تحریر: قیوم راجہ
ہمارے معاشرے میں ہر دوسرا خاص و عام انسان بد عنوانی، بد دیانتی اور بد اخلاقی کا رونا رو رہا ہے لیکن اس سوال پر بہت کم غور کیا جاتا ہے کہ آخر اس کا زمہ دار کون ہے اور حل کیا ہے؟ کیا جو کچھ ہم اپنے نظام کے اندر دیکھتے ہیں کیا وہ ہمارے اپنے ہی گھروں اور تعلیمی نظام کا عکس نہیں ہے؟ جو بھی انسان کسی ادارے میں جاتا ہے اور جس کسی کی بد دیانتی ، بد عنوانی، بد انتظامی اور بد اخلاقی کا ہم زکر کرتے ہیں کیا وہ انسان کسی غیبی دنیا سے آیا ہے یا ہمارے اپنے ہی گھروں اور تعلیمی اداروں کی پیداوار ہے؟ اگر نظام ٹھیک نہیں تو اس کا مطلب ہے ہمارے خاندانی اور تعلیمی نظام میں خامیاں ہیں مگر ان کے اسباب اور تدارک پر کم غور کیا جاتا ہے؟ ہمارے معاشرے اور قومی اداروں میں باکردار لوگ بھی موجود ہیں لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ انہیں نظام میں مسفٹ قرار دیا جاتا ہے۔ بد دیانت اکثریت دیانتدار اقلیت کی پیشہ وارانہ زندگی مشکل بناتی ہے۔ ان کے خلاف سازشیں کی جاتی ہیں اور انکے حقوق غصب کیے جاتے ہیں۔ چند ایک اچھے افسران اچھے جراتمندانہ طور پر منصفانہ فیصلے کرتے دیکھے گے ہیں لیکن چونکہ اکثریت نفس پرست اور حرص و لالچ کا شکار ہو کر حقیقی انفرادی اور اجتماعی عزت نفس کا تصور اور انسانی قدروں کا احساس کھو چکی ہے اس لیے ماضی کے افسران کے اچھے فیصلے آنے والے افسر کے لیے ایک مثال precedent کے طور پر فالو نہیں کیے جاتے ۔ چند ایک مناصب پر دیانتداری سے اپنے فرائض سر انجام دے کر با عزت طور پر رخصت ہونے والے اور چند ایک حاضر سروس افسران سے میں نے رائے حاصل کی کہ انکے نزدیک آخر اس بگاڑ کا زمہ دار کون ہے اور حل کیا ہے تو انہوں نے کہا اس کے زمہ دار بکائو سیاستدان ، اداروں کے اندر نا اہل سفارشی اور بد عنوان افسران اور ہماری مطلب پرست عوام ہیں ۔ تحریک آزادی کشمیر ہو یا کوئی اور مسلہ ، انہیں حق سچ اور دیر پا مفادات، اجتماعی وقار اور مستقبل سے کوئی غرض نہیں۔ انہیں کوئی علم نہیں کیا کر رہے ہیں، کیوں کر رہے ہیں اور انکی منزل کیا ہے؟۔ وہ لمحہ موجود کے اسیر ہیں۔ اس اجتماعی اسیری سے ہم کیسے آزاد ہوں گے؟ یہ سوال ہم سب کے لیے اہم ہے۔ ہم اسلام کو نظریہ حیات اور نبی کریم کو رول ماڈل قرار دیتے ہیں لیکن اسلام نے ایک انسان کے لیے جو اخلاقی معیار قائم کیا ہے اس پر ہم کتنا عمل کرتے ہیں؟ اسکا جواب ہمارا معاشرہ خود دے رہا ہے کہ ہمارااسلام رواجی ہے عملی نہیں اور عشق نبی میلاد نبی کی محفلوں تک محدود ہے۔ اخلاق تمام قوموں کا مشترکہ نصاب ہے۔ اس کے بغیر کوئی قوم امن سکون اور ترقی نہیں پا سکتی۔ بد دیانتی، بد اخلاقی اور بد کرداری کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم بحثیت انسان اپنی پہچان کھو بیٹھے ہیں۔ پہچان سے میری مراد قوم ،قبیلہ، رنگ نسل اور ملک نہیں بلکہ یہ کہ یہ دنیا عارضی ہے۔ ہم مسافر ہیں۔ ہمیں اپنی زندگی اور موت پر کوئی اختیار نہیں اس لیے ہم اپنے نفس کا شکار ہو کر کیوں اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں؟ ہمارے سامنے ایسی بھی قومیں موجود ہیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتیں لیکن پھر بھی انسانیت اور قانون کی بالادستی پر یقین کی وجہ سے انکا اخلاقی معیار ہے۔ انکے اندر اس حقیقت کا ادراک موجود ہے کہ اخلاقی معیار کے بغیر انکا وجود قائم نہیں رہے گا اور اس کے بغیر انکی نسل کا تسلسل ختم ہو جائے گا اور نتیجتا تاریخ سے ان کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ اگر ہم معاشرے کے اندر اخلاقی معیار قائم کرنا چاہتے ہیں تو اس کا اغاز خارجی نہیں باطنی ہے۔ ہم سب کو پہلے اپنے اپنے باطن کو صاف کرنا ہو گا پھر ہماری خارجی دنیا یعنی معاشرہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ اپنی اصل پہچان جسکا اوپر زکر ہوا ہے اس کی طرف لوٹنا ہو گا۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر غور کرنا ہو گا۔ اداروں کے اندر جو لوگ بھرتی کیے جاتے ہیں انکی اخلاقی اور پیشہ وارانہ تربیت کا نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑے افسران اکثر ماتحت عملہ کو بد عنوانی کا زمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن اگر ماتحت عملہ راشی ہے تو پھر بالا افسران پر بھی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ لوگ سوچتے ہیں کہ بالا افسران بھی بھتہ خوری میں ملوث ہیں یا انکے اندر ماتحت عملہ کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ زہنی تشدد زنانہ تدریسی سٹاف پر ڈویژن اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن کا کلریکل سٹاف کرتا ہے جو دفتری کاموں کے لیے طرح طرح کے بہانے تراش کر ان سے بھتہ لیتا ہے۔ مردانہ تدریسی سٹاف کی نسبت زنانہ تدریسی سٹاف کے لیے چونکہ دفتروں کے چکر لگانا مشکل ہوتا ہے جسکی وجہ سے ان کا کوئی بھی جائز دفتری کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔ اس کاروبار کے لیے کلرکوں نے ایجنٹ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ کہنا بھی مناسب نہیں کہ ہر بالا افسر اس کا زمہ دار ہے لیکن یہ ماننا بھی مشکل ہے کہ کسی نہ کسی کی آشیر باد کے بغیر کلرک شاہی کا نظام چل سکتا ہے۔ کلرک شاہی کا موجودہ نظام اداروں کے سربراہان کی ساکھ بری طرح متاثر کر رہا ہے اس لیے انہیں اپنے اداروں کے اندر بھتہ خوری کے نظام کو ختم کرنے کے لیے فوری طور پر ضروری اقدامات کرنے ہونگے۔