غلامی- آزادی اور ایسوسی ایٹیو میموری : قیوم راجہ

تحریر: قیوم راجہ

Associative Memory, Memoir Associative, Associatives Gedachtnis,
Associatief Gehugen,
الزاہرہ الترابطیتہ، حافظہ انجمنی اور ایسوسی ایٹیو میموری

قارئین کرام ایسوسی ایٹیو میموری نفسیات کی ایک اصطلاح ہے جسے میں نے اپنے کالم کے عنوان کے نیچے چھ زبانوں انگریزی، فرانسیسی، جرمن ، ڈچ، عربی اور فارسی میں لکھا ہے۔ اردو میں ایسوسی ایٹیو میموری کی اصطلاح کا مجھے علم نہ تھا تو میں نے پہلے ڈکشنری اور بعد میں گوگل کی مدد حاصل کی مگر گوگل بھی بے بس ہے۔ یہاں صرف رومن اردو میں ایسوسی ایٹیو میموری لکھا ہوا ہے جبکہ 16 ملین ابادی والے ہالینڈ نے اپنی ڈچ زبان میں اصطلاح ایجاد کر رکھی ہے مگر برصغیر اور کئی دوسرے ممالک میں بولی جانے والی اردو زبان نے گوگل میں کئی اصطلاحات ، لفظوں اور جملوں کو رومن اردو میں لکھا ہوا ہے۔ اسی لیے میں پاکستان کے اکثر محققین کو مترجمین قرار دیتا ہوں جو مغربی محققین و مصنفین کی کتابوں کے ترجمے کر کے جلدوں پر اپنے ناموں کے ساتھ محققین لکھ دیتے ہیں۔ پاکستانی محققین اتنے کاہل اور سست ہیں کہ وہ غیر ملکی خاصکر انگریزی کےمشکل الفاظوں کا ترجمہ کرنے کے بجائے انہیں رومن اردو میں لکھ دیتے ہیں۔ حقیقت میں نہ ہی تو اردو زبان اتنی بانجھ ہے اور نہ ہی یہ خطہ۔ اصل مسلہ ہمارا دقیانوسی تعلیمی نظام ہے جسے غلطی سے ماڈرن کہا جا رہا ہے۔ ہر باوقار اور آزادی کا شعور رکھنے والی قوم اپنی آزادی کا اظہار اپنی قومی زبان میں قومی نصاب سے کرتی ہے لیکن پاکستان ایک نقل پسند ریاست بن چکی ہے جہاں اگر آپ کسی دوکان پر کوئی چیز لینے جائیں تو دوکاندار بڑے فخر سے پوچھے گا کہ اصلی چائیے یہ دیسی ؟ دیسی سے مراد دو نمبر چیز ہوگی ہے جو سستے داموں فروخت ہوتی ہے مگر غیر معیاری ہوتی ہے۔ ہم آزاد کشمیریوں کو اصلی ملتی ہے نہ دیسی بلکہ ناقص ترین ادویات فروٹ اور کھانے پینے کی اشیاء آزاد کشمیر بھیجی جاتی ہیں۔ اسی طرح ناقص ترین تعلیم نظام ہے جہاں نصاب سمجھایا نہیں رٹوایا جاتا ہے۔ میں میٹرک کر کے یہاں سے یورپ گیا تھا۔ باقی ساری تعلیم یورپ میں حاصل کی مگر کئی ایم فل طلباء اردو میں درخواست لکھوانے کئی بار میرے پاس ائے جس پر سخت افسوس ہوا۔ امتحانی پرچے اتنے ناقص ہوتے ہیں کہ دیکھ کر طلباء پر ترس آتا ہے۔ حالیہ امتحانات میں انگریزی کے ایک پرچے میں سوال تھا:
Describe who constructed the mosque?
اب طلباء کو کیسے پتہ چلے کہ کس مسجد کی تعمیر کا پوچھا جا رہا ہے؟ ڈاکٹروں کے نسخے، لیبارٹری ٹیسٹ اور عدالتوں کے فیصلے انگریزی میں لکھے جاتے ہیں۔ اکثر متعلقین کو ترجمے کروانے پڑتے ہیں۔ آخر کیوں؟ وجہ صرف اور صرف زہنی غلامی ہے۔
اس کالم میں ایسوسی ایٹیو میموری کی اصطلاح استعمال کرنے کا سبب میرے دل کی تکلیف تھی مگر باقی مشاہدات بھی قلم کی زد میں أ گے۔ ایسوسی ایٹیو میموری انسان کی زندگی کے ایسے واقعات اور تجربات کا نام ہے جن کے ملاپ سے انسان کے حافظے میں موجود پرانے واقعات یاد یا تازہ ہو جاتے ہیں۔ حافظہ یا طویل المدت یاد داشت ایک سٹور ہے جہاں پرانے واقعات جمع رہتے ہیں اور وہ اسوقت شارٹ ٹرم میموری سے ٹکراتے ہیں جب انسان کی زندگی میں کوئی نیا واقعہ پیش آتا ہے۔ اسی نظام کے تحت حالیہ دل کی تکلیف نے جیل میں 7 مئی 1998 کو دل پر ہونے والے حملے اور اس سے جڑی یادیں دماغ کے سٹور سے بائر ا گئیں۔ چوبیس سال قبل دل کے دورہ سے دو ہفتے قبل جیل کے جم خانے میں قیدیوں کے سالانہ فٹنس ٹیسٹ ہوئے ۔ ہماری جیل کے گیاراں سو قیدیوں میں چھ قیدی تندرست ترین قرار پائے گے جن میں ایک میں تھا جسکی وجہ سے جب میں نے حکام سے سینے میں درد کی شکایت کی تو وہ ہنسنے لگے۔ افسران میں سے ایک نے مجھے غور سے دیکھا تو کہا ائو ڈاکٹر کے پاس چلیں۔ اس کی ماں دل کی مریضہ تھی تو اسے اندازہ بھی ہو گیا اور احساس بھی ۔ ہسپتال میں داخل ہوتے ہی اس نے کہا ایمرجنسی ۔ نرسوں نے اٹھا کر مجھے سٹریچر پر ڈالا تو قریب کھڑے قیدی مائیک نے پوچھا ہمارے راج کو کیا ہوا۔ وہ میرا ٹینس پارٹنر تھا اور دوست کی حیثیت سے راجہ کو بگاڑ کر میرا نک نام راج رکھا ہوا تھا اور میں اسے مک کہا کرتا تھا۔ میں نے کہا مک میں جنت میں جا رہا ہوں۔ مک نے کہا راج مجھے بھی لے چلو ۔ ڈاکٹر نے کہا پہلے اڈے جانے دو پھر یہ تمہیں جنت سے فون کرے گا۔ اس وقت مجھے اپنی ضعیف ماں بہت یاد آئیں اور اس دفعہ جب مجھے دل کی تکلیف ہوئی تو مجھے میری کم سن بیٹیاں بہت یاد آئیں جو میرا کل اثاثہ ہیں۔ قیدی دوست اور جیل کے ہسپتال کا عملہ اس طرح میری تکلیف سے میری توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے رہے۔ پھر مجھے اتنا یاد ہے کہ ایمبولینس میں مجھے ڈالتے وقت جیل گورنر نے میرا بازو پکڑ کر کہا: Don’t worry. You will be alright.”

مجھے کسی دوست نے ایک خوبصورت قمیض بطور تحفہ بھیجی تھی مگر جیل میں پہننے کا کبھی موقع نہ ملا ۔ سینے میں درد کے وقت افرا تفری میں وہ قمیض میں نے پہن لی تو مجھے ایسے لگا جیسے خواب میں مجھ سے کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ قمیض بہت خوبصورت ہے۔ آنکھ کھلی تو دیکھا کہ خواب نہیں حقیقت ہے۔ ایک لیڈی ڈاکٹر میرا دائیں ہاتھ پکڑ کر کہتی ہے :
"You are in Read Hospital. You are in safe hands but I am afraid you had an heart attack.”
میں نے حیرت سے کہا ہارٹ اٹیک۔ مجھے ہارٹ اٹیک کیسے ہو گیا۔ لیڈی ڈاکٹر نے کہا اکثر لوگ ایسی خبر سن کر پریشان ہو جاتے ہیں مگر ہمیں خوشی ہے آپ مسکرا رہے ہیں۔ میں نے کہا مجھے تو یقین نہیں اتا۔ چند دن قبل مجھے چھ فٹسٹ قیدیوں میں ایک قرار دیا گیا مگر ڈاکٹر نے کہا فٹ انسان کو بھی ہارث اٹیک ہو سکتا ہے۔ اسی دن ہماری جانب سے چوہدری اللہ دتہ نے کونسل الیکشن میں حکومتی پارٹی کے امیدوار کو شکست دے کر سیٹ جیت لی تھی۔ میرے دماغ میں شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے ۔ سوچا الیکشن لڑنے کی وجہ سے یہ کوئی سازش تو نہیں۔ میں نے ڈاکٹروں سے پوچھا مجھے ہارٹ اٹیک کی وجہ بتائیں تو انہوں نے کہا میری ایک ارٹری درمیان سے بلاسٹ ہوئی ہے؟ میں نے مزاقا پوچھا میری ارٹری بیمار تھی یا صحت مند؟ ڈاکٹر نے کہا تھی تو صحت مند۔۔ میں نے پوچھا پھر درمیان سے پھٹی کیسے مگر کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا۔

ہسپتال میں اضافی سیکورٹی تعینات کی گئی جو صرف میرے کمرے کے اندر اور بائر تعینات تھی۔ کمرے کے اندر سیکورٹی افسران نہایت بد تمیز تھے جو مجھے طرح طرح سے تنگ کرنے لگے۔ بھاری بوٹوں سمیت ایک افسر دائیں اور دوسرا بائیں سے ٹانگیں میری چارپائی پر رکھتے اور کبھی کبھی لات بھی مار دیتے ۔ لگاتار انکی سگرٹ نوشی کی وجہ سے کمرہ دوہیں سے بھر گیا جس سے مجھے سانس لینے میں تکلیف ہوتی۔ رات بھر وہ میرے کمرے میں لگے ٹی وی پر فٹ بال اور کرکٹ دیکھتے رہتے۔ ٹی وی کی آواز جان بوجھ کر اتنی اونچی رکھتے کہ میں سو نہیں سکتا تھا۔ ایک موقع پر میں نے انہیں کہا کہ کمرے میں شور شرابہ بند کریں مگر انکا رویہ مزید جارحانہ ہو گیا۔ میں نے سوچا اس وقت میری زندگی میری پہلی ترجیح ہے۔ لگتا تھا کہ وہ مجھے اتنا تنگ کرنا چاہتے تھے کہ ایک اور ہارٹ اٹیک ہو اور جان چھوٹے۔ میں نے دایاں ہاتھ کان کے نیچے رکھ کر آیت الکرسی پڑھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ ہلکی نیند میں تھا کہ کسی نے میری چارپائی کو لات ماری۔ میں چونک گیا۔ ابھی پوچھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ لات کس نے ماری تو وہ سیکورٹی افسران بڑ بڑانے لگے کہ روٹی کھانے کو نہیں ملتی اور دھماکے کرتے ہیں ایٹم بمب کے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ کیا بکواس کر رہے ہیں۔ اتنے میں نواز شریف ٹی وی پر نمودار ہوئے جس سے پتہ چلا کہ پاکستان نے ایٹمی دھماکا کیا ہے۔ جگہ کا نام شاید چاغی تھی۔ مجھے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی کہ نواز شریف کے ایٹمی دھماکے کا مجھ قیدی اور مریض سے کیا تعلق ہے کیونکہ لندن میں لیبیائی سفارت خانے کے سامنے ایک خاتون پولیس افسر جب فائرنگ سے قتل ہو گئی تھی تو تب بھی کچھ داروغوں نے میرے سیل میں گھس کر چیخ چیخ کر کہا مسلم باسٹرڈ ۔ اس طرح کسی بھی مسلمان ملک اور برطانیہ کے درمیان جب کوئی معاملہ بنتا تو نسل پرست انگریز افسر ہم مسلمان قیدیوں پر دشنام طرازی شروع کر دیتے۔

جیل افسران کی ہلڑ بازی کی وجہ سے جب میری صحت بگڑنے لگی تو میں نے اپنے کمرے کے اندر لگا سیکورٹی الارم بجا دیا۔ ایک افسر نے چلاتے ہوئے کہا میں نے ایسا کیوں کیا تو میں نے کہا شٹ یور بلاڈی مائوتھ۔ اینف از اینف۔ اب میری باری ہے۔ میں ایک فریڈم فائٹر ہوں۔ میں اپنا حق اور اختیار جانتا ہوں۔ اب میں تمہیں بتاتا ہوں میں نے ایسا کیوں کیا؟ ہسپتال کی سیکورٹی آئی تو میں نے کہا ایڈمن ھیڈ اور ڈاکٹر کو بلائیں۔ وہ دو تین منٹ میں پہنچ ائے۔ میں نے انہیں کہا جناب مجھے یہ بتایے کہ میں یہاں ہسپتال میں” قیدی ہوں یا مریض؟” دونوں نے یک زبان کہا "مریض.” میں نے کہا پھر ان جانوروں کو میرے کمرے سے بائر نکال دیں۔ یہ مجھے تنگ کر کے ایک اور ہارٹ اٹیک کا حملہ کروا کر مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کہہ کر میں نے ان جانوروں سے مخاطب ہو کر کہا میں اب پولیس کو بھی لیٹر لکھ کر بلانے لگا ہوں ۔ تمہارے خلاف ایف آئی آر درج کروائوں گا۔ وہ داروغے خوف زدہ ہو گے۔ ہسپتال کے ایڈمن نے جیل گورنر سے رابطہ کیا تو نئی سیکورٹی آئی گئی جن میں ایک خاتون تھی۔ اب وہ خود بھی چاکلیٹ کھاتی اور مجھے بھی دیتی اور وہ بھی رومانٹک انداز میں۔ یعنی ایک چاکلیٹ کے دو حصے کر کے آدھا مجھے دیتی اور آدھا خود کھاتی۔

قارئین کرام۔۔۔ بستر علالت پر اب کچھ تھکاوٹ ہو چکی ہے۔ ایسو سی ایٹیو میموری کا باقی حصہ پھر کبھی۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*