عوامی مسائل کی جانکاری کے لیے مسجدوں میں پولیس ٹیم کے دورے

عوامی مسائل کی جانکاری کے لیے مسجدوں میں پولیس ٹیم کے دورے

تحریر: قیوم راجہ

انسپکٹر جنرل پولیس کے حکم پر ان دنوں پولیس کی ٹیمیں اپنے اپنے علاقوں کی مساجد میں جا کر عوام کے مسائل سن رہی ہے۔ ہماری مقامی مسجد گھوڑا میں بھی آج ڈپٹی سپرینٹنڈنٹ پولیس اشتیاق گیلانی کی قیادت میں ہمراہ ایس ایچ او تھانہ محمد ضیاء ایک ٹیم ائی اور بعد از نماز جمعہ عوام کو مسائل پیش کرنے اور انکے حل کے لیے تجاویز کی دعوت دی۔ اس موقع پر مقامی نمائندوں پرنسپل اقرا سائنس کالج گھوڑا راجہ صیاد خان، راجہ محمد شفیق خان ، راجہ ارشاد خان اور راجہ مشتاق خان نے پولیس کی عوامی رابطہ مہم کا خیر مقدم کرتے ہوئے جرائم اور ٹریفک کے بڑھتے ہوئے مسائل پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر پولیس اپنے فرائض کی انجام دہی میں اپنا کردار اداکرے گی تو عوام بھی بھرپور تعاون کرے گی۔ اجاگر کیے گے مسائل کو پولیس نے باقاعدہ درج کیا اور ڈپٹی سپرینٹنڈنٹ پولیس اشتیاق گیلانی نے ان ہر بھرپور توجہ کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ جرائم کو ہر صورت میں تھانے درج کرایا جائے تاکہ جرائم کی شرح کا اندازہ ہو سکے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی ادارہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک عوام ساتھ نہ دیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام کا اعتماد بھی اسوقت تک بحال نہیں ہوتا جب تک ادارہ بلا تخصیص قانون کی عمل داری یقینی نہ بنائے۔

میں 2005 میں بھارتی سفارتکار مہاترے کیس میں جب برطانیہ سے بری ہو کر آیا تو محسوس کیا کہ آزاد کشمیر جسے تحریک آزادی کا بیس کیمپ کہتے ہیں جس کے لیے اسے باقی ماندہ جموں کشمیر کے لیے ایک نمونہ ہونا چاہیے تھا اس کا ہر ادارہ غیر فعال اور خستہ حال ہے۔ مناسب سمجھا کہ سیاسی تبصروں پر انحصار کرنے کے بجائے اداروں کی کمزوریوں اور اصلاح کے لیے باقاعدہ تحقیق کی جائے۔ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر بشیر مغل سے تحریری اجازت لے کر میں نے قوالیٹیٹو ریسرچ کی اور بے شمار ایسے حقائق جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا جو عام زندگی میں نظر نہیں آتے۔ اس رپورٹ کی تفصیل میں اگر جائوں تو بات طویل ہو جائے گی لیکن مختصرا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس خطے کے گرتے ہوئے سیاسی معیارات نے ہمارے معاشرے کے اخلاقی معیار پر بہت مضر اثرات مرتب کیے ہیں ۔ سیاستدانوں نے عوام کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ مجھے اب یہاں کافی عرصہ ہو گیا ہے۔ مجھے ہر ادارے سے واسطہ پڑا ہے۔ میں اپنے مشاہدات ،تجربات اور تحقیق کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ ہر ادارے میں باصلاحیت، با کردار اور فرض شناس افسران موجود ہیں لیکن انکو کرپٹ سیاست دان چلنے نہیں دیتے۔ ادارے تب مضبوط ہوتے ہیں جب اصول و قواعد کے مطابق وہ خود اپنے ملازمین بھرتی کریں لیکن وزراء اسکی اجازت نہیں دیتے۔ وزراء عرصہ دراز سے میرٹ سے ھٹ کر فیصلے کرتے ا رہے ہیں جسکی وجہ سے اداروں میں سیاستدانوں کے وفادار زیادہ اور اپنے ادارے کے وفادار کم ییں۔ دوسرے لفظوں میں با اصول اور باکردار افسران اقلیت میں ہیں جنہیں سیاسی تعصب اور اپنے ادارے کے اندر بھی مخالفت کا سامنا رہتا ہے۔ بلا شبہ ایسے افسران کو عوام کی اخلاقی حمایت کی ضرورت ہے مگر عوام کی اکثریت بھی قانون کی بالادستی کے بجائے قانون شکنی یا اسے بائی پاس کر کے وقت کو دھکا دینے کو ترجیح دیتی یے۔ عوام یہ بھی بھول جاتی ہے کہ اداروں میں بیٹھے ہوئے لوگ فرشتے نہیں ہیں بلکہ وہ ہمارے ہی گھروں کے چشم و چراغ ہیں۔ جو تربیت انہیں گھروں اور تعلیمی اداروں سے ملی ہے انکے رویے اسی تربیت کا نتیجہ ہیں۔ المختصر کہ اگر ہمارے اپنے گھروں اور تعلیمی اداروں کا ماحول ٹھیک ہو جائے تو پورے معاشرے کی اصلاح بہو سکتی یے۔

تعارف: ویب ڈیسک

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*