تحریر: طلحٰہ ملک
بلاشبہ مْلکِ خدا داد پاکستان کی زمینی، فضائی اوربحری سرحدیں الحمداللہ محفوظ ہاتھوں میں ہیں مگر پھر بھی ملک دشمنوں کی کثیرتعداد ہمارے اندر موجود ہے جومعصوم شہریوں اوروقتا فوقتا اداروں پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔ ہماری سکِیور ٹی ایجنسیاں ہمہ وقت ہمیں ان دہشتگرد عناصر سے محفوظ رکھنے کیلئے چوکنا رہتی ہیں۔دوسری جانب اندرونی سطح پر ایک ہی صف پر لڑنے سے تمام مسائل کا حل ناممکن نظر آتاہے۔سائنس کی ترقی نے جہاں اولادِ آدم کیلئے بے بہا آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں مشکلات کے انبار بھی لگائے ہیں۔ تمام شعبہ ہائے زندگی میں ان کرامات سے استفادہ تو حاصل کیا جارہا ہے مگر مشکلات کا سبب بھی سائنسی ایجادات کو ہی گروانا جارہاہے۔ ایک دہائی قبل ملکِ پاکستان کے ہر کونے میں بم دھماکوں کی گونج سے ہر طرف فضا سوگوار رہتی تھی مگر اب کی بار میں ”غذا کی فضا “ کی بات کررہا ہوں ہمیں درپیش چیلنجزمیں اہم مسئلہ خوراک سے وابستہ ہے۔
ملاوٹ سے پاک اور صحت بخش اشیائے خورونوش کی فراہمی کسی خواب سے کم نہیں لگتی۔ ملاوٹ سے پاک دودھ کا حصول مشکل ترین مرحلہ بن چکا ہے۔ خصوصاًشہری علاقوں میں ملاوٹ سے پاک دودھ کا ملناکسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ روزمرہ اشیائے خورونوش میں مکمل غذا سمجھے جانیوالے دودھ کی بات ہو یا پھر مشروبات کی۔۔ ہر جگہ جعلساز اور صحت دشمن عناصر کا تلاطم نظر آتا ہے۔ جدید مشینری اور کیمیکلزکے استعمال سے جعلی دودھ منٹوں میں تیار کرلیا جاتا ہے۔فارملین، میلامائن،یوریا،صابن،آئل اور سرف کے استعمال سے دودھ تیار کیا جارہا ہے۔ اونچی دکان پھیکے پکوان جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ پانی جو اللہ کی نعمتوں میں صفِ اول میں شمار ہوتا ہے کئی بیماریوں کا باعث بن رہاہے گندے پانی کا استعمال ہیضہ،ٹائیفائیڈ اور پیٹ کی متعددبیماریوں کا باعث بنتاہے۔
انواع واقسام کی سبزیاں، پھل جو پاکستان کا حسین قیمتی اثاثہ اور اللہ کا بے حد کرم جانا جاتاہے۔ اب آلودہ اور سیوریج زدہ پانی سے اگائی جارہی ہیں۔ روزمرہ استعمال کی سبزیوں کو اب تو شہروں اور دیہاتوں میں یکساں عمل سے گزارا جارہا ہے۔ غیر موسمی پھلوں کو پکانے یا تیارکرنے کا عمل توسمجھ میں آتاہے مگر اب موسمی پھلوں کو بھی جلد پکانے کا رواج عام ہوگیا ہے۔ موسم گرما کی آمد ہے اور پھلوں کا بادشاہ آم جگہ جگہ نظر آئے گا۔بد قسمتی سے اسے بھی مختلف کیمیکلزلگا کر مارکیٹ میں فروخت کیلئے پیش کیا جائے گا۔صحت دشمن منافع خور عناصرجلد پکانے کیلئے مختلف کیمیکلز کا سرعام استعمال کرتے ہیں۔
مٹن ہو یا بیف جانورں کاگوشت جو بھرپوروٹامنز کا حامل ہے اب پتہ نہیں کن کن بیماریوں کو عوت دے رہاہے۔ جانوروں کی گردنوں پر چھریاں چلانے والے قصاب گاہکو ں کی جیبوں میں ڈاکہ ڈالنے کے علاہ صحت پر بھی حملہ آور ہو رہے ہیں۔ آئے روزمردہ بیمار جانوروں کے گوشت کی خبریں زبان زدِ عام ہورہی ہیں۔ اس گوشت کا متبادل سمجھے جانے والے مرغی کے نرخ ایک طرف مردہ مرغیوں کی سپلائی بھی اپنے عروج پر ہے۔کبھی سوائن فلو کا خدشہ توکبھی دوکاندار بیماراور لاغر مرغیوں کا گوشت فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔
برِ صغیر کی سوغاتوں میں شامل ہونیوالے مصالحہ جات بھی ملاو ٹ مافیا کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں۔ رنگ برنگے خوشبو دار اور قدرتی مصالحہ جات میں کھلے رنگوں، برادے اور کیمیکلز کی ملاوٹ اب عام ہوچکی ہے۔ سرخ مرچوں، ہلدی میں برادہ رنگ اور پتہ نہیں کیاکیا ہمیں مصالحوں کے نام پر کھلایا جاتاہے۔ ان مصالحوں کا استعمال معد ے اور انتڑیوں کی بیماریوں کا باعث بن رہاہے۔ روزمرہ استعمال میں آنیوالے آئل کے نرخ تواب آسمانوں کو چھورہے ہیں مگر جانوروں کی انتریوں کو بڑے بڑے کڑاہوں میں پگھلا کر انسانوں کو صحت بخش آئل کی پیکنگ لگا کر فروخت کیا جارہا ہے۔ اندھیر نگری چوپٹ راج والامحاورہ یاد آرہا ہے۔ کسی نے خوب کہا تھا کہ انسان کا لباس دراصل انسان کی خوراک ہے۔مگر افسوس ہم نے اوڑھنے بچھونے والے لباس پر تو خوب نظریں جما رکھی ہیں مگر جسم کو توانا وصحت مند رکھنے والے لباس پر دھیان نہیں دیا جارہا۔ صاف پانی بیچنے والی کمپنیاں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں مگرپھر بھی صحت بخش پانی نایاب ہے۔ ملٹی نیشنل بر انڈز سے لے کر عام دوکانوں پرملنے والے پانی میں بھی مکمل قدرتی خصوصیات ملنے سے قاصر ہیں۔ مشروبات کی طویل فہرست جو دلکش رنگوں اورفلیورزمیں باآسانی مل جاتی ہیں،کاربونیٹڈ ڈرنکس کا بازار ہر طرف گر م ہورہا ہے۔جو سزکے نام پر بننے والے زہر نے ہمارے بچوں کو جسمانی وذہنی معذور بنانا شروع کردیا ہے۔ اوپن مارکیٹ کے نام پر ہمارے نسلوں کی صحت داؤ پر لگائی جارہی ہے۔ صحت مند غذاؤں کا کلچر فاسٹ ٖفوڈ کے استعمال سے گراوٹ کا شکار ہوتا جارہاہے۔ غرضیکہ ہماری روایات بھی روز بروز دم توڑتی نظر آرہی ہیں مگر ان پر سوچنے کا وقت کسی کو نہیں ہے۔
ملکِ پاکستان کے تمام صوبو ں میں حالات تو یکساں نظر آتے ہیں مگر صوبہ پنجاب میں فوڈ اتھارٹی قدرے متحرک نظر آرہی ہے۔گزشتہ ایک دہائی سے کا م کرنیوالے ادارے نے اگر چہ کچھ منظم قوانین بنائے ہیں مگر ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ کھلے مصالحوں کی فروخت پر مکمل پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ نام نہادانرجی ڈرنکس بیچنے والوں کی جعلسا زی کو بھی بے نقاب کیاہے۔ ایسے ہی عوام دشمن عناصر اپنے مزموم مقاصد اور جعلسازی کو چھپانے کیلئے حکومتی اداروں اور مشینری کو بدنام کرنا شروع کردیتے ہیں۔جو نہائت گھناؤنا فعل ہے۔پنجاب میں مختلف دوکانوں پر لگے سبز وسفید رنگ کے لائسنس اس ادارے کی جانب سے جاری کیے جاتے ہیں تو دوسری طرف کام کرنیوالے ملازمین کے میڈیکل ٹیسٹ بھی لازمی قرار دیے گئے ہیں۔ حفظان صحت کے اصولوں کی پاسداری نہ کرنیوالوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں بھی کی جارہی ہیں۔ ملاوٹی دودھ فروخت کرنیوالے صحت دشمن عناصر کی سرکوبی کیلئے شہروں کے داخلی راستوں پر جدید مشینوں سے دودھ چیک کرنا یہ احساس دلاتا ہے کہ امید ابھی باقی ہے۔کاوشیں تو کی جارہی ہیں مگر پانی سر سے گزر تا جا رہا ہے۔ملک بھر میں محفوظ خوراک کی فراہمی یقینی بنانیوالے اداروں کی استعدادکار بڑھانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہماری سرحدوں کے اندرچھپے صحت دشمن عناصر کے مکروہ چہرے جلد از جلدبے نقاب کیے جاسکیں۔ دوسرے صوبوں کی بھی فوڈ ریگولیرٹریزکا ماڈل اگرچہ بعد میں آیا ہے مگر کام کی برق رفتار ی اور قوانین پر عمل داری جلد ممکن بناناوقت کا تقاضا ہے۔صوبائی حکومتوں کوخوراک سے وابستہ اداروں پر خصوصی نظر رکھنی چاہیے تاکہ ہم صحت مند غذا کے کلچر کو دوبارہ فروغ دے سکیں کیونکہ ابھی "غذا کی فضا سوگوراہے”۔