ہر تیسرا فرد سیاسی قیادت بارے شکایت کرتا نظر ا رہا ہے جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر معیاری و باصلاحیت سیاسی قیادت کا فقدان ہے کیوں اور اسے کیسے اور کون معیاری بنائے گا ؟ شکایات کرنے والے شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ سیاسی قیادت عوام کے اندر سے ہی جنم لیتی ہے لہزا اپنی قیادت کو سمجھنے کے لیے انسان اپنے آپ کو ہی اگر دیکھ اور سمجھ جائے تو اسے اپنی قیادت کی سوچ و فکر اور معیار کا اندازہ ہو سکتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک لیڈر کا معیار عام انسانوں کے معیار سے بہتر اور بلند ہونا چائیے ۔ معیاری قیادت پیدا کرنے کے لیے پہلے خود معیاری انسان بننے کی ضرورت ہے۔ اسلام میں خیر بانٹنے والے کا شمار اچھے انسانوں میں ہوتا ہے جو مخلص، ہمدرد، نیک، دیانتدار ، خوش اخلاق، وقت اور وعدے کی پابندی کرنے والی خوبیوں کے مالک ہوں اور جنکا ظاہر اور باطن ایک ہو۔ عام انسانوں کی نسبت ایک لیڈر کے اندر قوت برداشت ، قوت فیصلہ ، ہمت جرآت اور فہم و فراست کی بھی زیادہ توقع کی جاتی ہے لیکن آئیے دیکھتے ہیں کہ غیر مسلم ماہرین نفسیات کے نزدیک معیاری و غیر معیاری انسان میں کیا فرق ہے؟
امریکہ کی ماساچوسٹ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق اعلی و ادنی انسان میں فرق بیان کرتے ہوئے اخلاص کو اولیت دی گئی ہے۔ محققین کے مطابق کچھ لوگ بڑے خوش مزاج، ملنسار اور موقع محل کے مطابق بات کرنے کے ماہر ہوتے ہیں لیکن اگر وہ مخلص نہیں تو ان کے قول و فعل کا تضاد بہت جلد سامنے ا جائے گا بلکہ خطرہ ہے کہ وہ آپ کے ساتھ وعدہ خلافی، بے وفائی اور دھوکہ بازی کر کے آپ کو کوئی نقصان پہنچا دیں۔ معیاری انسان زمہ دار اور غیر معیاری غیر زمہ دار ہوتا ہے۔ انسان کو اس کی سطحی دلکشی اور کرشمہ سازی نہیں اس کی اقدار ، اعمال اور مستقل مزاجی کی بنیاد پر دیکھا جانا چائیے۔ اعلی درجے کے افراد ایسی اقدار کو برقرار رکھتے ہیں جنکی جڑیں احترام، دیانت، ہمدردی اور ذاتی ترقی میں مضمر ہیں۔ وہ دلکشی کو ان خوبیوں کا متبادل نہیں سمجھتے ۔ معیاری لوگ قناعت پسند اور ہمدرد ہوتے ہیں جبکہ پست معیار افراد کے پاس اگر دولت اور طاقت ا جائے تو وہ دولت کی نمائش اور طاقت کا غلط استعمال کر کے دوسروں کا استحصال کریں گے۔ وہ کبھی کسی چیز سے مطمئن نہیں ہوتے۔ یہ نمائشی لوگ معاشرے میں احساس کمتری پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ پست سوچ کے مالک افراد کے پاس اگر طاقت ا جائے تو معاشرے میں جمود طاری کر دیتے ہیں کیونکہ وہ ترقی و تبدیلی سے خائف ہوتے ہیں۔ انکے دعوے اور وعدے تو بڑے بلند و بانگ ہوتے ہیں لیکن عمل کچھ نہیں ہوتا۔ وہ دوسروں کے پاس صرف اپنی ضرورت کے وقت جاتے ہیں جس طرح ہمارے اکثر سیاستدانوں کے رویوں میں الیکشن کے دوران اور بعد مختلف فرق ہوتا ہے مگر عوام کی اکثریت پھر بھی سبق حاصل نہیں کرتی جس کی وجہ سے رونا اس کا مقدر بن گیا ہے۔ ماساچوسٹ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق دس منٹ کی گفتگو میں 60 فی صد لوگ کم از کم ایک جھوٹ ضرور بولتے ہیں لیکن جب ہم نام نہاد مسلمان بازاروں میں خرید و فروخت کے لیے جاتے ہیں تو دکاندار ہر شہ کے بارے جھوٹ بولتا نظر آتا ہے۔ خریدار کو پہلے مرحلے میں بتائی جانے والی قیمتیں بحث مباحثہ کے بعد نصف ہو جاتی ہیں۔ کوئی لیڈر ہو، سرکاری ملازم ہو یا عام فرد، وقت کی کوئی پابندی نہیں کی جاتی بلکہ اگر کوئی سرکاری افسر ادارے میں بہتری لانا چاہتا ہے تو بد عنوان اور بد دیانت اکثریت ادارے کے اندر اس کے خلاف ہو جاتی ہے جبکہ یہ بھی دیکھا گیا کہ قانونی راستہ دکھانے والے افسر کو بائی پاس کر کے لوگ رشوت خور سے اسی وقت کام کروا لیتے ہیں اور جو سائلین قانونی طریقے سے کام کروانا چاہتے ہیں رشوت خور ملازمین انکی فائلیں ہی غائب کر دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں دیانتدار افسران اور ایمان دار سائلین کو ہر وقت ازیت ناک صورت حال کا سامنا رہتا ہے۔ ان کو کہا جاتا ہے کہ یہاں تبدیلی ناممکن ہے لہزا زندہ رہنے کے لیے معاشرے کی اصلاح کی فضول کوششوں کے بجائے اس کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ سب سے زیادہ سیاست دانوں کے خلاف شکایت کرتے ہیں وہی ولیمیوں اور جنازوں میں انکی پروٹوکول میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو معیاری و باصلاحیت قیادت کی توقع نہیں کرنی چاہیے ۔ اگر ہم واقعی ایک معیاری معاشرہ چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں خود معیاری انسان بننے کی ضرورت ہے۔ یہ معیار صرف سیاست میں نہیں گھروں میں محلوں میں اداروں اور بازاروں میں نظر آنا چاہیے!