مسئلہ فلسطین اور اسرائیل : نجیب اللہ زہری

فلسطین میں ہمیشہ سے دو فریق آباد رہے ہیں عرب (مسلمان) اور یہودی، فلسطین میں یہودی عرب مسلمانوں کے سامنے اقلیت کی حیثیت رکھتے رہے ہیں جنگ عظیم اول میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ کے فلسطین پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد عالمی طاقتوں نے برطانیہ پر زور دیا کہ فلسطین میں یہودیوں کے لئے قومی گھر بنایا جائے کیونکہ یہودی دعویٰ کرتے تھے کہ فلسطین ہمارا گھر ہے برطانیہ کی طرف سے قومی گھر بنانے سے اس خطّے میں مزید تناؤ بڑھنے لگا کیونکہ اکثریت مسلمانوں کی تھی کسی طرح بھی اپنی سرزمین پر کسی دوسری قوم کے لئے قومی گھر کو تسلیم نہیں کر سکتے تھے،

اس دوران بیس سالوں میں فلسطین میں نکل مکانی کرنے والے یہودیوں کی تعداد بڑھنے لگی بلکہ اکثریت دوسری جنگ عظیم کے دوران یورپ اور ہولوکاسٹ سے جان بچا کر آئے تھے اس دوران مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان پرتشدد واقعات ہونے لگی جو بلآخر برطانیہ حکومت کے خلاف بھی بڑھنے لگی،

1947 میں اقوام متحدہ نے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرتے ہیں ایک یہودی ریاست ہوگی ایک مسلم ریاست ہوگی اور یروشلم (بیت المقدس) کو بین الاقوامی شہر کا درجہ دیا جائے گا، اقوام متحدہ کے اس فیصلے کو اکثریتی طور پر مسلمانوں نے رد کر دیا اور اس فیصلے پر عمل درآمد بھی نہ ہو سکا-

1948 میں برطانوی حکمران مسئلہ فلسطین حل کیئے بغیر اس خطّے سے نکل گئے جس سے مزید حالات خراب ہوئے اور اس چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہودیوں رہنماؤں نے اسرائیلی ریاست کا اعلان کردیا اس دوران ایک سال تک مسلسل جنگیں ہوئی، اردن اور مصر کی افواج نے بھی اس جنگ میں حصّہ لیا تھا،

النکبہ، کا واقعہ یعنی تباہی والی جنگ اس فیصلے کو مسترد کرنے کی صورت میں اس دوران تباہ کن جنگ ہوئی جہاں ہزاروں فلسطینی مسلمانوں کو بے گھر کردیا گیا-

میں جس بات کی طرف آنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جب امن معاہدہ نہیں ہوا تھا تو مصر اردن اور اسرائیل نے جہاں جہاں قبضہ کیا اس کی موجودہ شکل کیا ہے اردن نے ویسٹ بینک، مصر نے غزہ کی بٹی، اسرائیل نے بیت المقدس کے مغربی حصّے اور اردن نے مشرقی حصّے کو سنبھال لیا تھا جہاں کئی سالوں تک مزید جنگیں بھی ہوئی،

1967 میں اسرائیلی فوج نے گولان پہاڑی سلسلہ جو شام کا حصہ ہے سمیت ویسٹ بینک یعنی غرب اردن اور بیت المقدس کے مشرقی حصّے پر بھی قبضہ کر لیا اور آج تک قابض ہے، اس دوران اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں مقیم فلسطینی خاندانوں کو اس بنا پر قید کردیا کہ یہ ان کا اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم نہ کرنا اسرائیل کے وجود کے لئے خطرہ ہے،

امریکی پشت پناہی میں اسرائیل عالمی قوانین کو روندتے ہوئے 6 لاکھ یہودی آباد کر کے 23 لاکھ فلسطینی مسلمانوں کے ہوتے ہوئے بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ کہتا ہے اور فلسطینی مسلمان یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں،

غزہ میں الفتح کی حکومت بعد اب حماس کی حکومت ہے اور حماس کا خطّے میں منظم جنگجو تنظیموں میں شمار ہوتا ہے جس کا نیٹورک مضبوطی سے کام کرتا ہے حماس نے حکومت سنبھالنے کے بعد متعدد دفعہ اسرائیل سے جنگ کی ہے جس کی وجہ سے اسرائیل نے مصر سے ملکر غزہ کی سرحدوں کی سختی سے نگرانی شروع کی کہیں ہتھیار حماس کے ہاتھ نہ لگ جائیں-

مصر میں مرسی حکومت اسرائیل کے خلاف تھی وہ غزہ کی سرحدوں پر سخت پابندیاں نہیں لگاتی تھی مصر میں اندرونی سیاسی کمزوریوں کی وجہ مصر کی حکومت فوجی جرنیل السیسی کے ہاتھوں میں آنے کے بعد اب مصر کی جانب سے بھی غزہ کی پٹی پر سرحدی سختیاں زیادہ ہوگئی تھی کیونکہ سیسی حکومت اسرائیل نوازوں میں شمار ہوتی ہے،

اسرائیل فلسطین کے مسئلے کو ٹھنڈا سمجھ کر اپنی ٹیکنالوجی کو لیکر عالمی سطح پر سیاسی جنگ میں گود رہا تھا جیسے ایرانی جوہری توانائی کو کمزور کرنے کے لئے ایرانی سائنسدانوں کو قتل کرنا شروع کیا جس پر ایران اور اسرائیل میں سرد جنگ شروع ہوئی اس لئے اسرائیل کو امریکن پولیس اسٹیٹ کہا جاتا ہے چونکہ جب بھی امریکہ خطّے میں کوئی تبدیلی چاہتا ہے اس کے لئے اسرائیل کا استعمال کرتا ہے،

جب اسرائیل دوسروں کی جنگ میں شامل واجہ ( بن بلانا ) بن رہا تھا عین اسی وقت اسرائیل کو پتا ہی نہیں تھا کہ حماس کیا کرنے جا رہا ہے،

اب گزشتہ دنوں فلسطینی مجاہدین (حماس) کی طرف سے اسرائیل پر بحری اور بری حملوں نے اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی اور ٹیکنالوجی کو دنیا کے سامنے ننگا کردیا ہے، اگر دیکھا جائے تو یہ القدس فلڈ نامی جنگ النکبہ سے بھی بڑی جنگ ہے اور یہ نتیجہ خیز جنگ ہے جس سے دونوں طرف سے نقصانات کا اندیشہ ہے،

اسرائیل جو کہ غزہ پر مزید پابندیاں تیز کرے گا اسرائیل غزہ کو 70 فیصد بجلی دے رہا ہے وہ بند کرے گا جس سے غزہ اندھیروں میں ہوگا اور خوراک بھی زیادہ تر اسرائیل سے آتا ہے وہ بھی سرحدی حدود سے بند ہوگا جس سے عام فلسطینیوں کی مشکلات بڑھیں گی اسی طرح غزہ میں آباد 6 لاکھ اسرائیلیوں کے لئے بھی بہت سی مشکلات ہیں،

تعارف: نجیب اللہ زہری

ایک تبصرہ

  1. سید فرحان الحسن

    ماشاءاللہ ایک عمدہ اور معلوماتی تحریر۔۔۔ بہترین نجیب بھائی!

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*