پاک – افغان – ایران کے 148 گھنٹے بائی روڈ سفر کی روداد : قیوم راجہ

ہمارے ایرانی دوستوں کی خوائش تھی کہ ہم تین جون کو امام خمینی صاحب کی برسی کے موقع پر ایران کا دورہ کریں لیکن ہمارا اپنا شیڈول اور بجٹ اس کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ میں نے زندگی کے بے شمار بائی روڈ سفروں کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے اس دفعہ سفری اخراجات کم کرنے کا ایک نیا فن ایجاد کرتے ہوئے رات کو ہوٹل بک کرانے کے بجائے وی ائی پی کوچ بک کرکے راتوں کو سفر کیا۔ اس دوران ہم کوچ میں نیند بھی پوری کر لیتے اور شہر با شہر سفر بھی کر کے دن کو ملاقاتیں کر لیتے۔ اس فن کی مدد سے 14 دنوں کے دورہ میں ہم نے صرف پانچ راتیں ہوٹل پر گزاریں۔ افغانستان اور ایران کی وی ائی پی کوچیں پاکستان کی فیصل موور سے بھی زیادہ ارام دہ تھیں ورنہ مسلسل اتنا طویل سفرطممکن نہ تھا۔

افغانستان کی طالبان حکومت کی وزارت سرحدات کے رئیس قاری متین کے ساتھ قیوم راجہ کی ملاقات

باغ ازاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے میرے دوست عمر اخلاص اور راقم بائی روڈ سفر کے لیے کمر بستہ ہو کر 9 مئی کو ہم گھر سے نکلے لیکن اسلام اباد میں دو دن کی غیر متوقع تاخیر کے باعث 11 مئی کو ہم راولپنڈی سے فیصل موور کوچ پر پشاور کے لیے روانہ ہوئے جو پاکستان کی بہترین کوچ سروس ہے۔ دو گھنٹوں میں پشاور اور اتنا ہی وقت طورخم بارڈر تک لگا۔ طورخم بارڈر کے بارے جو خدشات ہم نے سن رکھے تھے وہ ہمارے تجربات کے مطابق بالکل غلط ثابت ہوئے۔ دونوں ملکوں کی امیگریشن کے رویے بہت اچھے تھے البتہ دونوں اطراف کے امیگریشن احاطہ کو بہتر کرنے اور ٹرانسپورٹ کے ایجنٹوں کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان ، افغانستان اور ایران کی سرحدات پر موجود ٹیکسی سروس اور کوچوں کی کمپنیوں نے کمیشن پر کام کرنے والے جو ایجنٹ چھوڑ رکھے ہیں وہ تینوں ملکوں کے لیے باعث شرمندگی ہیں ۔ ہر کمپنی کی کوشش ہوتی ہے کہ مسافر ان سے ٹکٹ خریدیں ۔ ساری کمپنیوں کے ایجنٹ مسافروں کو گھیر کر ایک ساتھ بولیاں لگانے کر دیتے ہیں اور مسافروں کو کسی ایک کی بھی بات سمجھ نہیں اتی۔ ہر ایک کا ریٹ اپنا ہے۔ مسافروں کو خود فیصلہ کرنے کا موقع نہیں دیتے بلکہ انکا سامان گھسیٹ کر اپنی اپنی ٹیکسیوں میں رکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ چند لمحوں کے لیے لگتا ہے کہ انسان کسی پاگل خانے میں ا گیا ہے۔ اس مسلہ کا واحد حل یہ ہے کہ سرحدوں پر کوچ سٹیشن اور ٹیکسی سٹینڈ سے بائر سواریوں کا گھیرائو غیر قانونی قرار دیا جائے تاکہ مسافر خود اطمینان سے مختلف کمپنیوں کے دفاتر سے معلومات لے کر اپنے لیے موزوں سروس کا انتخاب کر سکیں۔ ایران میں ملک کے اندر جدید سفری سہولیات کے باوجود کمپنیوں کے بے لگام ایجنٹ ملک کے لیے بدنامی کا باعث ہیں۔

سرحدوں اور اڈوں کا مرحلہ طے کرنے کے بعد جب ہمیں عام افغانی اور ایرانی سے واسطہ پڑا تو ہم انکی تہزیب اور مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوئے البتہ ایرانی اپنی زبان کے ساتھ کوئی کمپرومائز نہیں کرتے جبکہ افغانیوں کو اگر کوئی دوسری زبان اتی ہو تو بول لیتے ہیں اور کسی مقام کو تلاش کرنے کے لیے مسافر کے ساتھ پیدل چل بھی پڑتے ہیں۔

افغانستان بارے دنیا کا غلط تصور :

افغانستان کو دنیا ایک خطرناک اور غیر محفوظ ملک تصور کرتی ہے۔ طالبان کی حکومت کے بعد اس کے خلاف منفی پروپگنڈا تیز ہو گیا ہے جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ افغانوں نے کبھی بھی کسی غاصب کی حاکمیت کو قبول نہیں کیا ورنہ مغرب و مشرق میں افغانوں جیسا کوئی مہمان نواز اج تک میں نے نہیں دیکھا ۔ افغانستان میں ہمیں درجنوں پاکستان اور ازاد کشمیر میں پیدا ہونے والے افغان ملے ہیں۔ وہ جہاں امریکہ کی ایما پر مشرف دور کی زیادتیوں اور اب افغان مہاجرین کو واپسی کے لیے مناسب وقت دیے بغیر پاکستان سے نکال دینے کی شکایات کرتے ہیں وہاں وہ پاکستانیوں اور کشمیریوں کے ساتھ گزرے ماہ و سال یاد کر کے روتے بھی ہیں۔ ہم نے اپنے لیے جتنی اپنائیت افغانوں کے اندر دیکھی کئیں نہیں دیکھی ۔ عمر اخلاص اور میں نے طورخم سے کابل کے لیے جو مشترکہ ٹیکسی کی اس میں ایک نوجوان نے اپنا نام نورباز خان بتاتے ہوئے میرا نام پوچھا۔ میں نے جب کہا قیوم راجہ تو اس نے پوچھا اپ چئیرمین راجہ قیصر کو جانتے ہیں۔ مجھے حیرت ہوئی کیونکہ راجہ قیصر تو ہمارے عزیز ہیں ۔ پوچھنے پر نورباز خان نامی اس نوجوان نے بتایا کہ وہ میرپور میں پیدا ہوا اور میرے شہر کھوئی رٹہ رہاش پذیر رہا۔ اس نے ہمیں اپنے گھر ٹھہرنے کی دعوت دی لیکن ہم نے کابل سے مزار شریف 14 گھنٹوں کی مسافت پر اگے جانا تھا۔ رئیس وزارت سرحدات قاری متین بھی مزار شریف کے دورے پر تھے۔ انہوں نے سرکاری گاڑی بھیج کر ہمیں ہوٹل سے اپنے رہاش پر بلا لیا۔ ان کی وساطت سے مولانا جلال الدین بلخی المعروف مولانا رومی کے شہر بلخ کو دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ افغانوں کو شکایت ہے کہ مغرب نے انکے ہم وطن مولانا جلال الدین بلخی کا نام بگاڑ کر رومی رکھ دیا اور ایرانی اور ترک انہیں اپنا شہری قرار دے کر افغانوں کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ جب ہم رئیس وزارت سرحدات کے ساتھ بلخ پینچے تو وہاں ایک بکرا زبع ہو چکا تھا لیکن جب عمر اخلاص اور میں ایک پلیٹ گوشت بھی نہ کھا سکےتو میزبان ہم پر ترس کھانے لگے۔ عصر کے وقت میزبانوں نے ہمارے سامنے ائس کریم کی ایک پلیٹ رکھی جسے ہم پہاڑی لوگ تواخ کہتے ہیں۔ یہ مرحلہ بکرے کے گوشت کی پلیٹ سے بھی مشکل تھا۔ رئیس وزارت سرحدات ہمیں بلخ میں ایک جلسے میں لے گے جہاں انہیں بھی سیکورٹی کے مراحل سے گزرنا پڑا جس پر انہوں نے برا نہیں منایا بلکہ خوش ہوئے کہ انکی سیکورٹی صحیع کام کر رہی ہے۔ 13 مئی کو ہم مزار شریف سے 14 گھنٹوں کا سفر طے کر کے واپس کابل پینچے کیونکہ سرکاری حکام نے ہمیں بتایا کہ اس سرحد پر بہت سمگلنگ ہوتی ہے اور ایسا نہ ہو کہ ہم بھی کسی شبعہ کا شکار ہو جائیں۔ کابل سے وی ائی پی کوچ لے کر ہم 12 گھنٹوں میں محمود غزنوی کے شہر کندھار اور کندھار سے ایران کی سرحد پر واقع افغانستان کے شہر اہرات پہنچے۔ کابل سے ایران کے لیے ہمیں پاکستان میں پیدا ہونے والے 32 سالہ نوجوان ظاہر خان نے الوداع کیا اور واپسی پر بھی اس نے ہمارا استقبال کیا اور طورخم واپسی کے سارے انتظامات کیے۔ اہرات میں ہماری رہنمائی ایک اور افغانی نوجوان سعیداللہ خان نے کی اور اپنے دفتر میں لے جا کر ہماری تواضع بھی کی۔۔ اہرات سٹی میں ایک رات قیام کے بعد ہم 14 مئی کو ایران میں داخل ہو گے۔ صفائی کا یہ عالم تھا کہ ایران اور افغانستان کے شہروں کے ہوٹل تو درکنار کسی اڈے کے ہوٹل پر بھی ہمیں کوئی مکھی نظر نہ ائی۔ 14 دنوں کے سفر کے دوران پہلی مکھی مجھے واپس پشاور پہنچ کر نظر ائی۔ ہم نے یہ بھی محسوس کیا کہ افغانستان اور کے پی کے کے پٹھانوں کی تہزیب میں بھی بہت فرق ہے۔ ماحول کے اثرات کیبوجہ سے ایک ہی نسل دو مختلف معاشروں میں پرورش پانے سے بدل جاتی ہے۔

افغانستان میں خواتین کی تعلیم بارے بھی گفتگو ہوئی۔ طالبان حکومت خواتین کی تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کو تسلیم تو کرتی ہے لیکن اس کا موقف ہے کہ بالغ بچیوں کی تعلیم الگ ہونی چائیے جس کے لیے وہ جلد انتظامات کرنے کا دعوی کرتی ہے ۔ عام افغان شہریوں کا اصرار ہے کہ ایک اسلامی ملک میں سیکورٹی کے اداروں اور ہسپتالوں میں خواتین کے لیے خواتین کا عملہ ہونا چاہیے جو ایک جائز موقف ہے ۔

ایران داغدار شد:

افغانستان کی اہرات سٹی کے ساتھ ایران کے تیباد شہر کی سرحد ملتی ہے۔ ایران میں داخل ہونے کے تین گھنٹے بعد ہم ایران کے روحانی شہر مشہد پہنچ گے۔ تین مرتبہ مشہد جانے کی وجہ سے میں اس شہر سے اچھی طرح واف تھا۔ حرم امام رضا کے امانت خانہ میں ہم نے اپنا سامان رکھا جس کی کوئی فیس نہیں ہوتی۔ حرم میں حاضری کے بعد ہم نے رات دس بجے بیرجند شہر کی کوچ لی اور صبع سات بجے ڈاکٹر زینب کے خاوند ابراہیم نے کوچ سٹیشن پر ہمارا استقبال کیا۔ دوپہر کے کھانے کے فوری بعد وہ ہمیں مقامی ڈیم اور باغ کی سیرکو لے گے۔ یہاں سنی مسلمانوں کی کافی تعداد رہتی ہے۔ مقامی باغ میں ہمارے جموں کے پہاڑی توت کے سینکڑوں درخت تھے ۔ ہمیں بچپن کی وہ دن یاد ا گے جب ہم اپنے جنگلات میں اس طرح کے لزیز قدرتی پھل کے مزے لیا کرتے تھے۔ ہمارا محکمہ جنگلات جوں جوں ترقی کر رہا ہے توں توں قدرتی پھلوں کے درختوں کا قتل عام تیز ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر زینب ہمارے لیے شام کا کھانا تیار کرنے لگی تھیں کہ خبر ائی کہ ان کے والد کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ وہ ہسپتال چلی گئیں اور ہم واپس مشہد ا گے جہاں میں نے فردوسی یونیورسٹی میں اپنے ایرانی دوستوں سے ملنا تھا۔ فردوسی یونیورسٹی میں ایران کے عالمی مفکر علی شریعتی کے نام پر قائم شعبہ ادبیات میں محترمہ ماسا ازمودے اور محمد کریمی سے ملاقاتیں کیں۔ ایران میں میٹرو اور بسوں پر سفر کے لیے ایک مشینی کارڈ لینا پڑھتا ہے جو میرے پاس نہیں تھا لیکن اجنبی ہونے کی وجہ سے میرے ساتھ رعایت برتتے ہوئے مفت سفر کرنے دیا گیا۔ ایک رات مشہد قیام کے بعد 17 مئی کو ہم 12 گھنٹے کا کوچ سفر طے کر کے تہران میں طے شدہ ملاقاتوں کے لیے پہنچے ہی تھے کہ صدر اور وزیر خارجہ کی افسوس ناک موت کی خبر ملی۔ ہم کوچ ٹرمینل پر ایک کیفے میں بیٹھ کر غیر متوقع صورت حال کا جائزہ لینے لگے۔ چند ہی لمحوں میں ہر طرف "ایران داغدار شد” کے پوسٹر نظر ا نے لگے جس کا مطلب تھا دکھی ایران ۔ ایرانی جہاں دکھی تھے وہاں ان کا صبر اور تحمل مزاجی ہر دیکھنے والے کے دل میں احترام و تحسین کے جزبات میں اضافہ کر رہا تھا۔ گیسٹ ہاؤس میں سامان رکھنےکے بعد ہم شہر میں گھومنے لگے۔ جگہ جگہ عام لوگ اپنے صدر اور وزیر خارجہ کی حادثاتی موت کے غم کو کم کرنے لیے صدقات و خیرات پیش کر رہے تھے۔

ایرانی صدر اور وزیر خارجہ کی شہادت نے ہمارا شیڈول تو متاثر کیا لیکن شہید ہونے والے وزیر خارجہ کے ساتھ کام کرنے والے پویا مرزاعی اور عالمی میڈیا سروس کے محمد قادری پھر بھی وقت نکال کر ہمیں گیسٹ ہاؤس میں ملنے ائے جہاں باہمی روابط مضبوط کرنے کا عہد کیا گیا۔ دوران ملاقات جموں کشمیر اور فلسطین سمیت اسلامی دنیا کے حالات و معاملات زیر بحث ائے۔

اس سفر کے دوران ہم نے محسوس کیا کہ پاکستان ، افغانستان اور ایران کے درمیان کافی تنائو پایا جاتا ہے۔ اس تنائو کی جو بھی وجوہات ہیں انکو ختم کرنا تینوں ملکوں کے لیے ضروری ہے کیونکہ مخالف قوتیں اس سے فائدہ اٹھا کر یہاں کے امن و امان کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ مغرب نے اپسی جنگوں سے بہت نقصان اٹھایا لیکن بالاآخر اسے احساس،ہوا کہ پڑوسیوں کے ساتھ تنائو امن کو برباد کر دیتا ہے۔ دوستی کے بغیر امن اور امن کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ مغرب نے پہلے اپنی سرحدوں کو نرم کیا پھر یورپی یونین قائم کرلی جس کا اب ایک مشترکہ ائین و قانون ہے۔ پاکستان ، افغانستان اور ایران کے دہرے رشتے ہیں۔ ایک رشتہ اسلامی اور دوسرا پڑوسیوں کا رشتہ ہے۔ ہمیں بھی اپنے اور دوسروں کے تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے مسائل حل اور عوامی روابط اسان بنانے چائیے تاکہ خطے کے لوگوں کے درمیان ہم اہنگی پیدا ہو۔

زندہ معاشرہ:

زندہ معاشرے کی ایک نشانی یہ ہے کہ کسی انسان کے ساتھ نا انصافی دیکھ کر دوسرا انسان خاموش نہیں رہتا۔ طالبان حکومت نے اڈھائی سالوں میں اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے جہاں قانون کی عملداری کو یقینی بنایا وہاں اس مختصتر عرصہ میں تعمیر و ترقی اور عوامی خدمت کے زریعے عوام کے دل بھی جیتے ہیں۔ قانون کے احترام کے ساتھ ساتھ شہری کے حقوق اور عزت نفس کا بھی خیال رکھا،جاتا ہے۔ وطن واپسی پر اہرات شہر سے جو کوچ ہم نے لی وہ اپنے 20 گھنٹے کے سفر کے دو گھنٹے بعد خراب ہو گئی ۔ ہمیں جمعرات 24 مئی کی سہ پہر واپس کابل پینچنا تھا۔ میں نے ڈرائیو کو کہا کہ وہ ہمارا ٹکٹ واپس کرے تاکہ ہم کسی اور کوچ پر ا جائیں۔ میرے بولنے پر باقی مسافر بھی بول پڑے۔ ڈرائیور نے مجھ سے جان چھڑانے کے لیے اگلی پولیس چوکی پر جا کر مجھے پولیس کے حوالے کر دیا کیونکہ اس کے خیال میں میری وجہ سے باقی مسافر بھی گاڑی کی تبدیلی کا مطالبہ کرنے لگے تھے لیکن میرا ویزہ اور دیگر کاغزات دیکھ کر سنئیر پولیس افسر نے مجھے بس سے اتارنے والے پولیس افسر اور ڈرائیور کو ڈانٹ دیا اور مجھ سے معزرت کی۔ کابل گیٹ پر موجود پولیس نے حسب معمول ہمارے کاغزات چیک کیے تو کوچ میں موجود کچھ مقامی مسافر بول پڑے کہ مہمانوں کا خیال رکھا جائے۔ پولیس نے کہا اپ ہمارے مہمان ہیں لیکن یہ روٹین چیک اپ ہے۔ کئی مقامات پر دیکھا گیا کہ طالبان پولیس شہریوں اور غیر ملکی مسافوں کے ساتھ انتہائی مہزبانہ طور پر پیش اتی ہے اور غیر ملکیوں سے پوچھتی ہے کہ انہیں کوئی مسلہ درپیش تو نہیں۔ افغانوں کے اسی اخلاق نے سابقہ طالبان حکومت کے ہاتھوں غیر قانونی طور پر افغانستان میں داخل ہونے کی کوشش میں قید ہونے والی برطانوی صحافی خاتون ایون رڈلے مسلمان ہو گئی تھی۔ 24 مئی 6 بجے شام ہم طورخم بارڈر پر پہنچے تو کابل سے ایک بار پھر کال ائی کہ ہمیں کوئی مسلہ تو درپیش نہیں۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*