بارشوں کے موسم میں بارشیں تو ہوتی ہیں۔۔۔۔! سید فرحان الحسن

نوجوان نسل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں رہتی ہے، یہ اپنی زندگی ان تخیلات اور تصورات کے زیر سایہ گزارتے ہیں جن کا حقیقت سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہوتا، لیکن ان سے یہ شکوہ کرنے والے دانشور اور مفکر حضرات جو ان مسائل کا تدارک چاہتے ہیں وہ خود ہی دراصل نوجوانوں کے ان مسائل کو پیدا کرنے کی راہ بھی ہموار کر رہے ہیں!

سردیوں کی آمد آمد ہے، ملک کے مختلف علاقوں میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، آج کل شعراء اور ادیب حضرات بارش کے موسم کو عجیب رومانوی اور افسانوی انداز میں پیش کرتے ہیں، بارش میں اکیلے کھڑکی کے قریب یا گیلری میں بیٹھ کر تیز گرم پکوڑوں کے ساتھ چائے کی چسکیاں بھرتے ہوئے ایک نوجوان کو دکھاتے ہیں، جو ہاتھ میں ایک رومانوی ناول پکڑے اپنی محبوبہ کے ساتھ بتائے ہوئے لمحات کو یاد کر کر کے مسکرا رہا ہے۔ لیکن یہ شاعری اور افسانہ پڑھنے والے حضرات یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ یہ محض شاعری اور افسانہ ہے، اور پھر ہر دوسرا نوجوان اپنی زندگی کی پریشانیوں کا اس افسانوی نوجوان کے پر مسرت حالات سے موازنہ کرکے اسٹریس اور ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو بارش کے آثار دیکھ کر ہم پکوڑوں اور چائے کے بارے میں سوچ بھی نہیں پاتے کہ گھر کی کسی بزرگ خاتون کے چلانے پر سب چھت سے کپڑے اتارنے کے لئے دوڑ پڑتے ہیں، جب سارے کپڑے چھت سے گھر کے کسی محفوظ مقام پر منتقل کر دیئے جاتے ہیں تو چھت بھی غیر محفوظ نہیں رہتی (بارش بھی نہیں ہوتی) یا پھر بارش صرف ان چند لمحات میں اپنے رنگ ہم پر برساتی ہے جب تک ہم چھت سے کپڑے اتارنے کے لئے چھت پر موجود ہوں (جیسے بارش کی ہم سے کوئی پرانی مخاصمت ہو اور آج اس کو ہم سے حساب چکتا کرنے کا موقع مل گیا ہو)، اگر اس ساری باگ دوڑ کے بعد بھی انسان پکوڑے اور چائے کے بارے میں سوچنے کی جسارت کر بیٹھے تو اس سرد موسم میں پاکستان کے طول وعرض میں شاید ہی کوئی علاقہ ہو جہاں چولہے میں گیس موجود ہو، ویسے تو پاکستان قدرتی گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے لیکن یہ ذخائر عمومًا معاشرتی علوم اور مطالعۂ پاکستان کی کتابوں میں ہی پائے جاتے ہیں، عوام تک ان کی باقاعدہ ترسیل کا کوئی مؤثر نظام آج تک بنایا نہ جا سکا۔ اگر قسمت سے گیس ابھی تک چولہے تک آرہی ہو تو عین اس وقت جب بارش جوبن پر ہو تو امی اچانک ہمارے سروں پر ایک بجلی گراتی ہیں کہ باقی سب ٹھیک ہے لیکن پکوڑوں کے لئے نمک ختم ہو چکا ہے، ہم جو ابھی تک کسی نہ کسی صورت بارش کے رومانس میں مبتلا ہوتے ہیں خوشی خوشی گھر سے باہر نکلتے ہیں لیکن گھر کا دروازہ پھلانگتے ہی سارا رومانس اور خوشی اس پانی میں بہہ جاتی ہے جو گھر کے دروازے کے عین سامنے بہہ رہا ہوتا ہے، ویسے تو کہا جاتا ہے کہ بارش کا پانی دنیا کا خالص ترین پانی ہوتا ہے لیکن پاکستان میں اس بارش کے پانی میں گلے سڑے پھل، اور محلے کے چند معصوم بچوں کے استعمال شدہ ڈائپرز سمیت دنیا کی تمام اشیاء بلا تفریق خصوصیات اور برائیوں کے اس بارش کے پانی میں اپنا رس گھول رہی ہوتی ہیں، اگر آپ ہمت کرکے اس پانی میں اتر ہی جائیں تو اچانک یاد آتا ہے کہ آپ نے کل ہی اخبار میں ’’بارش کے بعد سڑک کنارے بجلی کی تار گرنے سے پانی میں کرنٹ دوڑ گیا، ایک نوجوان سمیت آٹھ افراد جاں بحق‘‘ پڑھا تھا، اس وقت آپ کو اس خبر کے ساتھ اپنی تصویر بھی نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اگر آپ صحیح سلامت دکان تک پہنچ بھی جائیں تو واپسی پر نمک تیز بارش میں اس طرح آپ کے ہاتھوں سے بہہ رہا ہوتا ہے کہ آپ کو اپنا آپ اس گدھے کی طرح محسوس ہو رہا ہوتا ہے جو نمک کی بوری لیئے دریا کے پانی میں بیٹھ جایا کرتا تھا لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر ہم سارے حقائق کو سامنے رکھیں تو وہ گدھا ہمیں اپنے مقابلہ میں ذہین نظر آئے گا۔ گھر واپس پہنچ کر جب پانچ منٹ بعد پکوڑے تیار ہوتے ہیں تو ہم اس دکھ میں ہی بیٹھے ہوتے ہیں کہ کچھ دیر پہلے ہی ہمیں ادراک ہوا تھا کہ ہم گدھے ہیں اور ایسے میں کھڑکی کے سامنے بیٹھ کر چائے اور پکوڑے کھا کر بھی کوئی لطف محسوس نہیں ہوتا کہ گدھا کیا جانے پکوڑوں کا سواد؟

تعارف: سید فرحان الحسن

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*