تارکین وطن کا ہموطنوں کے ساتھ تعاون : قیوم راجہ

تارکین وطن کا ہموطنوں کے ساتھ تعاون : قیوم راجہ

آزاد کشمیر کے لوگوں کا بسلسلہ خاندانی کفالت بیرون ملک خاصکر برطانیہ جانے کا سلسلہ 1960 کی دہائی میں اسوقت تیز ہوا جب پاکستان نے میرپور کے ہزاروں لوگوں کے گھروں، قبروں، مسجدوں، مندروں اور زندگی کی ہر یاد کو پانی کی نزر کر کے میرپور ڈیم تعمیر کیا مگر اس کے بدلے میں انہیں زلت رسوائی اور ختم نہ ہونے والے زہنی تشدد کے علاؤہ کچھ نہ ملا۔ یہاں تک کہ پاکستان کے بیرونی زر مبادلہ میں چالیس فی صد حصہ ڈالنے والے آزاد کشمیر کو آج تک ہوائی اڈہ تک نہیں دیا گیا اور نہ کوئی ایسا ارادہ ہے۔ ۔پھر بھی پاکستان پر جب بھی کوئی مشکل وقت آیا تو بیرون ملک کشمیریوں نے اسے اپنا درد محسوس کیا۔ اب تو سرکاری ادارے بھی سرکاری عمارات کی تعمیر و توسیع کے لیے حکومت کے بجائے تارکین وطن کی طرف دیکھتے ہیں

پاکستان اور آزاد کشمیر کی تاریخ میں یونان کشتی حادثہ میں ڈوبنے والے سیکڑوں افراد کی شہادت ایک ایسا ناقابل فراموش واقعہ ہے جو ہمیشہ ہماری ساعتوں سے ٹکراتا رہے گا۔ پاکستان کے تین سو سے زائد اور آزاد کشمیر کے 28 نوجوان یونان کے سمندر کی لہروں کی نذر ہوئے جس کا درد محسوس تو ہر کسی نے کیا لیکن عملی تعاون میں برطانیہ کی کشمیری کمیونٹی نے ایک بار پھر پہل کی۔ ابتدائی طور پر بنڈلی کھوئی رٹہ سے تعلق رکھنے والے راجہ ظہیر کیانی جو ان دنوں برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ میں ہوتے ہیں، بولٹن سے کونسلر راجہ محمد اقبال خان اور راجہ اعظم خان نے پہلا قدم اٹھایا اور پھر بے شمار گمنام تارکین وطن نے حسب توفیق ان کے ساتھ تعاون کیا۔ انکی طرف سے ملنے والی رقوم آزاد کشمیر کے 28 شہیدوں کے ورثاء میں برابر تقسیم کی گئی۔ ہر فرد کے حصہ میں چار لاکھ روپے آئے جو پروفیسر ذوالفقار زائد صاحب کی قیادت میں قائم ہونے والی کمیٹی نے یاد گار میرج ہال کھوئی رٹہ میں ایک تعزیتی ریفرنس میں شہیدوں کے ورثاء کے حوالے کی ۔ بولٹن کمیونٹی کے نمائندہ کونسلر راجہ اقبال صاحب نے راقم کو تجویز دی کہ رقم ورثاء کی مالی حیثیت کے مطابق تقسیم کی جائے یعنی جو زیادہ غریب اور بے سہارا ہے اسے زیادہ دی جائے لیکن کمیٹی کے اراکین کی اکثریت بشمول بولٹن سے ہی نجی دورے پر آنے والے معاون راجہ اعظم خان صاحب کا موقف تھا کہ شاید اس طرح طرف داری و جانبداری کا پہلو نکلے جسکی وجہ سے تمام 28 افراد پر رقم برابر تقسیم کی جائے۔ اس کام کو کمیٹی کے سربراہ پروفیسر ذوالفقار زائد صاحب نے انتہائی باریک بینی سے دیکھا اور احسن طریقے سے اختتام تک پہنچایا جس کے لیے وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں لیکن یقیننا سب سے زیادہ خراج تحسین کے مستحق گمنام معاونین ہیں جن کے جزا خیر اور ورثاء کی حوصلہ افزائی کے لیے گلہار شریف سے ایک نمائندہ کو خصوصی طور پر دعوت دی گئی تھی۔ چند ایک دیگر مخصوص دینی شخصیات نے بھی ورثاء کی دلجوئی کے لیے احادیث و قرآن کے حوالوں سے گفتگو کی جن میں الحاج بابو محمد صادق صاحب، پروفیسر جمروز صدیقی صاحب اور پروفیسر اعبداللہ صاحب شامل تھے جبکہ نظامت کے فرائض وادی بناہ کے بہترین نوجوان مقرر پروفیسر سجاد نے انتہائی خوبصورتی سے ادا کیے۔

یوں تو سانحہ یونان میں ہر کسی کو ہر کسی کا کردار معلوم ہے لیکن اس سے قبل جتنی بھی تقریبات ہوئیں ان میں یونان کشتی حادثہ کے فوری بعد برطانیہ سے سب سے پہلے یونان پہنچنے والے برطانوی کشمیری صحافی راجہ فریاد خان کا زکر نہ کیا گیا ۔ اس لیے مجھے جب کمیٹی کی نمائندگی کے لیے سٹیج پر بلایا گیا تو میں نے ضروری سمجھا کہ انکو خراج تحسین پیش کیا جائے۔ اس کے علاؤہ غریب لوگوں کو مستقبل کے سہانے خواب دکھانے اور آرام سے بحفاظت یورپ پہنچانے والے ایجنٹوں کو گرفتار کر کے لوگوں سے لی گئی رقم کی وصولی میں کھوئی رٹہ پولیس نے انتہائی حکمت و پھرتی سے کام کیا۔ اس موقع پر تھانہ کھوئیرٹہ کے مہتمم سردار سہیل یوسف بھی موجود تھے۔ اداروں کی اصلاح اور فروغ کے لیے ضروری ہے کہ جب کوئی فرض شناسی کا مظاہرہ کرے تو حوصلہ افزائی کی جائے۔ تقریب میں آزاد کشمیر کے سیاستدانوں پر بھی زور دیا گیا کہ وسائل سے مالا مال آزاد کشمیر کے سیاسی و اقتصادی نظام کو بہتر کریں۔ جموں کشمیر کو دنیا کی جنت کہا جاتا ہے۔ اگر جموں کشمیر کی وحدت بحال کر کے اس کا سیاسی و اقتصادی نظام درست کیا جائے تو یقیننا اس خوبصورت مادر وطن اور بہن بھائیوں والدین اور بچوں کو چھوڑ کر قاتل ایجنٹوں کی باتوں میں ا کر سمندر کے ذریعے دیار غیر میں جانے کو کوئی رسک نہ لے۔ اللہ تعالیٰ ہر زمہ دار کو اس دردناک واقعہ سے سبق سیکھنے کی توفیق دے۔ امین۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*