت نہ رہنے دیا،وہ شمعِ محفل بناچاہتی ہے،تودوسری طرف اہل، اسلام نے بھی مزین، تعلیم کرکے،پردے میں توکردیا لیکن حقوقِ نسواں اورمقامِ نسواں کواپنے معاشرے میں نہ واضح کیا،پچھلے دنوں شیطانی دنیا کی جال میں پھنسی چند نادان عورتیں اپنے حقوق کے لیے بازاروں میں احتجاج کررہی تھیں،وہ اس تعلیم سے مزین تھیں جوزن کونازن بناتی ہے،لیکن یہ ان کا قصور تو نہیں تھا،کیونکہ انہیں جو تعلیم دی گئی تھی، انہیں جس معاشرت میں پروان چڑھایاگیا تھا،انہیں جن رویوں سے پالا پڑاتھا،وہ اس کے تناظرمیں شاید یہی کچھ کرسکتیں تھیں،اب اسلام کے دردمندوں نے اسلام کی پاکیزگی پر داغ لگانے والی ان کیچڑ میں پلنے والی گندی مکھیوں کی خوب خبر لی،ہمارے ایک خطیب صاحب کو میں نے سنا آپ فرما رہے تھے،کہ وہ آزادی مانگتی ہیں،اسلام نے عورتوں کو کیا حقوق نہیں دیئے، اسلام نے توعورت کوجو عزت دی ہے وہ کسی بھی مذہب نے نہیں دی،تو میں سوچ میں پڑگیا کہ بھئی وہ بے وقوف عورتیں،جس طرح اپنے معاشرے کے بجائے اسلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں،ایسے ہی ہم مسلمان بھی اسلام کے دیئے گئے حقوق تو بیان کررہے ہیں،لیکن کیا وہ حقوق جو اسلام نے عورت کودیئے ہیں ہم نے بھی انکو دیئے ہوے ہیں؟لیکن شایداس پرنہ میں سراٹھا سکوں، نہ کوئی اہلِ ورع وتقویٰ پیرومولوی اس کا جواب دے سکے،،کیونکہ ہم نے بھی اسلام کواپنایا نہیں،بلکہ ہم بھی اسے استعمال کررہے ہیں،لہذامیں آج اپنی ان معززومحترم بہنوں بیٹیوں سے اپیل کروں گا، جنہوں نے اسلام کی تعلیم کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے،جودارالعلوم للبنات کے والی ومتولی ہیں،وہ اپنی ان ہونہار طالبات کوجہاں تعلیم سے مزین کررہے ہیں ان کواسنادوردائیں تفویض کررہے ہیں،ان کواس تربیت سے بھی مزین کریں، عورت بے علم کو بھی تو ہماری زبان میں ”بی بی عالم“ کہتے ہیں،آپ تو ماشاء اللہ واقعتاًہی عالم ہوگئی ہیں،لہذاباوجود اس کے آپ علم کے فخر سے مزین ہیں لیکن آپ کی اصلیت اور آپ کا اصلی فخر پھربھی نسوانیت کی حفاظت میں ہے اورنسوانیت کا محافظ صرف ایک غیرت مند مرد ہی ہے،لہذاسب علم وفضل صرف آپ کی گود کے مدرسہ کے لیے ہونا چاہیے نہ کہ معاش کے لیے،علامہ ہی نے کہا ہے،”بیگانہ رہے دیں سے اگرمدرسہِ زن،ہے عشق ومحبت کے لیے علم وہنر موت“یعنی آپ کی گود کا مدرسہ جب عملی دیں سے بیگانہ رہا توپھر یہ علم وہنرآپ کی اولادمیں جوعشق ومحبت پیدا ہونا ہے،اس کے لیے موت ہے،توجب گود ہی سے عشق ومحبت مر گئے توپھر کیسے کوئی کہے گا، ”قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے،دہرمیں اسمِ محمد سے اجالا کردے“ اسی لیے علامہ نے کہا ہے کہ ”نے پردہ نہ تعلیم نئی ہوکہ پرانی،نسوانیتِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد“وما علی الاالبلاغ۔