تحریک آزادی کشمیر کے نام پر سرکاری بیرونی دورے : قیوم راجہ

تحریک آزادی کشمیر کے نام پر سرکاری بیرونی دورے : قیوم راجہ

ہر محب وطن اور مخلص ریاستی باشندے کی خوائش ہے کہ آزاد کشمیر حکومت بااختیار اور ذمہ دار ہو اور وہ مسلہ کشمیر پر موثر سفارتکاری کرے لیکن اس کے لیے کاروباری سیاستدانوں نہیں ایسی لیڈرشپ کی ضرورت ہے جو حقیقی معنوں میں عوامی امنگوں کی ترجمانی کرے اور عالمی سفارتکاری پر دسترس اور جموں کشمیر بیانیہ اور قابل عمل حل پر یقین رکھتی ہو۔ آزاد کشمیر حکومت نے متنازعہ کراچی معاہدے کے تحت اپنے تمام تر اختیارات پاکستان کے حوالے کر کے اسے اپنا وکیل تسلیم کر لیا تھا اور پاکستان نے برطانیہ کی مدد سے کشمیریوں کے بجائے پاک-ھند اشو بنایا ہوا ہے۔ آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے اگر کوئی وفد بیرون ملک گیا ہے تو وہ محض ایک سیاسی رشوت کے طور ہر گیا جس نے تارکین وطن سے ہی ملاقات کی اور آج تک ان سیاسی دوروں کی نتیجہ خیزی پر قوم کو کوئی رپورٹ پیش نہیں کی گئ۔ گزشتہ ماہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی لطیف اکبر کی قیادت میں ایک بار پھر ایک وفد نے ترکی کا دورہ کیا جس میں سابق رکن اسمبلی عبدالرشید ترابی اور حریت کانفرنس کے نمائندے بھی شامل تھے۔ یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ انہوں نے وہاں جا کر کیا کہا ہو گا۔ بس یہی نہ کہ ہم پاکستان کا حصہ ہیں۔ ہم آزادی چاہتے ہیں جس کا مطلب الحاق پاکستان ہے جبکہ پاکستان خود اس نظریہ سے دس دستبردار ہو کر تقسیم کشمیر پر اتفاق کر چکا ہے۔ ترکی کے حالیہ دورے پر جانے والے ازاد کشمیر کے وفد نے ابھی تک عوام کے سامنے کوئی واضع رپورٹ نہیں لائی۔ ملاقاتوں کے جو دعوے کیے گئے ہیں ان میں عوام کو گمراہ کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اردو اخبارات میں کچھ میزبانوں کے نام اور انکے مناصب تک درست نہیں ۔ مثال کے طور پر وفد نے ترک پارلیمنٹ کے سپیکر سے ملاقات کا دعوی کیا لیکن ترک پارلیمنٹ کا سپیکر نہیں ہوتا۔ اسے ترکی میں مجلسی بشکانی کہتے ہیں جس کا مطلب ہے اسمبلی صدر جو نعمان کرتلمش ہیں۔ وفد کی ملاقاتا اسمبلی کے ڈپٹی سے ہوئی جس کا نام ہمارے بہادر وفد نے سلال عدن لکھا جبکہ انکا نام جلال عدن ہے۔ ترک زبان میں سی کو ج پڑھا اور لکھا جاتا ہے ۔ یہ محض چند مثالیں ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے وفود اتنے کم علم ، کم فہم اور ہوم ورک کی تیاری سے اتنے محروم ہوتے ہیں کہ انہیں ملنے والوں کے پورے نام بھی معلوم نہیں ہوتے ۔ اس طرح کے غلط دعووں سے ہماری اپنی عوام ابہام کا شکار ہے اور نا قابل عمل موقف سے بیرونی دنیا ہماری کسی بات پر توجہ نہیں دیتی۔ غیر ملکی سمجھتے ہیں کہ ہمارے سیاستدان اپنی ہی عوام سے سچ نہیں بولتے اور وہ نا اہل اور ناقابل اعتبار ہیں۔ بیرون ملک یہ اپنی ساکھ نہیں بنا سکے۔ برحال مجھے اچھی طرح علم ہے کہ جب ہمارے یہ بھائی بیرون ملک جاتے ہیں تو اسلام آباد کا سایہ انہیں ساتھ ساتھ محسوس ہوتا ہے جسکی وجہ سے یہ کھل کر بات بھی نہیں کر سکتے جبکہ غیر نمائندہ حریت کانفرنس حقیقی معنوں میں ایک کمرشل کانفرنس ہے۔ میں ترکی کی کشمیر پالیسی سے بھی اچھی طرح با خبر ہوں۔ ترکی کی کشمیر پالیسی وہی ہے جو برطانیہ نے ہندوستان اور پاکستان کو بنا کر دی ہوئی ہے۔ وہ یہ کہ جموں کشمیر ایک علاقائی تنازعہ ہے جسے ان دونوں قابضین نے حل کرنا ہے اور کشمیری خون تو دیں لیکن اپنی رائے نہ دیں۔ ترکی نے عملی طور پر اس پالیسی کو اپنا رکھا ہے جس میں کچھ ترک اسلامی جزبے کے تحت سادہ لوحی کا شکار ہو کر پاکستان کاساتھ دیتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ پاکستان تو کشمیر کو تقسیم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس میں ساری غلطی ترک سرکار کی نہیں کیونکہ ہم نے کب انہیں اصلی صورت حال سے آگاہ کیا ہے۔ کچھ ترکوں کے لیے معیشت پہلی ترجیع ہے اور ہو بھی کیوں نہ جب ہم خود مفاداتی سیاست نہیں چھوڑتے تو کوئی دوسرا ہمارے لیے کیوں قربانی دے؟ یہ بھی بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ ترکی کی پاکستان کی نسبت ہندوستان کے ساتھ تجارت کا حجم بڑا ہے۔

چند سال قبل استنبول کی فاتحی یونیورسٹی میں کشمیر سالیڈیریٹی کے نام سے ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں مجھ سمیت تین کشمیری موجود تھے جن میں دوسرے دو سرینگر اور گلگت سے تھے مگر عین موقع پر ترک میزبانوں کو کہا گیا کہ پاکستان کشمیریوں کا وکیل ہے۔ چونکہ پاکستانی سفیر موجود ہے اس لیے کسی کشمیری کے خطاب کی ضرورت نہیں۔ میں اگر موقع پر بولتا تو شاید مجھ پر پروگرام ڈسٹرب کرنے کا الزام لگ جاتا اور میں یہ الزام اپنے سر نہیں لینا چاہتا۔ بعد ازاں میں نے میزبانوں کو لکھا کہ یہ میری زندگی کی انتہائی دلچسپ یکجہتی کشمیر تھی جس میں سب بول سکتے تھے لیکن کشمیری نہیں بول سکتا تھا۔ یہ ترکی کی سرکاری کشمیر پالیسی ہے لیکن وہاں کچھ آزاد خیال ترک سیاستدان بھی ہیں جن میں سے ایک نے ایک بار آزاد کشمیر کے ایک وزیر سے پوچھا کہ پاکستان آزاد کشمیر کو تسلیم کیوں نہیں کرتا تو وزیر صاحب نے جواب دیا کہ ہم ہیں ہی پاکستان کا حصہ۔ یہ تو خیر اقتدار پرستی کا شکار ہیں لیکن جب حریت پسندی کے دعویداروں سے کوئی پوچھے کہ وہ کیوں انتشار و اختلاف کا شکار ہیں تو ان کے پاس بھی کوئی ٹھوس جواب نہیں ہوتا۔ درجنوں آزادی پسند گروپ ہر گلی محلے میں ایک دوسرے کے مقابلے میں کانفرنسیں کرتے ہیں لیکن کئی سالوں سے قید سنئیر لیڈروں کی رہائی کے لیے سیاسی وقانونی مہم قائم نہیں کی جا سکی۔ اندرون و بیرون ملک سیاسی کارکنان کی سوچ بھی عجیب ہے۔ وہ گلیوں محلوں میں ہونے والی تقریبات کے لیے تو کھل کر مالی تعاون کرتے ہیں لیکن قیدیوں کی رہائی کے لیے کسی ٹھوس پالیسی کے لیے حمایت نہیں کرتے ۔ وہ صرف اپنے اپنے طور پر قیدیوں کے نام پر جلسے کرتے ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم سب اپنی اپنی اصلاح کریں۔ اتحاد و اتفاق کے لیے رواداری کا مظاہرہ کریں۔ اس کے بغیر ہم خود کو مصروف تو رکھ سکتے ہیں مگر حاصل کچھ نہیں کر سکتے۔ ترکی جانے والے وفد نے بھارت میں قید سیاسی اسیران کی رہائی بارے بھی کوئی ٹھوس بات نہیں کی ۔مجھے خطرہ ہے کہ مقبول بٹ اور افضل گرو کی طرح یاسین ملک اور دیگر قید لیڈران بھی ہماری روائتی سیاست کا شکار نہ ہو جائیں۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*