شادی تو سب ہی کرتے ہیں، لیکن شادی کے فیوض وبرکات سے مستفید ہونے کے لیئے ضروری ہے کہ شادی انسان کی اپنی ہو ورنہ بیگانی شادی میں عبداللہ محض بوٹیوں کے لیئے ہی دیوانہ ہو سکتا ہے یا پھر اگر عبداللہ کی ڈیوٹی خواتین والی سائیڈ پر کھانے کی تقسیم پر ہو۔ ویسے شادی خاندان میں کسی کی بھی ہو، نوجوان غیر شادی شدہ لڑکوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کھانے کے وقت ان کی ڈیوٹی خواتین والی سائیڈ پر لگائی جائے، شادی کا فنکشن کتنا ہی بہترین کیوں نہ ہو، آپ کتنی ہی جانفشانی سے اپنی ذمہ داری کیوں نہ سرانجام دے رہے ہوں اچانک کھانے کے دوران وہاں موجود "وہ” دوشیزہ آپ کو مسکرا کر آواز دے "عبداللہ بھائی چمچ” تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کھانے سے پہلے ہی آپ کے دانتوں کے درمیان ریت کے ذرات آ گئے ہوں، جو لاکھ کلیوں اور غراروں کے بعد بھی اپنی جگہ پر رہیں۔
شادی کے بارے میں مختلف لوگوں کی رائے موقع اور محل کے حساب سے بدلتی رہتی ہے، کنوارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں محفل میں شادی کا نام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتے اور توبہ کرتے نظر آتے ہیں اور تنہائی کے لمحات میں پوری پوری رات نوافل پڑھ کر جلد شادی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ شادی شدہ خواتین و حضرات عموماً محافل میں شادی کے فوائد اور زندگی پر اس کے مثبت اثرات پر لیکچر دیتے نظر آتے ہیں جبکہ دل ہی دل میں جھوٹ بولنے پر نادم بھی بہت ہوتے ہیں۔
جب کوئی منچلا شادی شدہ انسان کبھی سربکف ہو کر کسی نوجوان کو یہ بتا بھی دے کہ "دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں” تو مذکورہ نوجوان اس تنبیہ کو اپنے خلاف سازش شمار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ سماعت کے ہمیشہ کے لئے چلے جانے سے پہلے ناچنے کا موقع تو ملے گا، کوئی کتنا بھی کہے کہ "شادی لڈو موتی چور کا جو کھائے پچھتائے” لیکن یہ سوچتے ہیں کہ بے شک یہ لڈو بے شک ان کا آخری لڈو ہی کیوں نہ ثابت ہو وہ یہ لڈو کھا کر ہی رہیں گے، یہ معصوم یہ نہیں جانتے کہ زندگی اور موت کے درمیان اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے اور شادی کا لڈو کھانے سے کوئی مر نہیں جاتا لیکن زندہ بھی نہیں رہتا، بلکہ ہسپتال میں آئی سی یو میں پڑے اس مریض کی طرح ہوتا ہے جو اپنی مرضی سے ہاتھ پاؤں بھی نہیں ہلا سکتا۔
لڑکیاں شادی کے لیئے راضی ہوں یا نہ ہوں، عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مشرقی لڑکی ہے منہ سے شادی کی خواہش کا اظہار نہیں کرے گی اور ایک مشرقی معاشرے میں ان کو سترہ اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنے گھر کا کر دیا جاتا ہے(ویسے لڑکیوں کی عمر عموماً شادی سے پہلے سترہ اٹھارہ سے اوپر جاتی بھی نہیں ہے) اور لڑکا اگر غلطی سے یہ کہہ دے کہ اس کا فی الحال شادی کا کوئی ارادہ نہیں تو اس کی بے خیالی میں کہی گئی اس بات کو اس کا عزم مصمم خیال کیا جاتا ہے اور اس کی شادی کی فکر بالکل ویسے ہی چھوڑ دی جاتی ہے جیسے ہم انتخابات میں کسی سیاسی جماعت کو ووٹ ڈال کر ہر قسم کی فکر سے آزاد ہو جاتے ہیں۔
ویسے بات شروع ہوئی تھی بیگانی شادی سے، تو جب اس بیگانی شادی میں کوئی مانوس سی خاتون آپ کی سیاہ و سفید زلفوں کی طرف دیکھ کر سلام کے بعد فوراً کہے "عبداللہ بھائی آپ نے ابھی تک شادی نہیں کی، دیکھیں یہ میرا بیٹا ہے، بیٹا ماموں کو سلام کرو”, تو آپ کو اپنا آپ کسی دیوانے عبداللہ سے کم نظر نہیں آتا اور آپ خیال ہی خیال میں اپنے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں اپنے چہرے کی جانب موڑ دیتے ہیں کہ عبداللہ واقعی بیگانی شادی میں دیوانہ بن کر رہ گیا، پیار، محبت، پسند ناپسند سب کچھ ایک جھناکے سے جیسے کرچی کرچی ہو جاتا ہے اور پھر آئندہ زندگی آپ کی سماعت سے اس کے وہ الفاظ ہی ٹکراتے رہتے ہیں "بیٹا ماموں کو سلام کرو” اور آپ کوستے رہ جاتے ہیں اس وقت کو جب آپ نے شرم و حیا کا پیکر اور مشرقی روایات کا علمبردار بن کر کہا تھا "میرا فی الحال شادی کا کوئی ارادہ نہیں”۔
