اچھے انتظامی افسر کے فرائض مسائل اور حل : قیوم راجہ

مجبوریاں اور زمہ داریاں : قیوم راجہ

تحریر: قیوم راجہ

ہماری تحریک آزادی کی تاریخ جہاں شہیدوں اور غازیوں سے بھری پڑی ہے وہاں ایسے قدردانوں اور مہربانوں کی بھی کمی نہیں جنہوں نے ہر دور میں تحریکی لوگوں کی اخلاقی مدد کی۔ میں نے اپنی طویل تحریکی زندگی میں دیکھا کہ قومی کاز کی اخلاقی و مالی مدد کے لیے بڑے مال نہیں بڑے دل کی ضرورت ہے کیونکہ معاونین کی اکثریت محدود تنخواہ اور کم آمدنی والے لوگ رہے ہیں جبکہ صاحب ثروت اور صاحب اقتدار کو اکثر ہم نے یہ کہتے سنا کہ آزادی تو وہ بھی چاہتے ہیں لیکن ان کی کچھ مجبوریاں اور زمہ داریاں ہیں۔ گویا کہ جو لوگ خود کو قومی کاز کے لیے وقف کرتے ہیں انکی کوئی ضرورت زمہ داری اور مجبوری نہیں ہے۔ وہ زمہ داریوں سے آزاد ہیں۔ انکی کوئی اولاد ہے نہ آسکی خواہشات۔ جو لوگ زمہ داریوں اور مجبوریوں کا رونا روتے ہیں وہ مجبوری صرف نمائشی اور مسابقتی زندگی ہے جس میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ بڑی بڑی کوٹھیوں، گاڑیوں اور ولیموں کا مقابلہ کرتے ہیں یا پھر ایسے نمائشی لیڈروں اور پیروں پر دولت نچھاور کرتے ہیں جو کبھی بھی مشکل وقت میں انکے کام نہیں آتے۔ یہاں ایک عجیب رسم چل پڑی ہے کہ پاکستانی اور کشمیری سیاستدان لیڈری یہاں کرتے ہیں مکان انگلینڈ بناتے ہیں جبکہ ہمارے عام لوگ برطانیہ میں مزدوری کر کے یہاں کوٹھیاں بنا کر یا تو تالے لگا کر یا اجنبی لوگوں کو کوٹھیوں میں چھوڑ کر خود یو کے چلے جاتے ہیں اور کوٹھیوں میں صرف انکے جنازے واپس آتے ہیں پھر بھی کوئی نہیں سوچتا کہ جس دولت کی خاطر انہوں نے اپنی زندگی اجیرن بنائے رکھی وہ محض ایک فتنہ ہے جسکی خاطر اس کے حصے دار میت قبر میں رکھنے سے پہلے ہی لڑ پڑیں گے۔ اور تو اور ان آنکھوں نے پیروں کی اولاد کو بھی لڑتے دیکھا ہے جنہوں نے دوسروں کے چندے کے بل بوتے پر فائیو سٹار ہوٹلوں یا مہنگے ترین شادی ہالوں میں ولیمے کیے تھے۔

ہماری تحریک آزادی میں اپنی ضرورتوں کو دفن اور خواہشات و جذبات کو فتح کرنے والوں کی یوں تو فہرست بہت طویل ہے جسکا احاطہ ایک کالم میں ممکن نہیں جسکی وجہ سے میں یہاں چند ایک بنیادی کرداروں کی مثال پر اکتفا کر کے مجبوریوں او زمہ داریوں کے قیدیوں کو اس قید سے نجات پر غور کی دعوت دوں گا۔ ہمارے سامنے سب سے بڑی مثال مقبول بٹ شہید ہیں جو اپنے بیوی بچوں کو پشاور میں کرایہ کے ایک بوسیدہ مکان میں چھوڑ کر بھارتی مقبوضہ کشمیر چلے گے تھے جہاں بھارتی حکومت نے انہیں پھانسی کی سزا دے رکھی تھی۔ انکے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ یہ تینوں کم سن تھے مگر پھر بھی اعلی تعلیمی زیور سے آراستہ ہوئے۔ انکے دو ابتدائی رضاکاروں میں ہاشم قریشی اور اشرف قریشی تھے جو سن بلوغت سے قبل ہی اپنے خاندان سے جدا ہو گے تھے۔ ہمارے ایک دوست سردار عبدالرائوف کشمیری کی اہلیہ امید سے تھیں جنہیں انکے معزور والد کے پاس چھوڑ کر وہ بھارتی مقبوضہ کشمیر چلے گے جہاں گرفتار ہو گے اور پندرہ سال بعد رہا ہو کر آئے۔ انکا واحد بیٹا آج انکا سہارا بننے کے بجائے مختلف بیماریوں کا شکار ہے مگر رائوف کشمیری کی جد و جہد پھر بھی جاری یے۔ صدیق بھٹی اور میں ایک ہی کیس میں قید ہوئے۔ صدیق بھٹی ضعیف والدین کا اکلوتا بیٹا تھا جبکہ میری عمر نو سال تھی جب میرے والد فوت ہو گے تھے اور اب والدہ کو بالغ بیٹے کی ضرورت تھی لیکن یہ ضرورت اور زمہ داری قومی کاز کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکی۔ ان اولین کرداروں کے بعد بے شمار ہموطنوں نے جانیں نچھاور کیں جنکے ساتھ تاریخ ضرور انصاف کرے گی۔ یہاں ایسے لوگوں کا تزکرہ بھی مناسب لگتا ہے جن میں سے ایک نے مجھے کہا وہ کمانڈر ہوا کرتا تھا مگر جنرل مشرف نے امداد بند کر دی جسکی وجہ سے تحریک رک گئی۔ میں نے کہا دوسروں سے پیسے لے کر جو کام شروع کیا جائے اس نے آخر بند ہی ہونا ہوتا ہے۔ ہم نے اللہ کے بھروسے پر اپنی مدد آپ تحریک شروع کی تھی تو جو اب بھی جاری ہے اور جاری رہے گی۔ ایک صاحب نے کہا اس سے حاصل کیا ہوا تو میں نے کہا اللہ نے ہدایت کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے مگر دنیا پھر بھی بگڑی ہوئی ہے کیا اللہ تعالیٰ کی ذات غلط تھی؟ اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزماں کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا تھا آپ کا کام کوشش کرنا ہے نتیجہ دینا میرا کام ہے۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*