اگر تحریک عدمِ اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے ! محمد امین مگسی

سیاستدانوں کو کوئی حل نکالنا چاہیے! محمد امین مگسی

تحریر : محمد امین مگسی

آپ کو یہ بتایا جائے گا کہ پاکستان دیوالیہ ہورہا ہے مگر مجال ہے کوئی حکمرانوں, جرنیلوں, ججز و اشرافیہ کے اخراجات کے متعلق کچھ بتائے, ان سب کی گاڑیاں اور گھر کے اخراجات تقریبا ریاستی اخراجات پر پورے ہوتے ہیں.

انکا علاج آج بھی ملک کے بہترین ہسپتالوں میں مفت ہوتا ہے,
انکے بچے آج بھی بہترین تعلیمی اداروں میں مفت یا پھر آدھی فیس یا پھر اسکالرشپ پر زیرِتعلیم ہیں.

انکے گارڈ, چوکیدار, گھر کے نوکر چاکر آج بھی ملکی خزانے سے تنخواہ لیتے ہیں,

انکے سفری اخراجات کا سارا خرچہ سرکاری خزانے سے ادا ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں ایک دورے کا ٹی اے ڈی اے بھی دیا جاتا ہے.

انکا شاہی انداز زندگی آج بھی اسی طرح چل رہا ہے جن کیلئے سب کچھ مفت ہو اور سرکاری خزانے سے پورا ہورہا ہو انکے لئے مہنگائی کوئی معنی نہیں رکھتی. مہنگائی صرف عام آدمی کا مسئلہ ہے اور مزدور طبقہ کی پریشانی ہے.

کوئی سمجھتا ہے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ سے مہنگائی بڑھے گی یا ڈالر کی قیمت میں اضافہ سے مہنگائی بڑھے گی سب غلط ہے. پٹرول بڑھنے سے پیسہ صرف غریب کی جیب سے نکلتا ہے بزنس مین اس مہنگائی کی مد میں ایک دن میں لاکھوں کروڑوں اربوں کا منافع کماتے ہیں.

پٹرول مہنگا ہوا ہے مگر جن کے پاس پٹرول کا اسٹاک ہوتا ہے وہ اسی وقت نئی قیمتوں پر پٹرول بیچنا شروع کرتے ہیں ایک دن میں ہزار بیلن پٹرول بیچ کر وہ کروڑوں کما لیتے ہیں. اسی طرح پٹرول بڑھتے ہی ٹرانسپورٹ والے کرایہ بڑھا دیتے ہیں جس سے ٹرانسپورٹ والوں کو ذرا برابر بھی نقصان نہیں ہوتا.

ڈالر کی بات کی جائے تو جو سرمایہ کار ڈالر میں سرمایہ کاری کرتے ہیں وہ باہر سے ڈالر بھیجتے ہیں اور پاکستانی روپیہ دوگنا ہوجاتا ہے, ہاں ایک مسئلہ ضرور ہے کہ پاکستانی کرنسی کی قیمت خرید گر جاتی ہے جس سے روپیہ کا value انتہائی نچلی سطح پر آجاتا ہے. اس طرح لاکھوں میں چند ہزار والی چیز خریدی جاتی ہے.

اس مہنگائی سے صرف عام آدمی متاثر ضرور ہورہا ہے مگر اشرافیہ و حکمران طبقہ کو اس مہنگائی سے ٹکے کا فرق بھی نہیں پڑتا.

سوچنے کی بات یہ ہے اتنے قرضوں کے باجود پاکستانی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے بین الاقوامی مارکیٹ میں اس ملک کو ذیادہ اہمیت ہوتی ہے جو اپنی کوئی پروڈکٹ بیچتا ہے, عالمی منڈی میں لوگ صرف پروڈکٹ دیکھتے ہیں اسی پروڈکٹ کی وجہ سے کسی ملک کی اہمیت بڑھ جاتی ہے. جبکہ پاکستان کے پاس اپنی ذاتی کوئی پروڈکٹ ہے ہی نہیں جو عالمی منڈی میں بیچنے کے لئے پہنچائی جائے جس سے عالمی تاجر اتنا متاثر ہوجائے کہ وہ پاکستانی پروڈکٹ کو شوقیہ نہیں بلکہ مجبورا خریدے جس سے عالمی قوتیں جھکاو کا مظاہرہ کرتی ہیں.

پاکستان وہ واحد ملک ہے کہ جس کے پاس اس وقت بیچنے کو صرف من گھڑت نظریہ رہ گیا ہے. پہلے بھی پاکستان کے پاس پروڈکٹ نہ تھی مگر روس و امریکہ کی جنگیں جو بظاہر خطے میں تباہی کا سبب ضرور تھیں مگر پاکستانی معیشت کیلئے بہت بڑا ذریعہ تھیں بلکہ معیشت کی دنیا کی بات کی جائے تو روس و امریکہ کی افغانستان میں جنگیں پاکستانی معیشت کے لیے کسی رحمت سے کم نہ تھیں.

پاکستان نے یہ یقین کرلیا تھا کہ یہ جنگیں ہمیشہ جاری رہیں گی جس سے پاکستان کبھی راستے دے کر تو کبھی اپنے بندے دے کر ڈالر وصول کرتا رہے گا اور یوں پاکستان بغیر کسی پروڈکٹ کے اپنا کام چلاتا رہے گا, اس پروڈکٹ کے ظاہری طور مالک و ڈیلر ڈاریکٹ پاکستانی جرنیل تھے تبھی امریکہ نے ہمیشہ جرنیلوں کو وہ اہمیت دی جو سیاستدانوں کو دینی چاہئے تھی, سیاستدان صرف دستخط و معاہدہ کے اجراء و توثیق کی حد تک پارٹی تھے باقی معاہدے کرنا اور سیکورٹی فراہم کرنے کے بدلے ڈالر وصول کرنا سب جرنیلوں کے ہاتھ میں تھا, اب امریکہ نکل گیا ہے ڈالر بند ہوگیا ہے پاکستان کی معیشت گھٹنے ٹیکنے لگی ہے جرنیل اس بات کا ادراک کر چکے ہیں کہ سارا بوجھ ہم پر پڑنے والا ہے لہذا انہوں نے خود کو نیوٹرل قرار دے کر حکمرانوں کو آمنے سامنے کردیا ہے.

آپ کو یقین نہیں آتا تو آزما کر دیکھ لیں, اگر سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے گریبان تک بھی پہنچ جائیں تب بھی جرنیل اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ مارشل لاء لگائیں اور اقتدار میں بیٹھ جائیں, اگر امریکہ خطے میں موجود ہوتا تو جرنیل دیر ہی نہ کرتے کب کا مارشل لاء لگا چکے ہوتے, مگر اب ڈالر کی ترسیل بند ہے اب جرنیل مارشل لاء لگاتے ہیں اور ملک کی لگام اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو خود بھی بھوکے مرتے ہیں, ملبہ سارا حکمرانوں پر ڈال دیا ہے تاکہ وہ اپنے دوستانہ ملکوں میں جاکر ہاتھ پھیلائیں کہیں سے زکات, خیرات و صداقات یا ادھار لائیں اور ملک کو چلائیں.

سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ضد, انا, ہٹ دھرمی, نفرت, گلے شکوے سب بھلا کر ایک ساتھ بیٹھ جائیں, کیا پی ٹی آئی, کیا ن لیگ, کیا پیپلزپارٹی, کیا جمیعت, کیا جماعت اسلامی سب ایک دوسرے کے کیسز بند کروا دیں اور ایک میثاق معیشت کرکے سر جوڑ کر بیٹھ جائیں جسکے بعد ہنگامی بنیادوں پر کوئی وقتی و عارضی حل نکالیں اور مستقل حل کیلئے کم از کم 20 سال پر مشتمل مستقل معاشی پالیسی ترتیب دیں, جس پر یہ معاہدہ کیا جائے کہ کسی بھی جماعت کی حکومت آئے وہ ان پالیسیوں کو آگے لے کر چلے گی اور حکمران جماعت کیساتھ اس پالیسی پر مکمل تعاون کیا جائے گا, تب کہیں جاکر 20 سال کے بعد پاکستان عالمی منڈی میں اپنی کوئی پروڈکٹ پیش کرسکتا ہے جس سے عالمی تاجر کو اپنی طرف کھینچا جا سکتا ہے, اس طرح عالمی منڈی میں پاکستان اپنی پروڈکٹ کی اہمیت واضح کرکے معاشی مسائل حل کرسکے گا اور IMF جیسے پریشر گروپ سے نجات پاسکتا ہے. ورنہ ملک دیوالیہ ہونے جارہا ہے

تعارف: ویب ڈیسک

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*