وزیر اعظم اور وزیر صحت کی توجہ کے لیے : قیوم راجہ

محکمہ صحت کو موثر بنانے کے لیے ماہرین صحت کی زہنی صحت اور ہسپتالوں کے ماحول کی درستگی بنیادی ضرورت ہے۔ ڈاکٹروں اور دیگر میڈیکل سٹاف کی زہنی صحت کو تسلی بخش رکھنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان میں جاب سیٹیسفیکشن بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ جاب سیٹیسفیکشن کے لیے سب سے پہلے ہسپتالوں سے وابستہ ہر ملازم کو پہلے نوکری کا تحفظ چائیے جس کے لیے سیاسی مداخلت ہر گز نہیں ہونی چائیے۔ ہمارے ملک میں میرٹ کے بجائے سیاسی بنیادوں پر تعیناتیاں پیشہ وارانہ رویوں اور صلاحیتوں پر برے اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ سیاسی کلچر نیا نہیں۔ اس لیے صرف آپ کی حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا لیکن آپ اگر مکمل طور سے ختم نہیں کر سکتے تو کم از کم اصلاحات کی شروعات تو کر سکتے ہیں لیکن بد قسمتی سے نظام کی خرابی کی وجہ سے بے شمار تعلیم یافتہ لوگ بیرون ملک چلے گے ہیں بلکہ سترہ اٹھارہ گریڈ کے ملازمین کی بھاری تعداد بھی یورپ جا چکی ہے جہاں وہ یہاں کی افسری چھوڑ کر یورپ کے ہوٹلوں میں کام کرنے کو ترجیع دینے لگے ہیں۔ اب خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پرانے ایڈہاک ڈاکٹروں کے ٹیسٹ انٹرویوز کروا کر ان کو میرٹ پر مستقل کرنے کے بجائے آپ کی حکومت ان کی جگہ نئ ایڈہاک بھرتیاں کر رہی ہے اور موجودہ ایڈہاک ڈاکٹروں کی مدت ملازمت بھی آئندہ شمار نہ ہو گی جو بہت زیادتی ہے۔ ڈاکٹروں پر اکثر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ دوران تعلیم جس انسانی خدمت کا جذبہ لے کر ڈاکٹرز بننے کی کوشش کرتے ہیں وہ ڈاکٹرز بن جانے کے بعد نظر نہیں آتا لیکن اس کی بھی کچھ سیاسی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ ناقص اور مہنگا نظام تعلیم ہے۔ کسی بھی طالب علم کو حصول تعلیم کے لیے حکومتوں کی طرف سے ضروری سہولیات نہیں ملتیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی ناقص کار کردگی کی وجہ سے نجہی تعلیمی اداروں سے تعلیم کے لیے طلباء کو اتنے زیادہ اخراجات کرنے پڑتے ہیں کہ وہ نوکری حاصل کر کے سب سے پہلے تعلیم پر کیے گے اخراجات پورے کرنے کے چکر میں لگ جاتے ہیں اور کچھ تو بے چارے ہوتے ہی مقروض ہیں۔ دوران تعلیم جن طلباء و طالبات کو دوران تعلیم نظام کے غیر انسانی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان سے معاشرہ کہاں تک انسانی رویوں کی توقع کر سکتا ہے۔ وہ جس معاشرے کی پیداوار ہوتے ہیں اسی کی بعد میں نمائندگی کرتے ہیں۔ آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ محکمہ تعلیم اور صحت پر توجہ دے کر ان کی ترجیح بنیادوں پر اصلاح کریں اور 170 ایڈہاک ڈاکٹروں کو واپس صفر سے شروع کرنے اور نئے ایڈہاک ملازمین کی فہرست میں شامل کرنے کے بجائے پہلے انکے ٹیسٹ انٹرویوز کر کے پاس ہونے والوں کو مستقل کریں اور پھر نئی ایڈہاک تعیناتیاں کریں۔ میں نے میرپور ڈی ایچ کیو کا دورہ کیا ہے۔ وہاں کافی بہتری آئی ہے لیکن مزکورہ فیصلے نے ڈاکٹروں کے لیے کافی تنائو پیدا کیا ہے جس کا اثر مریضوں اور ہسپتال کے ماحول پر بھی پڑے گا۔ امید ہے آپ توجہ فرما کر حالات درست کرنے کی کوشش کریں گے۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*