تحریر : سید فرحان الحسن
پاکستان میں آمریت کے خاتمے (بظاہر خاتمے) کے بعد 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی اور 2013 میں عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوئیں اور کسی نہ کسی طرح روتے پیٹتے ان جماعتوں نے 5 سال گزار ہی لیئے۔2018 میں پھر سے ملک میں عام انتخابات ہوئے اور طاقت کے ایوانوں میں عمران خان صاحب اور پاکستان تحریک انصاف کی صورت ایک نئی اور بھرپور آواز سامنے آئی جس کے اقتدار میں آنے پر ملک میں بالعموم اکثریت خوش تھی۔ وجہ یہ تھی کہ لوگ پرانے لوگوں کے پرانے وعدوں اور بے وفائیوں سے تنگ آ چکے تھے۔ سیاسی جماعتوں میں اقرباءپروری اور کرپشن پر نالاں عوام نے نئی حکومت کا ساتھ دینے کا عہد کیا اور آج سے 4 سال پہلے نئے پاکستان کی پہلی اینٹ نصب کر دی گئی۔
عمران خان صاحب نے حکومت میں آتے ہی کرپشن کے خلاف اعلان جنگ کیا اور انتخابی اصلاحات کا بیڑہ اٹھایا جو ان کی حکومت کے احسن اقدامات تھے اور ملک کو ان کی ضرورت بھی تھی، لیکن جانے انجانے میں ان سے ایک غلطی سرزد ہو گئی اور وہ یہ تھی کہ انہوں نے چار سال تک اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ ملک و قوم کو لوٹنے والے سیاست دانوں کو قانون کی گرفت میں لائیں اور عوام کو ان کے نام نہاد مسیحاؤں کا اصل چہرہ دکھائیں، انتخابی اصلاحات پر دن رات کام کریں۔ لیکن انہوں نے احتساب اور انتخابی اصلاحات کو اپنے ایجنڈا میں بتدریج نمبر 1اور 2 پر رکھا جو شاید عمران خان صاحب کی سب سے بڑی غلطی تھی۔۔۔۔۔
ریاست مدینہ کی دعویدار تحریک انصاف کی حکومت اور خود عمران خان صاحب یہ بھول گئے تھے ریاست مدینہ کا تصور ایک اسلامی فلاحی ریاست کا تصور ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان صاحب اپنے انتخابی منشور سے دور ہوتے گئے اور عوامی فلاح کے لیے خاطرخواہ کام نہ کر سکے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف عوام بلکہ تحریک انصاف کے اندرونی حلقے بھی بدزن ہوتے گئے، جس کی ایک جھلک مختلف نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج کی صورت میں دیکھی جاتی رہی لیکن عمران خان صاحب اور تحریک انصاف نے ان اشاروں پر کان تک نہ دھرا اور ایک ہی بات چار سال تک دہراتے رہے کہ ’’میں ان کو این آر او نہیں دوں گا‘‘۔۔۔ کرپشن پاکستان اور دیگر ترقی پزیر ممالک کو ایک ناسور کی طرح چاٹ رہی ہے اور انتخابی اصلاحات کی اہمیت بھی بہت، لیکن اسلامی فلاحی ریاست میں عوامی فلاح کسی بھی حکومت کی ترجیح ہونی چاہیئے، یہ بات عمران خان کو سمجھ آتے آتے چار سال کا عرصہ گزر گیا اور جب ان کو احساس ہوا کہ عوامی حلقوں میں مقبول ہونے کے لیے عوامی فلاح کے منصوبوں پر کام کرنا بہت ضروری ہے اس وقت تک پانی سر سے گزر چکا تھا۔۔۔۔۔ پاکستان میں فری لانسنگ کی ترقی کے لیے جتنا کام عمران خان صاحب کی حکومت میں ہو ااس سے پہلے نہ ہوا تھا، پناہ گاہیں اور لنگر خانے بھی قائم کیے گئے جن کا کریڈٹ آپ عمران خان صاحب سے چھین نہیں سکتے لیکن یہ سب کچھ کافی نہیں تھا۔۔۔۔ خان صاحب جو خود ایک کرکٹر اور قومی ٹیم کے کپتان رہ چکے ہیں وہ یہ بھول گئے کہ وکٹ لینے کے لیے ڈیلیوری اچھی ہونا ضروری ہے۔
اگر خان صاحب عوامی فلاح کے کاموں کو سرفہرست رکھتے، روزگار ایمرجنسی نافذ کرتے، ملک میں انڈسٹری کو فروغ دیتے اور ساتھ ساتھ احتساب کو احتسابی اداروں کے حوالے کر کے ان پر کڑی نظر رکھتے اور ایسے قوانین پارلیمنٹ سے منظور کرواتے جن کے ذریعے بدعنوان سیاستدانوں اور سرکاری افسران کے گلے میں پھندا ڈالا جا سکتا اور ساتھ ساتھ انتخابی اصلاحات پر کام کرتے رہتے تو شاید منظر کچھ مختلف ہوتا اور ان کی حکومت کو اس سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔۔۔۔۔۔ پھر شاید موسمی پرندے سر پر تبدیلی بعد از تبدیلی کے بادل منڈلاتے دیکھ کر قبل از وقت کوچ نہ کرتے اور شاید نیا پاکستان بن ہی جاتا۔۔۔۔۔۔ لیکن سب حالات تقریباً سازگار ہونے کے باوجود نیا پاکستان بنتے بنتے رہ گیا۔